Column

مقدس سانڈ

سیدہ عنبرین

بعض چھپکلیاں اُگلی جا سکتی ہیں نہ نگلی جا سکتی ہیں۔ منہ آئی چھپکلی نگل لی جائے تو اس کا زہر موت کے منہ میں پہنچا سکتا ہے لہٰذا اسے نگلنا مشکل لگتا ہے اگر اسے اگل دیں تو ہاتھ آئی چھپکلی دوبارہ پکڑنا بہت مشکل ہوتا ہے، ہماری حیثیت بھی بعض ملکوں کے نزدیک ایسی ہی ہے۔ جس کی بنا پر ہماری تمام حرکتیں اور بری عادتیں برداشت کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں رہتا، ہم اسی میں اپنے ذہن و دل کو تسلی دیتے ہیں کہ ہماری خطے میں بہت اہمیت ہے۔
ہماری خطے میں کبھی بہت اہمیت تھی لیکن دوستوں کے ساتھ ہمارے برتائو کے باعث اب پہلے جیسی بات نہیں رہی، قدم قدم پر ہماری بے وفائی نے دوستوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے، وہ فوری طور پر اپنی راہیں جدا تو نہیں کر سکتے لیکن انہوں نے اب متبادل راہیں تلاش کرنا اور تعمیر کرنا شروع کر دی ہیں۔ اس میں وہ بہت سنجیدہ ہیں، جو پہاڑیوں سے زیادہ بلند، سمندروں سے زیادہ گہرے اور شہد سے زیادہ میٹھے بتائے جاتے ہیں۔ وہ بوقت ضرورت ہماری ہتھیلی پر ہر دور کے بعد نقد کچھ بھی نہیں رکھتے بلکہ پوچھتے ہیں آپ کے جو کام رکے ہوئے ہیں وہ ہم بطور ادھار اپنے خرچ پر کئے دیتے ہیں۔ ہم نے ان کا پہلے ہی بہت کچھ دینا ہے، جو ہم ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں، پس ہماری درخواست پر بہت کچھ ’’ ری شیڈول ‘‘ تو کر دیا گیا ہے لیکن ہوشربا شرائط پر، ہم ان کی مدد سے ایک اور بہت بڑا قرض لیکر ایک اور بہت بڑا پراجیکٹ شروع کر رہے ہیں، جس کی مسائل اور قرضوں میں گھرے ملک کو قطعاً کوئی ضرورت نہیں ۔ پانچ سال میں چھ سو ارب روپے سے ایک نئی ہائی وے اور انیس سو ارب روپے سے نئی ریلوے لائن بنے گی۔ خلیجی ریاستوں کے مالکان کی دو نسلوں نے ہماری ہر مشکل وقت میں بہت مدد کی۔ ریوڑ چرانے والے اب دنیا میں نہیں رہے، ان کی تیسری نسل غیر ممالک کی تعلیم یافتہ ہے، وہ ادھار کے ساتھ ساتھ نقد امداد کو بھی محبت کی قینچی سمجھنے لگے ہیں، جس زمانے میں دبئی اجڑا تو انہوں نے ابوظہبی سے نقد مدد چاہی، جواب میں، جواب ملا کہ’’ برج الادبئی‘‘ کو ’’ برج خلیفہ‘‘ بنا دیں، پھر ضرورتاً ایسا کر دیا گیا، جو اپنے ’’ اخی‘‘ کے ساتھ معاملات میں اتنے سیدھے ہو چکے ہیں وہ اب ہمیں کہاں لکھتے ہیں، بات بخوبی سمجھ آ جاتی ہے، پھر بھی ان کی مہربانی میرٹ پر دوسرے ممالک سے بہت پیچھے رہ جانے کے باوجود وہ ہماری نسبتاً مہنگی مین پاور کو جگہ دیتے ہیں۔ چین ہو یا خلیجی ریاستیں ہماری فرمائش پر ہمیں چھپکلی سمجھتے ہوئے ’’ ایم او یو‘‘ پر دستخط کئے چلے جا رہے ہیں، مبینہ طور پر ان کی تعداد اب سیکڑوں میں ہو گی۔
کوئی ہماری لیڈ شپ کے منہ پر نہ کہتا ہو گا لیکن دل میں ضرور سوچتا ہو گا کہ پانامہ لیکس اور دبئی لیکس کے مطابق ان کے اپنے لوگوں کے کئی ہزار ارب ڈالر دبئی اور یورپی ممالک میں رکھے ہیں، یہ انہیں وہاں سے لانے میں سنجیدہ کیوں نظر نہیں آتے، پھر وہ خود ہی جواب تلاش کر لیتے ہونگے کہ شاید ہی کوئی سیاسی خاندان ایسا ہو جس کا نام ان فہرستوں میں نظر نہ آئے انہیں یہ خیال بھی بے چین کرتا ہو گا کہ اگر مزید چند ارب ڈالر نقد دے بھی دیئے جائیں تو وہ عوام کی امانت سمجھ کر دیانتداری سے خرچ کہاں ہونگے۔
