Column

عید قربان دولت کی گردش کا بڑا ذریعہ ہے

رفیع صحرائی
یہ دو سال پہلے کا واقعہ ہے۔ عید قربان کا دوسرا دن تھا۔ عاصم قریباً پانچ سال بعد مجھے ملنے آ رہا تھا۔ وہ گزشتہ تیرہ سال سے فرانس میں مقیم تھا۔ دو تین سال بعد پاکستان کا چکر لگاتا رہتا تھا۔ میری اس سے ملاقات لاہور میں ہوئی تھی۔ میں ان دنوں تین ماہ کے لیے ایک کورس میں شرکت کی خاطر لاہور میں مقیم تھا۔ اس کا تعلق فیصل آباد سے تھا۔ زندگی میں کامیابی کے لیے ہاتھ پائوں مار رہا تھا۔ ان دنوں مقامی انگریزوں یعنی لبرلز کے ساتھ اس کا کافی اٹھنا بیٹھنا تھا۔ میں تین ماہ بعد واپس گھر آ گیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ فرانس چلا گیا۔ پھر اس سے کوئی رابطہ نہ رہا۔ پانچ سال پہلے اچانک اس کا فون آ گیا۔ نمبر مقامی ہی تھا۔ اس نے بتایا کہ ان دنوں شادی کے سلسلے میں پاکستان آیا ہوا تھا۔ وہ چاہتا تھا میں بھی اس کی شادی میں شرکت کروں۔ اس بہانے ملاقات ہو جائے گی اور پرانی یادیں بھی تازہ کریں گے۔ میں نے اس کی دعوت قبول کر لی۔ اس کی شادی میں بھرپور شرکت کی۔ بہت باتیں ہوئیں۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا تھا کہ بے شک وہ بہت آزاد خیال ہے۔ چاہتا تو ادھر ہی شادی کر سکتا تھا مگر اسے محض لائف پارٹنر نہیں بلکہ حقیقی بیوی کی ضرورت تھی اس لیے پاکستان میں اپنی کزن سے شادی کر رہا تھا۔
اس کے بعد ہمارے درمیان پانچ سال سے صرف ٹیلیفونک رابطہ ہی تھا۔ جو کہ خیر خیریت پوچھنے اور بتانے تک ہی محدود تھا۔ یا پھر فارورڈ میسیجز ایک دوسرے کو کر دیا کرتے تھے۔ عید کی دن اس کی کال آ گئی۔ وہ چند دن پہلے ہی پاکستان پہنچا تھا۔ یہاں آ کر بھی میرے ساتھ رابطے میں تھا۔ اس نے میرے پاس آنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ جس پر میں نے خوشی ظاہر کرتے ہوئے اسے اپنے ہاں آنے کی دعوت دے دی تھی۔
وہ اپنی گاڑی پر مقررہ وقت پر آ پہنچا۔ وہ اپنے ساتھ ڈھیر سارے تحائف خصوصاً پرفیومز بھی لے کر آیا تھا۔ میں نے انہی دنوں نیا نیا مکان تعمیر کرایا تھا۔ اس نے مجھے مبارک باد دی۔ میرے پاس آئی فون دیکھ کر اس نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اس کی تعریف کی بلکہ مجھے مبارک بھی دے ڈالی۔ کھانے کا وقت ہو گیا تھا۔ ہم کھانے کی میز پر بیٹھے تو اس نے ادھر ادھر متلاشی نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا۔ میرے استفسار پر کہنے لگا ’’ سبزی کی ڈش تلاش کر رہا ہوں مگر یہاں ہر ڈش میں گوشت ہی نظر آ رہا ہے۔ میں دراصل ویجیٹیرین ہوں‘‘۔
’’ کیا؟‘‘
میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ ’’ یار آج عید قربان کا دوسرا دن ہے۔ نہ بھی ہوتا تو کیا میں آپ کے لیے سبزی پکاتا؟‘‘
’’ لیکن میں گوشت نہیں کھاتا، خاص طور پر قربانی کا گوشت تو ہرگز نہیں کھاتا‘‘
’’ کیوں؟‘‘ مجھے حیرت ہو رہی تھی۔
’’ بس کیا بتائوں آپ کو، مجھے ان بے گناہ جانوروں پر رحم آتا ہے جنہیں لاکھوں کی تعداد میں ہم اپنی پیٹ پوجا کے لیے کاٹ ڈالتے ہیں۔ یہی نہیں اپنا مالی نقصان بھی کرتے ہیں۔ جو گوشت عام حالات میں ہمیں پندرہ سو روپے کلو بازار سے مل جاتا ہے قربانی کے دنوں میں وہی گوشت تین ہزار روپے کلو اور بعض اوقات اس سے بھی مہنگا پڑتا ہے‘‘۔
میں سمجھ گیا کہ یہ اس کے اندر کا لبرل بول رہا ہے۔ یہ اس زہریلے پراپیگنڈے کا اثر ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ حج پر جانے سے بہتر ہے اپنے اردگرد موجود مسکینوں کی مالی مدد کی جائے، غریبوں کی بیٹیوں کی شادیاں کروائی جائیں۔ دراصل ان لوگوں کو صرف مذہبی فرائض کی ادائیگی میں ہی فضول خرچی نظر آتی ہے۔ دنیاوی تعیشات کے معاملے میں ان کی شاہ خرچی دیکھنے والی ہوتی ہے۔ مجھے اس کی بات سے دکھ بھی پہنچا اور غصہ بھی آیا۔ میں نے خاموشی سے اچار کا جار اس کے آگے کر دیا۔
