متوقع مذاکرات

محمد مبشر انوار( ریاض)
دنیا تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے اور عالمی طاقتیں حالات کی نزاکتوں کو سمجھتے ہوئے بتدریج نئے لائحہ عمل اپناتی دکھائی دے رہی ہیں۔ امریکہ ،حماس کے ساتھ انفرادی طور پر معاملات طے کرتا دکھائی دے رہا ہے کہ اسرائیل کو مسلسل سمجھانے کے باوجود،اسرائیل اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہیں آ رہا ،جبکہ تقریبا آٹھ ماہ کے بعدبمشکل اپنے چند مغویان کو رہا کروانے میں کامیاب ہو سکا ہے،حالانکہ غزہ ایک چھوٹا سا علاقہ ہے جہاں حماس نے اسرائیل کو ناکوں چنے چبوا رکھے ہیں،تاہم اس کے عوض جس بربریت کا مظاہرہ اسرائیل نے کیا ہے،اب امریکہ بھی اس کابوجھ اٹھانے کو تیار دکھائی نہیں دیتا۔بہرکیف یہ الگ اور طویل بحث طلب موضوع ہے،یہاں اس کا فقط حوالہ دینا مقصود تھا کہ کس طرح دنیا اپنے ریاستی مفادات کی خاطر ،حالات کے مطابق اپنا طریقہ کار تبدیل کرنے سے نہیں ہچکچاتی بلکہ ہمیشہ ریاست کو ترجیح دی جاتی ہے،اس میں کسی کی کوئی ذاتی انا،طویل عرصہ تک قائم نہیں رہتی۔پاکستانی سیاست پر نظر دوڑائیں تو بدقسمتی سے اس رویہ کا شدید فقدان دکھائی دیتا ہے اور یہاں طبقاتی تقسیم انتہائی واضح ہے کہ وہ جن کے لئے قانون مکڑی کے جالے سے زیادہ اہم نہیں اور دوسرے وہ جنہیں قانونی شکنجوں میں ایسے کس دیا جاتا ہے کہ وہ سانس تک نہیں لے پاتے البتہ جو مقتدرہ کے حضور سرنگوں /سجدہ ریز ہو جائیں،ان کے لئے قانون نامی کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہتی۔ریاستوں کا استحکام اور توقیر درحقیقت قانون کی بالا دستی سے مشروط ہے جبکہ پاکستان کو جید ماہرین قانون اس وقت سر زمین بے آئین کہہ کر پکار رہے ہیں کہ یہاں تو بنیادی انسانی حقوق بھی سلب کئے جا چکے ہیں اور صرف اسے زندہ رہنے کا حق ہے جو طاقتوروں کے زیردست رہے،ان کی ہر بات پر آمنا و صدقنا کہے وگرنہ جیل کی کال کوٹھریاں ہی اس کا مقدر دکھائی دیتی ہیں۔ ایسی کئی ایک مثالیں اس وقت پاکستان میں دیکھنے کو مل رہی ہیں کہ ایک ہی شخص کو بیک وقت پاکستان کے کئی شہروں میں دکھا کر،اس کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے،عدالتوں سے ضمانت ملتی ہے،رہائی کا حکم صادر ہوتا ہے لیکن دوسرے شہر کی پولیس ،رہائی کے وقت جیل کے باہر موجود ہوتی ہے اور اسے دوبارہ گرفتار کر لیا جاتا ہے۔تعصب اور شاہی خاندان کی غلامی میں ایسے مظاہرے ممکن ہے لیکن کسی ایسی ریاست میں جہاں قانون کی حکمرانی ہو،ایسے مناظر قطعا نہیں دیکھے جا سکتے اور نہ ہی پولیس گردی کی ایسی مثالیں دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔جبکہ دوسری طرف عام شہریوں کے ساتھ جو سلوک پولیس و دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے روا رکھتے ہیں،خدا کی پناہ،ایک عام شہری اپنے حقوق کے لئے تھانہ کچہری کے چکروں کا سوچ کر ہی لرز جاتا ہے کہ یہ محکمے بجائے داد رسی کرنے کے،الٹا مدعی کو ناکوں چنے چبواتے ہیں جبکہ ظالم کے ساتھ گٹھ جوڑ کر تے دکھائی دیتے ہیں اور اس کو تحفظ دیتے دکھائی دیتے ہیں۔
عدالتی مکالمے میں ایک معزز رکن بنچ کا عمران خان کو یہ کہنا کہ آپ کی باتیں ہمیں خوفزدہ کر رہی ہیں،حالات کی سنگینی کو سمجھنے کے لئے کافی ہیں بالخصوص اس پس منظر میں کہ جب ہر طرف یہی باتیں گونچ رہی ہوں کہ موجودہ حکومت صرف بجٹ تک کی مہمان ہے۔بعد ازبجٹ بہت سے طبقے اس خدشے کا اظہار کھل کرکررہے ہیں کہ چونکہ موجودہ حکومت بیشتر جہات پر توقعات پر پوری نہیں اتری لہذا اس کا جانا ٹھہر گیا ہے۔ویسے اس حقیقت میں کوئی کلام نہیں کہ پاکستان میں گذشتہ تین پارلیمانی ادوار گو کہ اپنی مدت پوری کر چکے ہیں لیکن جس طرح یہ مدت پوری ہوئی ہے،ہم سب اس سے یخوبی واقف ہیں اور تب بھی ہمہ وقت یہی دھڑکا لگا رہتا تھا کہ جمہوری حکومت اب گری کہ تب گری لیکن پارلیمان کے اندر سے ہی قیادت تبدیل ہوتی رہی اور کئی ایک مواقع پر جب یقین ہو چلا کہ جمہوری نظام کو لپیٹنے کاو قت ہوا چاہتا ہے،غیر متوقع طور پر جمہوری نظام چلتا رہا۔تاہم یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ کیا جمہوری نظام واقعتا جمہوری اصولوں پر قائم رہا یا اس کے پس پردہ کسی غیر جمہوری عنصر کی دانستہ /مصلحتا خاموشی رہی؟واقفان حال اس سے بخوبی واقف ہیں کہ غیر حمہوری عنصر کو کیا ضرورت تھی کہ جب پیش منظر میں آئے بغیر ہی اس کی مرضی و منشاء کے مطابق حکومت چل رہی ہوتو اسے پیش منظر میں آنے کی ضرورت کیا ہے؟البتہ جہاں غیر جمہوری عنصر کی بات نہیں مانی گئی،وہاں رجیم چینج کی صورت میسر رہی لیکن جمہوری حکومت کی پارلیمانی مدت تب بھی مکمل ہوئی،اس سب کے باوجود یہ توقع کرنا کہ غیر جمہوری طاقت ،پسپا ہو چکی ہے،عبث ہے وگرنہ حالیہ ’’ اندرونی خبریں‘‘ دینے والے نہ ایمرجنسی کا ذکر کرتے اورنہ ہی جمہوری نظام کو لپیٹنے کی باتیں کرتے۔اس پس منظر میں عدالت نے عمران خان کو دوران سماعت سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ سیاسی عدم استحکام کو ختم کرنے ، موجودہ صورتحال سے نکلنے اور ان افواہوں کے بے اثر کرنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ عمران خان سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کریں۔
یوں یہ مشورہ دے کر بظاہر عدالت عظمی نے گیند عمران خان کی کورٹ میں پھینک دی،کہ جسے نہ اگلے بنے اور نہ نگلے بنے، تاہم عمران خان نے اس کا حل یہ نکالا ہے کہ وہ عدالت عظمیٰ کو مذاکرات کے حوالے سے خط لکھنے جارہے ہیں جس میں مذاکرات کرنے کے لئے وہ اپنی تجاویز دیں گے۔ شنیدہے کہ عمران خان ،جو اول روز سے ہی ایسے لوگوں کے ساتھ مذاکرات کے لئے قائل نہیں جنہیں وہ چور،ڈاکو سمجھتے ہیں کہ اس طرح ان کے نزدیک ان کی اپنی ایمانداری پر حرف تو آتا ہی ہے،ایسے لوگوں کی حیثیت بھی تسلیم کرنے کے مترداف ہے لہذا وہ مذاکرات ان سے کرنا چاہتے ہیں جو انہیں لانے پر قادر ہیں۔یہاں میں ذاتی طور پر اختلاف رکھتا ہوں کہ ایک طرف عمران خان ایسے لوگوں سے بات کرنے کے لئے تیار نہیں کہ جنہوں نے اس ملک کے وسائل کو لوٹا ہے لیکن وہ ان سے بات کرنے کے لئے تیار ہیں،جو عمران کے بقول ان چوروں کو اقتدار میں لائے ہیں،کیا اقتدار دلانے والے،اس کا اختیار قانونی طور پر رکھتے ہیں؟لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستانی سیاست میں اگر ان سے بات نہ کی جائے تو بات بنتی نہیں جس کا حوالہ عمران خان اپنے ٹوئٹ میں کر چکے ہیں اور سقوط ڈھاکہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ممکنہ طور پر ایک طرف اپنی حدود کا اقرار کر رہے ہیں تو دوسری طرف کردار کو آشکار کرکے ،پسپا کرنا چاہتے ہیں بعینہ وہی حربے ہیں جو اس سے قبل ن لیگ ’’ اقتدار‘‘ کے لئے اختیار کر چکی ہے۔ بہرکیف اگر مذاکرات کا ڈول ڈلتا ہے تو اس کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے،یا تو یہ مذاکرات کامیاب ہو جائیں گے یا پھر ناکام۔ بظاہر فریقین کا موقف سامنے رکھیں تو ان مذاکرات کے ناکام ہونے کا امکان ،کامیابی سے کہیں زیادہ دکھائی دیتا ہے کہ عمران خان کی جانب سے سب سے پہلا مطالبہ ہی موجودہ حالات میںمینڈیٹ کی واپسی کا ہوگااور ان کے بقول تحریک انصاف عام انتخابات میں 180نشستوں پر کامیاب ہوئی ہے،تحریک انصاف کو اس کا مینڈیٹ فوری واپس دیا جائے۔ یہ ایسا مطالبہ ہو گا کہ جس کے بارآور ہونے کا امکان کسی بھی صورت ممکن دکھائی نہیں دیتااور اس سے کم پر عمران خان راضی نہیں ہوں گے،یہ کیسے ممکن ہے کہ تحریک انصاف کو اس کے دعوے کے مطابق قومی اسمبلی کی اتنی نشستیں دے دی جائیں کہ وہ اکیلی ہی پارلیمان میں اپنی حکومت بنالے اور کسی فرد کو سامنے رکھ کر بنائے گئے قوانین کے برعکس،حقیقی قانون سازی کر کے،ملکی وسائل لوٹنے والوں کو قرارواقعی سزا دینے کے سخت قوانین پاس کر لے۔دوسرا بڑا مطالبہ یقینی طور پر تحریک انصاف کے کارکنوں کی رہائی ہو گا جنہیں بلاوجہ قید میں رکھا گیا ہے،اس میں سرفہرست ڈاکٹر یاسمین راشد،محمودالرشی،اعجاز چوہدری،صنم جاوید،عالیہ حمزہو دیگر اسیران کی فوری رہائی ہو گی جبکہ اعلی قیادت پر قائم مقدمات کی سماعت ،عدالتوں کی آزادی سے مشروط ،قانون کے مطابق کرانا ہو گی۔ بدلے میں حکومت عمران خان سے کیا چاہے گی؟یقینی طور پر حکومت کی پہلی خواہش یہی ہو گی کہ عمران خان موجودہ حکومت کو تسلیم کرلے خواہ پس پردہ جاری چہ میگوئیوں کے مطابق مدت دو سال ہی کیوں نہ ہو،جو قطعا عمران خان کے پہلے مطالبے سے ہی میل نہیں کھائے گی لہذا دیگر باتوں پر مذاکرات کیسے اور کیونکر ہوں گے؟البتہ اس دوران گرمی کا یہ سخت موسم ڈھل رہا ہوگااور عوامی تحریک کے لئے موسم قدرے سازگار دکھائی دے گالیکن کیا تحریک کی اجازت مل جائے گی؟کیا مذاکرات کی ناکامی کے بعد یہ ممکن ہو گا کہ عمران خان کو سڑکوں پر احتجاج کی اجازت دے دی جائے یا معاملات اس نہج پر چلے جائیں کہ سیاسی جماعتیں کوئی راستہ نکالنے میں ناکام ہو جائیں ،ملک افراتفری کا متحمل ہو سکے گا؟بالفرض افراتفری کا ماحول بپا ہو جائے تو کیا غیر جمہوری عنصر خاموش رہے گا یا بعینہ 1977دہرا کر اس وقت پھیلے خدشات کو حقیقت کا روپ دیا جائے گا؟اس کا فیصلہ سیاسی قیادت پر ہے کہ وہ متوقع مذاکرات میں کیسا رویہ اختیار کرتے ہیں؟۔