وزیراعظم شہباز شریف سے چینی قیادت کی ملاقات کی تفصیلات جاری کی گئی ہیں، سب سے زیادہ اہم ملاقات ہمارے وزیراعظم اور چینی صدر جناب شی پنگ کے درمیان ون ٹو ون تھی، جس کا آدھا حصہ بیان کیا گیا ہے، جس کے مطابق جناب شہباز شریف نے بتایا کہ ہر ملاقات میں چینی ماہرین کی سکیورٹی کا معاملہ اٹھایا گیا۔ یہ بات اس اعتبار سے قابل تشویش ہے کہ ہم چینی انجینئرز اور مختلف پراجیکٹس پر کام کرنے والے افراد کا تحفظ کرنے میں کامیاب نہیں رہے، بالخصوص تمام تر دعوئوں کے باوجود بشام کا المناک واقعہ رونما ہوا، جس میں متعدد قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، جن کے بعد کئی روز تک اس پراجیکٹ کے علاوہ بھی بعض پراجیکٹس پر خطرے کے باعث کام بند ہو گیا۔ کہا تو ہر تخریب کاری کے بعد گیا کہ چینی ماہرین کی سکیورٹی کو فول پروف بنا دیا گیا ہے لیکن نتیجتاً معلوم ہوا صرف فول بنایا گیا ہے۔ بشام واقعے سے اگلے روز شائع ہونے والی خبروں میں بتایا گیا کہ چینی انجینئرز کی لانے لے جانے والی گاڑیاں بلٹ پروف نہیں تھیں، مبینہ طور پر یہ بھی سننے میں آیا کہ بعض پراجیکٹس پر چینی انجینئرز کی سکیورٹی کیلئے پرائیویٹ سکیورٹی کمپنیوں کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔
پرائیویٹ کمپنیوں کے سکیورٹی گارڈز کا معیار اور قابلیت ان دنوں کھل کر سامنے آ رہی ہے، دو سکیورٹی گارڈز نے معمولی بات پر دو نوجوانوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا، ایک کمپنی کے سکیورٹی گارڈ نے اپنی کمپنی کے مالک کو گولی مار دی، جس سے وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا۔
ہماری سیاسی حکومتوں اور حکومتی نمائندوں سے دوسری حکومتوں کے نمائندے مذاکرات تو ضرور کرتے ہیں لیکن مذاکرات کو حتمی شکل دینے سے قبل وہ ایک اہم ترین شخصیت کو اپنے درمیان بٹھا کر معاملات کو معاہدے کی شکل دیتے ہیں، یہ اہم ترین شخصیت پاکستان آرمی کے چیف ہیں، جو جناب وزیراعظم پاکستان کے دورہ چین کے موقع پر ان کے ساتھ تھے اور اہم ملاقاتوں میں بھی شریک رہے، اس سے قبل انصاف حکومت کے زمانے میں جنرل باجوہ اہم ملاقاتوں اور اہم دوروں میں شریک نظر آتے تھے۔ انصاف حکومت کے سربراہ نے متعدد موقعوں پر اعتراف کیا آرمی چیف نے ایسے معاملات میں بھی حکومت کی مدد کی جو ان کی ذمہ داری نہیں تھی، یہ تفصیل غیر ممالک سے امداد حاصل کرنے کے حوالے سے جاری کی گئی تھی۔
گزشتہ روز وزیر خزانہ فرما رہے تھے کہ کوئی مقدس گائے نہیں سب کو ٹیکس دینا پڑے گا۔ خیرات سے تعلیمی ادارے، ہسپتال اور رفاہی ادارے تو چل سکتے ہیں ملک نہیں چل سکتا۔ انہوں نے آدھا سچ بولا ہے، مکمل سچ یہ ہے کہ سرکاری عہدیداروں اور سرکاری افسران کی عیاشیوں سے بھی ملک نہیں چل سکتا، ٹیکس گزاروں پر مزید ٹیکس لگانے سے بھی ملک نہیں چل سکتا۔ گائے ایک شریف النفس جانور ہے، براہ کرم اسے بدنام نہ کریں، کم کھاتی ہے، صفائی پسند ہے، اجاڑتی نہیں، دودھ بھی دیتی ہے، تباہی تو منہ زور سانڈ پھیلاتے ہیں۔ ملک اجاڑنے والے منہ زور سانڈوں کو کون نہیں جانتا، پانامہ لیکس اور دبئی لیکس والے سانڈوں پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالتے۔ معصوم گائے صنعت غریب اور تنخواہ دار عوام کے پیچھے کیوں پڑے ہیں، کیا یہ سانڈ مقدس ہیں؟۔

جواب دیں

Back to top button