بی جے پی کا الٹا سفر؟ ( آخری حصہ)

تحریر : روشن لعل
اپریل 1980ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے قیام کے بعد سیکولر بھارت میں معتدل مزاج اٹل بہاری واجپائی کو اس کا صدر بنایا گیا۔ 1984ء کے آٹھویں لوک سبھا الیکشن میں 542کے ہائوس میں یہ جماعت صرف دو سیٹیں حاصل کر سکی تھی۔ گو کہ اس الیکشن میں بی جے پی کی بد ترین کارکردگی اور کانگریس کی شاندار کامیابی کی بنیادی وجہ اندرا گاندھی کا قتل تھا مگر اسکے باوجود بی جے پی کی شکست کی تمام تر ذمہ داری واجپائی کی معتدل مزاجی پر ڈال دی گئی۔ اپنی ذات اور رویوں پر ہونے والی تنقید کے بعد واجپائی پارٹی صدر کے عہدے سے مستعفی ہوگئے اور ان کی جگہ ایل کے ایڈوانی کو بی جے پی کا نیا مرکزی صدر بنا دیا گیا۔
بی جے پی کا صدر بننے کے بعد اپنی پارٹی کو عوام میں مقبول بنانے کے لیے ایل کے ایڈوانی نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے جیسے مذہبی انتہا پسندی پر مبنی نعروں کا سہارا لیا۔ رام مندر جیسے نعروں نے ہندو انتہا پسندوں کو بی جے پی کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے بعد بی جے پی اور ایل کے ایڈوانی نے اپنی تمام تر توانائیاں ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج وسیع کرنے اور ہندو مسلم فسادات کی فضا ہموار کرنے پر صرف کرنا شروع کر دیں ۔ اسی راستے پر چلتے ہوئے ایڈوانی نے اپنی مشہور زمانہ رتھ یاترا کے ذریعے بابری مسجد شہید کرنے کا سامان پیدا کیا۔ اس طرح ایل کے ایڈوانی اور مرلی منوہر جوشی جیسے سیاستدانوں نے بی جے پی کی مذہبی انتہاپسندی پر مبنی شبیہ کے خدو خال مزید واضح کرنے اور لوگوں میں مقبول بنانے میں اہم کردار کیا ۔ یوں اس بھارت میں عدم برداشت اور چھوت چھات جیسے رویوں کا بلا جھجھک اظہار ہونے لگا جس کی بنیاد سیکولرازم کو قرار دیا گیا تھا۔
بھارت میں سیکولرازم کے حامیوں اور ہندو بنیاد پرستوں ( سنگ پریوار) کے درمیان کشمکش کوئی نئی بات نہیں ہے۔ کانگریس نہ صرف سیکولر پارٹی ہونے بلکہ بھارت میں سیکولرازم کی بنیاد رکھنے کی بھی دعویدار ہے مگر اس کے دور حکومت میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد وہاں کے حقیقی سیکولر اس سے دور ہونا شروع ہو گئے۔ بی جے پی نے سیاسی طاقت بننی کے لیے جب ہندوئوں کے مذہبی جذبات بھڑکاتے ہوئے بابری مسجد اور رام مندر مسئلے کو بطور ہتھیار استعمال کیا، اس وقت کرپشن کے الزامات کی زد میں آئے ہوئے نرسیما رائو اور ان کی کانگریسی حکومت تو تقریباً خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہے مگر جنتا دل کے دیو گوڑا، شرد یادیو، لالو پرشاد یادیو، وی پی سنگھ اور اندر کمار گجرال جیسے سیکولر لوگوں نے بابری مسجد گرانے پر بی جے پی اور اس کی اتحادی پارٹیوں کی سخت مخالفت کی۔ اسی وجہ سے 1990ء کی دہائی کے دوران بھارت میںدھرم نرپیکشتا ( سیکولر ازم ) اور سامپردائکتا( بنیاد پرستی) کے نام پر سیاست ہوتی رہی۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد بھارت میں 1996ء میں ہونے والے عام انتخابات میں سیکولر جماعتوں کے سیاسی اتحاد یونائیٹڈ فرنٹ نے 192، بی جے پی نے 197اور کانگریس نے 140نشستیں حاصل کیں۔ کانگریس کیونکہ ہمیشہ سیکولر جماعت ہونے کی دعویدار رہی، لہذا 1996ء کے انتخابات میں بی جے پی کی زیادہ سیٹوں کے باوجود مبصروں نے یہ کہا کہ بھارتی عوام نے بنیاد پرستی کے مقابلے میں سیکولر ازم کے حامیوں کا ساتھ دیا ۔ لوک سبھا کی تین بڑی پارٹیوں میں سے بی جے پی اکثریتی پارٹی تھی لہذا بھارتی صدر نے اس کے پارلیمانی لیڈر اٹل بہاری باچپائی کو حکومت بنانے کی دعوت دی مگر وہ سادہ اکثریت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے وہ اعتماد کا ووٹ نہ لے سکے۔ سیکولرازم کے نعرے پر 192سیٹیں حاصل کرنے والے یونائٹیڈ فرنٹ نے بعد ازاں کانگریس کی حمایت سے حکومت بنائی۔ سیکولرازم کے نام پر ووٹ حاصل کرنے والے اپنی نجی سیاسی لڑائیوں کی وجہ سے عوام کے معاشی مفادات کا تحفظ کرنے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئے۔ اسی وجہ سے ان کی حکومت دو وزیر اعظم تبدیل کرنے کے باوجود 1998ء میں ختم ہوگئی۔ یونائیٹڈ فرنٹ تو پہلے ہی مختلف جماعتوں کا اتحاد تھا مگر اس میں شامل سب سے بڑی پارٹی جنتا دل بھی بعد ازاں ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔ یونائیٹڈ فرنٹ کے جن لوگوں نے 1996ء میں سیکولر ازم پر ووٹ لیے تھے انہیں 1998ء کے لوک سبھا انتخابات میں عوام نے انہیں بری طرح مسترد کر دیا۔ رام مندر بنانے اور گئوکشی کے خاتمے جیسے سیاسی نعروں کے ذریعے سیاست کرنے والی بی جے پی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی۔ 1998ء کے انتخابات کے نتیجے میں بی جے پی، اٹل بہاری واجپائی کی وزارت عظمیٰ میں پہلی مرتبہ پانچ سال کی مدت کے لیے برسراقتدار آئی۔ اس کے بعد پانچ ، پانچ سال کی اگلی دو مدتوں کے لیے کانگریس نے من موہن سنگھ کی وزارت عظمیٰ میں پہلی مرتبہ 2004ء کے انتخابات میں 218اور دوسری مرتبہ 2009ء میں 262نشستیں لے کر مخلوط حکومت بنائی۔ من موہن سنگھ کی حکومت نے بھارت میں نئی معاشی راہیں استوار کرنے میں اہم کردار ادا کیا لیکن بھارتی میڈیا نے اس وقت تک گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی کے متعلق یہ پراپیگنڈا کیا کہ بھارت کو اس سے بہتر حکمران مل ہی نہیں سکتا۔ عوام نے 2014ء کے الیکشن میں اسی پراپیگنڈے کے زیر اثر بی جے پی اور مودی ووٹ دے کر کامیاب کرایا۔ نریندر مودی پر حالانکہ، گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کا الزام تھا اس کے باوجود وہ بھارتی ووٹر جو کبھی سیکولر ازم کے نام پر ووٹ دیا کرتے تھے انہوں نے اپنے معاشی حالات کی بہتری کی امید میں تنگ نظر ہندو کی شہرت رکھنے والے نریندر مودی کو 282سیٹو ں کے ساتھ ملک کے وزیر اعظم کی مسند پر بٹھا دیا۔
بھارت، من موہن سنگھ کے دور حکومت میں دنیا کی گیارہویں بڑی معیشت تھا لیکن مودی کے پہلے دور میں دنیا چھٹی اور دوسرے دور حکومت میں پانچویں بڑی معیشت تسلیم کیا گیا۔ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت میں مودی نے صرف بنیاد پرستی کو ہی پھلنے پھولنے کا موقع فراہم نہیں کیا بلکہ ملک کو بھی معاشی طور پر مضبوط بنایا۔ مودی نے بھارت کے ہندووں میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دے کر سیاسی مقبولیت حاصل کی اور خود کو وزیر اعظم کی مسند تک پہنچایا۔ گو کہ مودی کے دور حکومت میں بھارت نے مثالی معاشی ترقی کی لیکن اب طرفہ تماشہ یہ ہے جس شخص کے سر پر معاشی ترقی کا سہرا سجا اسی شخص کی ملک میں پھیلائی ہوئی مذہبی انتہاپسندی اور انتشار کو اس معاشی ترقی کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا جارہا ہے۔
بھارتیہ جتنا پارٹی اور نریندر مودی نے اپنے سیاسی مفادات کے تحت ہندووں میں مذہبی انتہاپسندی کو فروغ دیتے ہوئے ملک میں سیکولر ازم کی بنیادیں ہلانے کی جو راہ اپنائی، اب اس راہ سے ہٹنا ان کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اگرچہ مودی اور بی جے پی کے لیے غیر سیکولر رویے ترک کرنا ممکن نہیں لیکن بھارتی عوام نے ایک مرتبہ پھر سیکولرازم کو ترجیح دینا شروع کر دیا ہے۔ اب اگر بھارت میں سیکولر ازم کی دعویدار جماعتیں وہ سیاسی غلطیاں نہ دہرائیں جو انہوں نے 1990ء کی دہائی میں کی تھیں تو عین ممکن ہے کہ بی جے پی کا الٹا سفر جاری رہے اور وہ پھر سے خود کو سیاسی طور پر سرخرو کر لیں ۔





