Column

خون زندگی کی روانی ہے

امتیاز یٰسین
ہمارے جسم میں دوڑنے والا خون زندگی کی علامت و حرارت ہے۔ آکسیجن کی طرح خون بھی انسان، حیوانات، چرند، پرند، حشرات وغیرہ کی سانسوں کو بحال رکھنے کے لئے بنیادی ضرورتوں کا جزوِ لانیفک ہے۔ خون غذائیت کو انسانی و حیوانی جسم تک پہنچانے ہیمو گلوبن کی مدد سے آکسیجن کی فراہمی کا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہر سال چودہ جون کو دنیا بھر میں خون عطیہ کرنے کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد خون کی کمی والے مریضوں، حادثاتی زخمیوں، سرجری ، تھیلیسیمیا،ہیموفیلیا اور کینسر وغیرہ کے عارضہ میں مبتلا مریضوں کو خون عطیہ کر کے ان کی زندگیاں بچانے کا شعور اور احساس اجاگر کرنا ہے ۔ ان افراد کی بے لوث عوامی خدمات کا اعتراف کرنا ہے جو خون کے عطیات دے کر یا اکھٹا کر کے ضرورت مندوں سے زندگیاں شیئر کرتے ہیں۔ یہ دن آسٹریا میں پیدا ہونے والے نوبل پرائز سائنسدان کارل لینڈ سٹائنر کے خون کی بناوٹ اور غذا کے خون پر اثرات، خون گروپس کی دریافت کے وسیع تر ریسرچ اور تحقیقی خدمات کے اعتراف میں اس کے جنم دن پر منایا جاتا ہے۔ انسانی خون کے متعلق آج کی جدید سائنس اور تحقیق کی ایک سو بیس سال قبل شروعات کرنے والے اس انسانی مسیحا کے تجرباتی کھوج کے مطابق ایک ہی قسم کے بلڈ گروپس کو ملانے سے بلڈ سیل مفید ،کارگر صحت بخش جبکہ مختلف گروپس کا ملاپ بلڈ خلیوں کی تباہی صحت کی بربادی پر منتج ہوتا ہے۔ کیمسٹری کے اس مایہ ناز ماہر حیاتیات محقق کی تحقیق و تھیوری آج بھی ڈاکٹرز، میڈیکل سائنس کے لئے رہنمائی اور انسان کی زندگی کی رمق کو دوام بخش رہی ہے جس کی محنت شاقہ سے دنیا میں پہلی بار خون گروپسA،B،AB،O کے سراغ لگانے سے خون کی منتقلی کا کامیاب آغاز ہوا ۔ کارل چودہ جون 1868کو پیدا ہوئے۔ خون کا عالمی دن منانے کا اعلان اقوام متحدہ نے2004سے کیا۔ اس دن کو خون کے عطیات کی مہم کو سود مند بنانے کے لئے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی طرف سے ہر سال ایک نیا اور پرکشش سلوگن دیا جاتا ہے۔ جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق خون عطیہ کرنے والے کو ایک طرف روحانی سکون ملتا ہے تو دوسری طرف طبی ماہرین کے مطابق خون دینے سے انسان کی صحت پر مفید و خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بالغ انسانی جسم میں چار سے ساڑھے پانچ لیٹر خون ہوتا ہے جبکہ قدرت نے ایک لیٹر اضافی خون کا ذخیرہ رکھا ہے چھ سال سے کم عمر بچے میں کپ بھر خون موجود ہوتا ہے، خون کی مقررہ مقدار سے کمی سے دل کو خون کی طلب رسد میں عدم توازن بلڈ پریشر برقرار رکھنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے زندگی کے پائے ثبات کو شدید خدشات لاحق ہو جاتے ہیں۔ زیادہ تر خون پلازما ( آبدم) سے بنتا ہے۔ شریانوں میں دوڑنے والے خون کی رفتار دو میٹر فی سیکنڈ ہوتی ہے یوں ایک دن میں محنت کش عضو دل سے کم و بیش دس ہزار لیٹر خون گزرتا ہے۔ ہر انسان کے جسم میں رواں دواں خون اس کے کل وزن کا دس فیصد ہوتا ہے۔ سر سے لیکر پائوں تک جسم کے ہر اعضاء میں خون کو پہنچانے کی ذمہ داری جسے دورانِ خون بھی کہا جاتا ہے قدرت نے بند مٹھی کی شکل کے عضلاتی عضو دل پر عائد کی ہے جو دل کے حصے آٹریا اور وینٹریکلز سر انجام دیتے ہیں۔ ہمارے جسم میں بغیر آکسیجن والا خون پیھپڑوں سے دائیں آٹریم کے ذریعے جبکہ آکسیجن بھرا خون بائیں آٹریم کے رستے دل میں داخل ہوتا ہے ۔ دل کے دائیں وینٹری کلز واپس خون کو پیھپڑوں کی راہ دکھاتے ہیں جبکہ بائیں وینٹری کلز پوری جسم میں خون کو دھکیلنے کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ سماجی طور پر کسی کے لئے خون دینا اور بہانا محبت، قربانی اور وفا کی علامت سمجھا جاتا ہے اس خون جگر سوز نہانی پر شعراء کرام نے گہرائی اور گیرائی سے قلم آزمائی کی ہے۔ آج دنیا کی جدید میڈیکل ریسرچ اس بات کی معترف ہے کہ تین چار ماہ کے بعد وقتا فوقتا خون عطیہ کرنے سے خون کے نئے خلیات الدم ( سرخ و سفید) زیادہ طاقت ور ہونے سے انسان دل اور کینسر کے امراض سے محفوظ رہتا ہے۔ خون کی روانی اعتدال پر رہتی ہے، قوت مدافعت کے عمل کو استحکام ملتا ہے ۔ خون دینے والے کی فالتو چربی تحلیل ہونے سے موٹاپے کا شکار نہیں ہوتا۔ ماہرین اطباء کے نزدیک جسم میں آئرن کی مقدار کو بیلنس رکھنے میں خون عطیہ کرنے کا نہایت اہم کردار ہے۔ جلد میں تنائو پیدا ہونے سے ساتھ جسم پر جھریاں نہیں پڑتیں۔ خون عطیہ کرنے والے کی ڈاکٹرز طبی چیک اپ جس میں بلڈ پریشر صحت، جنس، عمر، وزن اور بیماریوں کی جانچ سکریننگ کے بعد کلیئر کرتی ہے تاکہ ہیپا ٹائٹس ،ایڈز وغیرہ جراثیم سے آلودہ خون کی منتقلی نہ ہو۔ تشویش ناک امر ہے ہمارے ہاں بلڈ کی ضرورت کے مطابق بہت کم خون اکھٹا ہونے سے بہت سی قیمتی جانیں موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ اس دن کے منانے کا مقصد شہریوں میں خون عطیہ کی اہمیت و شعور کو اجاگر کر کے انسانی زندگیوں کو بچانا ہے۔ رضا کارانہ طور پر بلڈ دینے اور اکھٹا کرنے کے لئے سیمینار، ورکشاپ کا انعقاد کرنے کے ساتھ ساتھ منظم طریقے سے مہم کو تیز کر کے عطیہ دہندگان کی تعداد اور ذخائر بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اعداد شمار کے مطابق پاکستان میں دو فیصد لوگ ہی باقاعدہ خون عطیہ کرتے ہیں جبکہ نوے فیصد مریضوں کے خون کی ضروریات ان کے خویشاوَند ہی پوری کرتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button