عمران خان کی سیاست

امتیاز عاصی
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نواز شریف واحد سیاسی رہنما ہیں جو مشکل وقت میں ڈیل کرکے بیرون ملک چلے گئے۔ سعودی عرب میں شاہی مہمان بن کر اور لندن کے ایون فیلڈ میں قیام کے دوران انہوں نے پرسکون وقت گزرا۔ سعودی عرب میں قیام کے دوران سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کے باوجود کسی نہ کسی طریقہ سے ملکی سیاست میں اپنے آپ کو زندہ رکھا البتہ لندن کے ایون فیلڈ میں قیام کے دوران انہیں سعودی عرب جیسی پابندیوں کا سامنا نہیں تھا۔ سعودی عرب سے وطن واپسی کے بعد وہ ایک مرتبہ پھر وزارت عظمیٰ پر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے لیکن لندن سے واپسی کے بعد وزارت عظمیٰ کا ان کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا۔ عام انتخابات میں جو کھیل کھیلا گیا اس سے قطع نظر وہ اپنی ہونہار بیٹی کو پنجاب کی وزیر اعلیٰ بنانے میں کامیاب ہو گئے جس کے بعد ان کی سیاسی سرگرمیاں صوبے تک محدود ہوکر رہ گئی ہیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے نواز شریف کو مشکل وقت میں وطن چھوڑنے کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے ان کا وطن چھوڑنا مسلم لیگ نون کے لئے بہت بڑ دھچکا تھا۔ وطن چھوڑکر بظاہر انہوں نے امام خمینی بننے کی بھرپور کوشش کی جس میں وہ قطعی طور پر کامیاب نہیں ہو سکے الٹا ان کے ورکرز میں بد دلی پھیلی جس کا نتیجہ عام انتخابات میں انہوں نے دیکھ لیا ہے۔ شریف خاندان کی سیاست کو سب سے زیادہ جس چیز نے نقصان پہنچایا وہ مبینہ منی لانڈرنگ مقدمات کا خاتمہ تھا ورنہ عدالتوں میں باقاعدہ سماعت کے بعد انہیں بریت ملتی تو عوام کی نظروں میں سرخرو ہوتے ۔ ایران کے روحانی پیشوا حضرت آیت اللہ خمینی ایک فقیر منش انسان تھے جن کی سیاست کا مقصد ایران میں بے حیائی کا خاتمہ کرکے ایک اسلامی سلطنت کا قیام عمل میں لانا تھا۔ امام خمینی کی سیاست کا مقصد مال و دولت سے اندرون اور بیرون ملک اثاثے بنانا ہوتا وہ اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے تھے۔ وطن اور عوام سے محبت کا نتیجہ تھا حضرت خمینی جلاوطنی کی زندگی گزارکر ایران میں ایک اسلامی ریاست قائم کرنے میں پوری طرح کامیاب ہوگئے وطن واپسی پر عوام نے ان کا والہانہ استقبال کرکے نئی تاریخ رقم کی۔ اس کے برعکس پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کی سیاست پر نظر ڈالیں تو بقول سابق صدر عارف علوی اس نے ڈیل کرکے بیرون ملک جانے سے انکار کر دیا ہے ۔ عمران خان کو اس بات کا ادراک ہے جس روز اس نے وطن چھوڑا اس کی سیاست کا خاتمہ ہو جائے گا۔ عوام اور خصوصا نوجوان نسل جو اس کی حامی ہے اس کی بڑی وجہ اس نے جھکنے سے انکار کر دیا ہے۔ وزیراعظم کے سیاسی مشیر رانا ثناء اللہ نے ٹاک شو میں واضح طور کہا ہے عمران خان سے بات چیت نہیں ہو سکتی حالانکہ عمران خان نے نہ اقتدار میں رہ کر اور نہ اقتدار سے ہٹ کر مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے رہنمائوں سے ہاتھ ملایا ہے جیل میں رہنے کے باوجود وہ ان سے بات چیت کے لئے آمادہ نہیں۔ آئینی طور پر کوئی سیاسی جماعت طاقتور حلقوں سے بات چیت نہیں کر سکتی بدقسمتی سے ہمارے ہاں طاقت کا سرچشمہ عوام کی بجائے طاقت ور حلقے ہیں لہذا سیاسی جماعتوں کی نظریں انہی کی طرف ہوتی ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جناب اطہر من اللہ کے ریمارکس ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کرکے جیل بھیجا گیا تو وہ عام قیدی نہیں تھے بلکہ وہ آئین شکن فوجی آمر کی ریاستی مشینری کے متاثرہ فریق تھے۔ اسی طرح بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کوئی عام قیدی نہیں تھے ان دونوں کو بھی ریاستی طاقت کے غلط استعمال کا سامنا کرنا پڑا تھا لہذا عمران خان بھی کوئی عام قیدی نہیں ہیں ان کے بھی لاکھوں سپورٹر ہیں۔ گویا اعلیٰ عدلیہ نے بھی محسوس کر لیا ہے سیاست دانوں کو ریاستی طاقت کے غلط استعمال کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ تعجب ہے وزیراعظم کے سیاسی مشیر رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے عمران خان کو ابھی مزید مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا جو اس امر کا غماز ہے حکومت نے عمران خان کے خلاف بے بنیاد مقدمات قائم کرنے کی منصوبہ بندی کر لی ہے تاکہ کسی طریقہ سے عوام کے مقبول ترین لیڈر کو عوام سے دور رکھا جا سکے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے ریاستی مشینری جمود کا شکار ہے طاقت ور حلقوں کی نظریں عمران خان اور اس کی جماعت پر مرکوز ہیں حالانکہ قومی حمیت کا تقاضا ہے ملک میں پائی جانے والی سیاسی افراتفری کو کسی طرح ختم کرکے ملک کی ترقی کے لئے باہم مل کر کام کیا جا سکے لیکن یہ حقیقت ہے اقتدار میں بیٹھے بعض لوگ اپنے اقتدار کو طوالت دینے کی خاطر عمران خان کو طویل عرصے تک پس زنداں رکھنے کے خواہش مند ہیں۔ عجیب تماشا ہے سانحہ نو مئی کو گزرے ایک سال ہو گیا ہے نہ ملزمان اور نہ ان کے سہولت کاروں کے مقدمات کا فیصلہ ہو سکا ہے جو اس بات کا بین ثبوت ہے حکومت نے پی ٹی آئی کے بانی اور اس کے بعض رہنمائوں کو جیلوں میں رکھنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ دراصل عمران خان نے انتخابی مہم اور دوران اقتدار ملک لوٹنے والوں کا پرچار کرکے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا عمران خان کی اس جدوجہد کے نتیجے میں عوام کی اکثریت مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی سے بددل ہو چکی ہے۔ سیاست دانوں نے اس ملک کو تماشا بنا رکھا ہے جن سیاست دانوں کے خلاف مبینہ طور پر منی لانڈرنگ اور کرپشن کے مقدمات ہوتے ہیں وہ اقتدار میں آکر اپنے خلاف مقدمات ختم کرا لیتے ہیں جیسا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے پی ڈی ایم کے دور میں نیب قوانین میں من پسند ترامیم کرکے اپنے اور بیٹے کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ ختم کرا لیا۔ اگرچہ ملک لوٹنے والوں کو انتخابات میں اپنی اہمیت کا اندازہ ہو گیا ہے انتخابات شفاف اور غیر جانبدارانہ ہوتے تو ملک لوٹنے والوں کو اپنی جماعت کی عوام میں مقبولیت کا پوری طرح اندازہ ہوجاتا۔ چلیں سات عشروں سے زائد وقت گزرنے کے بعد عوام کو اچھے اور برے سیاست دانوں میں واضح فرق نظر آیا ہے۔ نواز شریف اور عمران خان کی سیاست میں فرق یہی ہے وہ ڈیل کرکے بیرون ملک چلے جاتے ہیں، عمران خان ڈیل کرکے وطن چھوڑنے کو تیار نہیں، بیرون ملک جانے کی بجائے وہ عوام میں رہ کر سیاست پر یقین رکھتا ہے۔





