قیدیوں کو سہولتوں کے حکومتی دعوے

امتیاز عاصی
قیدیوں کو سہولتوں کی فراہمی کا دعوی ہر حکومت کا معمول رہا ہے مگر حقیقت اس کے بر عکس ہوتی ہے ۔ انگریز کے بنائے ہوئے جیل مینوئل کو چھوڑ کر نئے نئے رولز بنائے جا رہے ہیں۔ تعجب ہے جیل مینوئل میں ترمیم کئے بغیر قیدیوں کی رہائی کے لئے نئی نئی شرائط لگائی جا رہی ہیں۔ انگریز کا بنایا ہوا جیل مینوئل چاروں صوبوں میں نافذ العمل ہے ایک طرف قیدیوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتوں کے دعوے دوسری طرف قیدیوں کی پیرول پر رہائی کا مرحلہ آتا ہے تو نت نئی شرائط لگا کر انہیں رہائی سے محروم رکھا جاتا ہے۔ انگریز نے جو قانون بنایا تھا اس میں قیدی کا اندرون جیل کنڈکٹ تسلی بخش ہونا چاہیے اور قید کا ایک تہائی حصہ گزارنے والے قیدی پیرول پر رہائی کے حق دار ہوتے ہیں۔ جہاں تک قیدی کے چال چلن کی بات ہے اس سلسلے میں جیلوں کے سپرنٹنڈنٹس سے رپورٹس لی جاتی ہے تاکہ قید کا ایک تہائی حصہ گزارنے والے قیدیوں کی پیرول پر رہائی عمل میں لائی جا سکے۔ جن دنوں میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے قیدیوں کی بہت بڑی تعداد کو پیرول پر رہائی ملی تھی۔ ان دنوں پیرول پر رہائی کا اختیار پنجاب کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ کے پاس ہوا کرتا تھا۔ یہ تو عمران خان کے پسندیدہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار دور میں ہوا کہ سیکرٹری داخلہ سے پیرول پر رہائی کا اختیار لے کر کابینہ کی لاء اینڈ آرڈر کمیٹی کو دے دیا گیا۔ کابینہ کی کمیٹی برائے لاء اینڈ آرڈر نے پیرول پر قیدیوں کی رہائی کو گھمبیر بنا دیا ہے۔ نگران دور میں کابینہ کی لاء اینڈ آرڈر کمیٹی کے چیئرمین نے قیدیوں کی پیرول پر رہائی کو گنا سمجھ کر معاملہ نئی حکومت پر چھوڑ دیا۔ عجیب تماشا ہے سیکرٹری داخلہ کوئی غیر ذمہ دار ہوتا ہے جو اس سے قیدیوں کی پیرول پر رہائی کا اختیار لے کر کابینہ کی لاء اینڈ آرڈر کمیٹی کو دے دیا گیا۔ تعجب ہے نئی حکومت نے پیرول پر رہائی کے معاملے کو کابینہ کی لاء اینڈ آرڈر کمیٹی کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا حالانکہ نئی حکومت کو چاہیے تھا یہ اختیار سیکرٹری داخلہ کو واپس دے دیا جاتا۔ ہمیں تو کابینہ کی لاء اینڈ آرڈر کمیٹی پر حیرت ہوتی ہے بغیر سوچے سمجھے فیصلے کر لئے جاتے ہیں۔ کابینہ کی لاء اینڈ آرڈر کمیٹی نے قیدیوں کی پیرول پر رہائی کو سپیشل برانچ کی رپورٹ سے مشروط کر دیا ہے۔ اللہ کے بندوں قیدی تو جیلوں میں ہوتے ہیں ان کے بارے میں رپورٹ جیلوں کے سپرنٹنڈنٹس بہتر کر سکتے ہیں یا جیلوں سے باہر سپیشل برانچ کے ملازمین دے سکتے ہیں؟ عثمان بزدار کے دور سے اب تک ماسوائے چند قیدیوں کے پیرول پر کسی کی رہائی نہیں ہو سکی ہے۔ ایک اور نئی شرط پنجاب حکومت نے لگائی ہے ایسے قیدی جن کی رہائی میں دو سال سے کم عرصہ رہ گیا ہوگا صرف وہی پیرول پر رہائی کے مستحق ہوں گے۔ ابھی یا تو جیل مینوئل میں ترمیم کر لو ورنہ جیل مینوئل سے ہٹ کر نئے نئے رولز بنانے کا کیا مقصد ہے۔ پیرول پر رہائی صرف انہی قیدیوں کی ہوتی ہے جو قتل کے مقدمات میں عمر قید کی سزا بھگت رہے ہوتے ہیں۔ پرویز مشرف کے دور سے قتل کے مقدمات میں سزا یاب ہونے والوں کے لئے مذہبی تہواروں پر ملنے والی صدارتی معافیوں کا اطلاق نہ ہونے سے قیدیوں کی رہائی کا عمل رک گیا ہے۔ عثمان بزدار کے دور میں محکمہ پیرول کی تنظیم نو کی گئی جس میں ایک ڈائریکٹر کی بجائے ایک ڈائریکٹر جنرل اور ڈائریکٹر و ڈپٹی ڈائریکٹر کی اسامیاں تخلیق کی گئیں۔ پیرول کے دفاتر کو پرانی عمارت سے مال روڈ پر کرایہ کی نئی عمارت میں شفٹ کر دیا گیا۔ محکمہ کی تنظیم نو پر کئی کروڑ خرچ ہوئے۔ قیدیوں کی نقل و حرکت کی نگرانی کے لئے سافٹ ویئر بنایا گیا ہے اس مقصد کیلئے قیدیوں کی کلائی پر ایک کڑا لگانا تھا جس سے اس کی نقل حرکت کو مانٹیر کیا جا سکتا تھا یہ سب چیزیں کہاں گئیں ہیں۔ نئی اصلاحات میں پیرول پر رہائی پانے والوں کو اپنے آبائی اضلاع کی بجائے کہیں بھی ملازمت کرنے کی آزادی دی جانی تھیں وہ تمام کے تمام منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ اس ملک کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے جب کوئی حکومت بدل جاتی ہے آنے والی حکومت جانے والی حکومت کے منصوبوں پر عمل درآمد کو بہت بڑا گنا تصور کرتی ہے۔ پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز صوبے کے عوام کے مسائل کو حل کرنے میں بہت متحرک ہیں شائد قیدیوں کی ان مشکلات کا انہیں علم نہیں ہے ورنہ یہ ممکن نہیں میاں شہباز شریف کے دور میں کئی سو قیدیوں کو پیرول پر رہائی ملی جس کے بعد عثمان بزدار کے دور سے اب تک چند قیدیوں کی پیرول پر رہائی عمل میں لائی گئی ہے۔ ہم وزیراعلیٰ کے علم میں لانا چاہتے ہیں جب سے قتل کے مقدمات میں سزا پانے والوں کے لئے معافیاں بند ہوئی ہیں عمر قید کی سزا پانے والوں کو کم از کم بیس برس تک جیلوں میں رہنا پڑتا ہے۔ عمر قید کی سزا پانے والے قیدیوں کو جیل مینوئل کے مطابق اگر اندرون جیل ان کا کنڈکٹ تسلی بخش ہو تو دس سال قید پوری کرنے والوں کو پیرول پر رہا کیا جا سکتا ہے۔ پنجاب کی وزیراعلیٰ کو قیدیوں کی مشکلات کا بخوبی علم ہے قید کا ایک ایک لمحہ قیدیوں کے لئے کسی پہاڑ کو سر کرنے سے کم نہیں ہوتا لیکن سیاسی رہنمائوں کو کوئی اختیار مل جائے تو بغیر سوچے سمجھے من مانے فیصلے کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ حیرت تو اس امر پر ہے کابینہ کی لاء اینڈ آرڈر کمیٹی کے اجلاس میں آئی جیل جیل خانہ جات، ڈی آئی جی، ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری داخلہ اور پیرول کے محکمہ کا ڈائریکٹر جنرل کے علاوہ محکمہ جیل خانہ جات کا لاء آفیسر شرکت کرتا ہے کابینہ کے ارکان کو اصل صورت حال سے آگاہ کرنے سے جانے کیوں گریزاں ہوتے ہیں۔ قیدیوں کو پیرول پر رہائی دینے سے ایک طرف جہاں قومی خزانے پر مالی بوجھ کم ہوتا ہے دوسری طرف جیلوں میں نئے قیدیوں کے قیام کے لئے جگہ میسر ہو سکتی ہے۔ تازہ ترین صورت حال میں صوبے کی جیلوں میں مقررہ تعداد سے کہیں زیادہ قیدی ہیں لہذا حکومت کو جیل مینوئل پر پوری طرح عمل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔





