Column

گدھوں اور شیخ چلیوں کی تعداد میں اضافہ

محمد ناصر شریف
گدھے کو باپ بنانا ایک مشہور محاورہ ہے، ویسے تو اس کی تشریح کی ضرورت نہیں لیکن اگر پاکستان کی صورتحال دیکھیں تو آپ کو اس محاورے کی کئی تشریحات مل جائیں گی۔ ایک دن ملا نصرالدین اپنے گدھے کو گھر کی چھت پر لے گئے۔ پھر جب نیچے اترنے لگے تو گدھا نیچے اترنے سے انکاری ہوگیا، بہت کوشش کی لیکن گدھا نیچے اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ آخر کار ملا حوصلہ ہار کر خود نیچے آگئے اور انتظار کرنے لگے کہ گدھا خود کسی طرح نیچے آجائے۔ کچھ دیر گزرنے کے بعد ملا نے دیکھا کہ گدھا چھت کو لاتوں سے توڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ملا پریشان ہوگئے کہ چھت تو بہت نازک ہے اتنی مضبوط نہیں کہ اس کی لاتوں کو سہہ سکے۔ وہ دوبارہ اوپر گئے اور گدھے کو نیچے لانے کی کوشش کی لیکن گدھا اپنی ضد پر اڑا ہوا تھا۔ ملا کوشش کرتے ہوئے اسے دھکا دے کر سیڑھیوں کی طرف لانے لگے کہ گدھے نے ملا کو لات ماری اور ملا نیچے گر گئے۔ گدھا پھر سے چھت کو توڑنے لگا بالآخر گدھا چھت سمیت زمین پر آگیا۔ ملا کافی دیر تک اس واقعے پر غور کرتے رہے اور پھر خود سے کہا کہ کبھی بھی گدھے کو مقام بالا پر نہیں لے جانا چاہءے، ایک تو وہ خود کا نقصان کرتا ہے، دوسرا اس مقام کو بھی خراب کرتا ہے اور تیسرا اوپر لے جانے والے کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔
شیخ چلّی کچھ دنوں سے بے روزگار تھے انہیں رزق کمانے کے لئے کوئی کام نہیں مل رہا تھا۔ یوں وہ حالات سے پریشان ہوکر گھر سے باہر ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گئے۔ خدا کا کرنا یوں ہوا کہ کچھ ہی وقت گزرنے کے بعد اسی راستے پر ایک دودھ والے کی آمد ہوئی اور اسے دودھ کی بالٹی شہر تک لے جانے میں دشواری ہو رہی تھی۔ موقع غنیمت جانتے ہوئے اس نے شیخ چلی سے بات کی کہ اگر وہ اس کے ساتھ شہر تک یہ بالٹی لے جانے میں مدد کرے گا تو اسے دو آنے اور کچھ دودھ بطور معاوضہ ملے گا۔ شیخ چلی کے پاس سوچنے کا وقت کب تھا۔ وہ بولتے ہیں نا ’’ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا’’ معاوضے کی بات سن کر شیخ چلّی نے دودھ سے بھری بالٹی سر پر اٹھا لی اور اس آدمی کے ساتھ شہر کی طرف روانہ ہوئے۔ چلتی چلتے شیخ چلی کے ذہن میں خیالی پلائو تیار ہونا شروع ہو گیا کہ معاوضہ ملتے ہی دودھ سے پیٹ کی آگ بجھائوں گا اور دو آنے کے عوض مرغی خرید لوں گا جو روزانہ انڈے دے گی اور وہ انڈے بیچ بیچ کر اتنے پیسے جمع کروں گا کہ دوسری مرغی خرید لوں گا۔ ظاہر سی بات ہے انویسٹمنٹ دگنی تو آمدنی بھی دگنی۔ پھر انڈے بیچ بیچ کر اور پیسے جمع کرکر کے ایک بکری، پھر بکری کے بچے، پھر آمدنی بڑھے گی تو ایک پورا ریوڑ، پھر گائے، پھر ایک پورا فارم۔ یوں کماتے کماتے میں امیر بن جائوں گا اور اپنے لئے ایک محل بنائوں گا اور ساتھ ہی ایک بہت ہی خوبصورت مسجد۔ میری ایک خوبصورت سی بیوی اور بہت سارے بچے ہوں گے۔ شام کے وقت میں جب مسجد میں اذکار میں مصروف رہوں گا تو میرے بچے آکر مجھے کہیں گے پاپا، پاپا آیئے کھانا تیار ہے اور میں اذکار میں اتنا مشغول رہوں گا کہ منہ کھولے بغیر سر سے اشارہ کروں گا کہ نہیں بیٹی مجھے بھوک نہیں۔ اسی کے ساتھ ہی نفی کے انداز میں سر ہلانا شروع کر دیتا ہے اور یوں جھٹ سے ہی دودھ سے بھری بالٹی زمین پر آ گری اور دودھ کی نہر بہنے لگی۔ دودھ والے نے غصے میں آکر کہا کہ آپ نے تو میری ایک بالٹی دودھ تباہ و برباد کر دیا۔ شیخ چلی نے مسکرا کر جواب دیا آپ کو ایک بالٹی دودھ کی پڑی ہے میرا تو سارا خاندان کاروبار سمیت تباہ ہو گیا۔
ویسے ہمارے ملک میں گدھوں اور شیخ چلیوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔ اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان میں گدھوں کی تعداد میں ہر سال ایک لاکھ کا اضافہ ہونے لگا ہے۔2021۔22میں پاکستان میں 57لاکھ گدھے تھے۔ 2022۔23میں 58لاکھ ہوگئے اور یہ سلسلہ رکا نہیں۔ گدھے 2023۔24میں 59لاکھ ہوگئے ہیں جبکہ خچروں کی تعداد میں اضافہ ناپید ہوگیا ہے۔ 2021۔22میں بھی 2لاکھ خچر تھے جو 2023۔24میں بغیر کمی بیشی کے 2لاکھ خچر ہیں۔ یہ تعداد وزارت قومی غذائی تحفظ کے ذرائع سے حاصل کی گئی۔ اس طرح پاکستان میں گھوڑوں کی تعداد 4لاکھ بتائی گئی ہے۔ اونٹوں کی تعداد 2022۔23میں 11لاکھ اور 2023۔24میں 12لاکھ تک جا پہنچی۔ پاکستان میں مویشیوں کی تعداد 2021۔22میں پانچ کروڑ 37لاکھ اور 2022۔23میں پانچ کروڑ 55لاکھ، 2023۔24میں پانچ کروڑ ہوگئی ہے ان میں بھینسوں کی تعداد 4کروڑ 50لاکھ تھی۔ 2023۔24میں 4کروڑ 83لاکھ تک چلی گئی بھیڑوں کی تعداد 2022۔23میں 3کروڑ23 لاکھ اور 2023۔24میں بڑھ کر 3کروڑ 27لاکھ ہوگئی ہے۔ بکریوں کی تعداد 2022۔23میں 8کروڑ 47لاکھ اور 2023۔24میں بڑھ کر 8کروڑ 70لاکھ ہوگئی ہے۔ اونٹوں کی تعداد 2022۔23میں 11لاکھ اور 2023۔24میں 12لاکھ تک جا پہنچی ہے۔
ملک کے شیخ چلیوں نے پاکستان میں پیدا ہونیوالے بچے کو دو لاکھ 80ہزار روپے کا مقروض بنا دیا ہے۔ پاکستان کا مجموعی قرض 66565ارب ہوچکا ہے۔ دریں اثنا اکنامک سروے میں 2023۔24میں کئی اہم نکات بیان کئے گئے ہیں جن کے مطابق جی ڈی پی کا 3.7فیصد مالی خسارہ ہے۔ ایف بی آر نے 9800ارب روپے ریونیو جمع کیا ہے۔ کپاس کی پیداوار میں ہائی گروتھ رہی۔ ٹیکنالوجی اور زرعی اجناس کی برآمد سے زرمبادلہ کمایا گیا۔ کرنٹ اکائونٹ خسارے کا تخمینہ 6ارب ڈالر کا رہا جبکہ مئی 2024میں 3ارب20کروڑ ڈالر کی ترسیلات زر آئیں۔ اسمگلنگ کی روک تھام، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی جامع پڑتال سے کرنسی میں استحکام آیا۔اقتصادی سروے رپورٹ 2023۔24میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں 45لاکھ 51ہزار نوجوان بیروزگار ہیں۔ اعداد وشمار کے مطابق ملک میں لیبر فورس کی تعداد 7 کروڑ 17 لاکھ 60ہزار ہے۔ ملک میں لیبرفورس کے تحت 45لاکھ 51ہزار لوگ بے روزگار ہیں جبکہ 6کروڑ 72لاکھ 50ہزار لوگ برسر روزگار ہیں۔ دوسری جانب ملک میں شرح خواندگی 62.8فیصد ہوگئی ہے۔ مردوں میں خواندگی کی شرح 73.4اور عورتوں میں 51.9فیصد ہے۔ سروے میں بتایا گیا کہ ملک میں سرکاری و نجی جامعات کی تعداد 263ہے جس میں پرائیوٹ یونیورسٹیز کی تعداد 109ہے۔ اس کے علاوہ جامعات کے سب کیمپسز کی تعداد بھی 131ہے۔
اس ملک کے لوگ واقعی ٹیلنٹ کی قدر نہیں کرتے اگر وہ اس وقت مرغی ،انڈا اور کٹے کے آئیڈیاز پر عمل کرتے تو اس وقت 45لاکھ لوگ بیروزگار نہیں ہوتے بلکہ ہر شہری انڈے، مرغی اور کٹے کا مالک ہوتا اور نہ صرف اپنی معیشت کو مضبوط کر رہا ہوتا بلکہ اس سے دیگر لوگ بھی مستفید ہوتے۔

جواب دیں

Back to top button