Column

لندن پلان کے مطابق؟

تحریر : سیدہ عنبرین
دورہ امریکہ پر پہنچنے والی پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کے ذہن میں یقیناً کچھ اچھی باتیں موجود تھیں مثلاً والدین کے ساتھ حسن سلوک کا برتائو کرو، احسان کا بدلہ احسان سے دو، امریکہ کی حیثیت اب ڈیڈی اور برطانیہ کی ممی سے کم نہیں، چائنہ ہمارا چاچو، حجاز ہمارا ماموں ہے، یو اے ای ہماری پھوپھیاں ماسیاں ہیں۔ یاد رہے یہ وہ ماسیاں نہیں جو گھروں میں کام کاج میں ہمارا ہاتھ بٹاتی ہیں بلکہ وہ اس درجے پر فائز ہیں جہاں ہم ان کی کوئی بات ٹالنے کی جرات نہیں کر سکتے۔
امریکہ کے ہم پر بہت سے احسانات ہیں پس ان کے احسانات کا بدلہ چکانا بہت ضروری تھا یوں بھی ہم میچ جیتنے سے زیادہ دل جیتنے پر یقین رکھتے ہیں۔ دل جیتنے کا مظاہرہ اس سے قبل نو مرتبہ تو صرف بھارت کے ساتھ کر چکے ہیں یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ موقع ملتا تو امریکہ کا دل جیتنے کی کوششیں نہ کرتے، ہم نے اولین فرصت میں بنگلہ دیش کا دل جیتا تھا پھر آئر لینڈ کے بعد افغانیوں کو کرکٹ کے ایجد سکھائے اور بعد ازاں ان کے ہاتھوں شکست کا ذائقہ چکھا آج بھی اسے انجوائے کر رہے ہیں۔
یہ بات اپنی جگہ درست کہ نیوکلیئر پاکستان کی کرکٹ ٹیم بھی نیوکلیئر کرکٹ ٹیم تھی اس کا دورہ شروع ہونے سے قبل ٹیم تیار کرنے والوں اور ٹیم کے ساتھ جانے والی سیر سپاٹا ٹیم نے میڈیا کے ذریعے قوم کو آگاہ کیا کہ وہ ٹیم پر اعتماد کریں، ٹیم ٹرافی لے کر واپس آئے گی، نیوکلیئر کی تاریخ سے آگاہی رکھنے والے خوب جانتے ہیں کہ نیوکلیئر دھماکے کبھی کبھی ناکام بھی ہو جاتے ہیں لیکن اس ناکامی کے بارے میں دنیا کو نہیں بتایا جاتا۔ نیوکلیئر دھماکے کی خبر اس وقت جاری کی جاتی ہے جب دھماکہ کامیاب ہو جائے نیوکلیئر دھماکے ہمیشہ ایک سے زائد کئے جاتے ہیں تاکہ پانچ چھ میں سے ایک دو دھماکے ٹھس بھی ہو جائیں تو باقی دھماکوں کی ٹھاہ ٹھاہ میں ایک دو ٹھس ٹھسی کا کسی کو پتہ ہی نہ چلے، ہماری کرکٹ ٹیم کا پہلا دھماکہ یعنی پہلا میچ ٹھس نہیں ہوا بلکہ ایک دھماکے کے اندر دو دھماکے ٹھس ہوئے ہیں پہلا میچ تو ٹیم یوں ہار گئی کہ تازہ تازہ انڈے سے باہر آئے اس چوزے نے نیوکلیئر ٹیم کو میچ نہیں جیتنے دیا جس چوزے کے ابھی پر بھی تیار نہ ہوئے تھے وہ آخری اوور کی آخری گیند پر سکور کر کے میچ برابر کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ دوسری شکست اس وقت ہوئی جب سپر اوور میں اس نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کا منہ کالا کر کے یہ پیغام دیا کہ ہم جب چاہیں تمہارے ساتھ کچھ بھی کر سکتے ہیں، اپنے ایٹم بم پر نہ اترائو یہ ایٹم بم بھی ہماری مرضی سے اس وقت نظریہ ضرورت کے تحت ہی تیار ہوا تھا ورنہ ہم اس وقت نابینا تھے نہ بہرے تھے۔ ہم نے اس وقت وہی سوچا تھا تو جو چالاک تھانیدار چور کے ساتھ چوری کے مال کی بانٹ کرتے ہوئے سوچتا ہے یعنی وہ چور کو آدھا حصہ دے کر اس کا 100فیصد دوست نہیں بن جاتا بلکہ گنجائش رکھتا ہے جب ضرورت پیش آئے چوری کا مال چور سے برآمد کر کے واہ واہ کرا لے ہم خیر سے ایٹمی معاملے میں کسی کے چور نہیں ہیں نہ ہم کسی کے کانے ہیں ہم نے اس کے تیاری کی قیمت ادا کی ہے اس کیلئے قوم نے گھاس کھایا ہے جس کے بعد سے اسے ہمیشہ کیلئے گھاس چرنے والے جانور کے مقام پر اس کے لیڈروں نے لا باندھا ہے کوئی ہمیں گدھے سے خچر کا مقام دے دے تو ہم اسے اپنی ایک درجہ ترقی سمجھتے ہیں کوئی ہمیں گھوڑے کی جگہ جوت لے تو ہم اپنی دو درجہ ترقی پر پھولے نہیں سماتے ہمیں دوسرے درجے کا انسان اور دوسرے درجہ کا پاکستانی بنانے میں جن لیڈران کرام کا ہاتھ ہے وہ دنیا میں بظاہر بہت نام رکھتے ہیں ان کی واضع پہچان ہے لیکن یہ پہچان بھی تیسرے درجے کے پاکستانی کی ہے جس کے بارے میں امریکیوں نے کہا تھا کہ پاکستانی اپنی ماں کو بھی بیچ کھاتے ہیں جب پاکستانی حکومت کی طرف سے فخریہ اپنے اثاثے بیچنے کی بات کی جاتی ہے تو مجھے یہ تازیانہ مارنے والا امریکی عہدیدار بہت یاد آتا ہے۔ وہ برسوں پہلے حقیقت بیان کر گیا تھا۔
ہماری کرکٹ ٹیم کے اندر بھی ایک کرکٹ ٹیم نظر آتی ہے بالکل اسی طرح جس طرح ساتویں ماہ میں شکم مادر میں اس کا بچہ، ہماری کرکٹ بچہ کب جیتے گی یہ تو کوئی ماہر کرکٹر ہی بتا سکتا ہے لیکن ٹیم دیکھ کر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ٹیم پورے دنوں کو پہنچ رہی ہے نارمل ڈلیوری سے شاید یہ کام انجام کو نہ پہنچے اس کا سیزیرین یعنی آپریشن ناگزیر ہو گا۔ سرجن اچھا ہوا تو زچہ بچ جائے گی سرجن دو نمبر ہوا تو زچہ کی موت واقع ہو جائے گی۔ ہسپتال سرکاری ہوا تو پھر سستے میں جان چھوٹ جائے گی، پرائیویٹ ہسپتال گئے تو فوراً پیٹ چاک اور بل کئی لاکھ بنایا جائے گا۔
ٹیم میں ایک کھلاڑی ایسے بھی ہیں جو 9ماہ کا بوجھ اٹھائے لگتے ہیں ان پر کسی ریسلنگ ٹیم کے کھلاڑی کا گمان ہوتا ہے سلیکٹرز کہتے ہیں وہ ہمارے سٹار ہٹر ہیں، سپر اوور میں جب زیادہ اچھے اور اونچے شاٹ کھیلنے والے کی ضرورت پیش آئی تو خیال ہوا کہ اب وہ آئیں گے اور ہمیں میچ جتوائیں گے لیکن میچ کے کٹھن موڑ پر وہ سامنے آئے انہیں درد زہ شروع ہو چکی تھی ملک کے کونے کونے سے آواز اٹھ رہی ہے کہ میچ فکسر کو ٹیم میں اس لئے کھلایا گیا کہ میچ ہارنے کی ذمہ داری اس پر ڈال کر اپنی کھال بچائی جا سکے ایک آواز نہیں ہزار آوازیں ہیں کہ میچ لندن پلان کے سبب ہارا گیا ہے اب کرکٹ کا شوق رکھنے والے شائقین کی نظریں پاک بھارت میچ پر لگی ہیں، 30ڈالر کا ٹکٹ 10ہزار ڈالر تک بلیک ہوا ہے میچ کی ہایپ بنانے والے کامیاب رہے ہیں ٹکٹوں کی بذریعہ کمپیوٹر سیل شروع کے بعد ٹھیک آدھ گھنٹہ بعد تمام ٹکٹ فروخت ہو چکے تھے، ٹکٹ خریدنے والے 30فیصد حضرات اب انہیں من پسند قیمت پر فروخت کرتے نظر آتے ہیں نیویارک کی رگوں میں زہر اتر چکا ہے۔ دونوں ٹیموں کا موازنہ کیا جائے تو بھارت کی ٹیم صرف ایک ٹیم نظر آتی ہے ان کی سوچ اور تیاری حقیقت پسندانہ ہے ہماری بیک وقت دو ٹیمیں کھیلیں گی ایک جیتنے کیلئے دوسری ہارنے کیلئے، جھگڑا کپتانی کا ہے۔ خیبر گروپ چاہتا ہے کپتان ان کا ہو، ایک کھلاڑی کے بعد اب دوسرا بھی دامادی کی لائن میں لگا ہوا ہے اس کے بعد تیسری ویکسن آئے گی، میچ منصفانہ ہوا تو بھارت جیت جائے گا، لندن پلان کے مطابق ہوا تو اب پاکستان جیتے گا تاکہ سیمی فائنل یا فائنل کھیلے بہترین بنایا جا سکے۔ ہارے ہوئے میچ میں کرکٹ کو شکست ہوئی مافیا جیت گیا بھارت سے چھوٹا میچ جیت کر کہتے ہیں ہم نے فائنل جیت لیا ہے پھر حقیقی فائنل میچ ہار جاتے ہیں عرصہ دراز سے یہی وتیرہ ہے، بھارت جیتا تو مودی کہے گا میرا یہ پہلا تحفہ قوم کیلئے ہے۔

جواب دیں

Back to top button