کھانے سے فارغ ہو کر ہم ڈرائنگ روم میں آ بیٹھے۔ اس نے دوبارہ وہی موضوع چھیڑ دیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ ’’ بکرے یا دنبے کا مصرف کیا ہے؟‘‘۔ وہ گڑبڑا گیا۔ تب میں نے اسے کہا کہ ’’ حضور! میرے پاس اگر بیس ہزار روپے کا فون ہوتا تو اس نے بھی وہی کام کرنا تھا جو یہ دو لاکھ روپے مالیت والا آئی فون کرتا ہے۔ میں کسی کچے گھر میں بھی زندگی گزار سکتا تھا۔ ہمارے ملک میں اکثر گزارتے ہیں مگر میں نے اپنے رہنے کے لیے یہ لگژری گھر بنوایا۔ آپ نے ان دونوں چیزوں کی مجھے مبارک باد دی۔ حالانکہ آپ چاہتے تو کہہ سکتے تھے کہ میں نے ناحق اتنی بڑی رقم ضائع کر دی۔ آپ بھی میرے پاس اپنی قیمتی گاڑی کی بجائے بس پر آ جاتے تو آپ کی اچھی خاصی بچت ہو جاتی۔ آپ کی شادی ایک بہت بڑے میرج ہال میں ہوئی تھی۔ یہ کام سادگی سے بھی ہو سکتا تھا مگر آپ کو شادی ہال بک کرا کر کئی لاکھ کا اضافی خرچہ بوجھ نہیں لگا۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ مذہبی فریضے کی بجا آوری ہی مالی بوجھ محسوس ہوتی ہے۔؟‘‘
عاصم ہکا بکا میری طرف دیکھ رہا تھا۔ شاید اس کے ساتھ اس طرح کی بات کبھی کسی نے کی ہی نہیں تھی۔ میں نے اپنی بات کو آگے بڑھایا۔
’’ عاصم میاں! قربانی کرنے کا مقصد گوشت کھانا نہیں ہے۔ یہ مذہبی فریضہ ہے جسے سنتِ ابراہیمی کی پیروی میں ادا کیا جاتا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ کو گوشت یا خون کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ نیتوں کو دیکھتا ہے۔ آپ اگر اسے دنیاوی لحاظ سے دیکھنا چاہتے ہیں تو اس پہلو پر بھی بات کر لیتے ہیں‘‘۔
عاصم اب دلچسپی سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے گفتگو کا سلسہ دوبارہ جوڑا۔
’’ عیدالاضحیٰ کے موقع پر ایک اندازے کے مطابق6کھرب روپے سے زیادہ کا مویشیوں کا کاروبار ہوتا ہے۔ اس موقع پر 30ارب روپے کے قریب قصائی مزدوری کی صورت میں کماتے ہیں، 4ارب روپے سے زیادہ چارے کا کاروبار کرنے والے کماتے ہیں ۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ کاروبار اس عید کے موقع پر ہوتا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ غریبوں کو مزدوری ملتی ہے، کسانوں کا چارہ فروخت ہوتا ہے ۔دیہاتیوں کو مویشیوں کی اچھی قیمت ملتی ہے جس سے ان کی معیشت کا پہیہ تیز ہوتا ہے، گاڑیوں میں جانور لانے اور لے جانے والے اربوں روپے کماتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی پیٹرول پمپ والوں کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ وہ غریب لوگ جو گوشت مہنگا ہونی کی وجہ سے سارا سال نہیں کھا سکتے انہیں کھانے کے لیے مہنگا گوشت فری اور وافر مقدار میں ملتا ہے۔ جانوروں کی کھالیں کئی سو ارب میں بکتی ہیں، کھالوں کی فراوانی سے چمڑے کا کام سے وابستہ لوگوں کو مزید کام ملتا ہے۔ یہ سب پیسہ جن لوگوں نے کمایا ہے وہ اپنی ضروریات پر خرچ کرتے ہیں تو نہ جانے کتنے کھرب کا کاروبار دوبارہ ہوتا ہے۔
عاصم میاں یہ قربانی غریبوں کو صرف گوشت نہیں کھلاتی بلکہ اس قربانی سے آئندہ سارا سال غریبوں کے روزگار اور مزدوری کا بھی بندوبست بھی ہوتا ہے۔ آپ غور کریں دنیا کا کوئی ملک کروڑوں اربوں روپے امیروں پر ٹیکس لگا کر غریبوں پر بانٹنا شروع کر دے تب بھی غریب لوگوں اور ملک کو اتنا فائدہ نہیں ہوتا جتنا اللہ کے ایک حکم کو ماننے سے ایک مسلمان ملک کو فائدہ ہوتا ہے۔ اکنامکس کی زبان میں سرکولیشن آف ویلتھ کا ایسا چکر شروع ہوتا ہے کہ جس کا حساب لگانے پر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
مجھے خوشی ہے کہ مجھ سے رخصت ہوتے وقت عاصم کا برین واش ہو چکا تھا۔

جواب دیں

Back to top button