CM RizwanColumn

قاضی کا مشورہ، نازی کی ناراضی

سی ایم رضوان
وطن عزیز کی سیاست میں عدم استحکام بلکہ نفاق اور فتنے کا وجود اب یوں نظر آ رہا ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان سیاسی ڈیڈ لاک کے باعث تلخیاں کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہیں اور خدشہ ہے ملک ایک بڑے بحران سے دوچار ہو گا۔ گو کہ حکمران جماعت مسلم لیگ ن نے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران پی ٹی آئی کو متعدد بار مذاکرات کی میز پر آنے کی دعوت دی تھی مگر پی ٹی آئی نے ہر بار ان کی پیشکش کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ وہ اپنے مینڈیٹ کے چوروں سے بات چیت کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ ملک کے دیگر آئینی اداروں نے بھی ان دنوں ملکی سیاست میں موجود ڈیڈ لاک کو بھانپتے ہوئے پی ٹی آئی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کو معاملات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی صلاح دی ہے۔ یہاں تک کہ جمعرات کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں نیب ترامیم کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیر اعظم کی ویڈیو لنک پر پیشی کے دوران ریمارکس دیئے کہ’ پارلیمینٹ میں بیٹھ کر مسائل حل کرنے اور ملک کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے‘۔ واضح رہے کہ اس مقدمے میں بانی پی ٹی آئی کی جانب سے دلائل دیئے جا رہے تھے جس کے دوران بینچ میں شامل ججوں کی جانب سے اہم ریمارکس سامنے آئے اور بظاہر مشورہ دیا گیا کہ سیاستدان باہمی اختلافات کا حل مذاکرات کے ذریعے تلاش کریں مگر اب تک تو یہی واضح ہے کہ بانی پی ٹی آئی اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ وہ اب بھی مذاکرات صرف اسٹیبلشمنٹ سے کرنا چاہتے ہیں اور پارلیمان میں موجود سیاسی جماعتوں کو اہمیت دینے اور ان کے ساتھ مذاکرات کے لئے آمادہ نظر نہیں آتے جبکہ دوسری طرف اسی اسٹیبلشمنٹ کے سب سے طاقتور کردار آرمی چیف کو بھی وہ اور ان کے دوسرے درجے کے رہنما شدید تنقید کا نشانہ بھی بناتے ہیں اور اپنے اوپر خود بیان کردہ مظالم کا ذمہ دار بھی آرمی چیف کو ہی ٹھہراتے ہیں۔ اس کی واضح مثال گزشتہ روز اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے وہ غیر رسمی گفتگو ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ ہم ان سے بات کریں گے جن کے پاس طاقت ہے۔ ان کے پاس تو طاقت ہی نہیں۔ پی ٹی آئی کے مرکزی ترجمان رئوف حسن سمییت ان کی ساری قیادت نے گزشتہ کئی مہینوں سے حکومتی مذاکرات کی پیشکش پر سخت موقف اپنایا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ رواں ہفتے سابق صدر عارف علوی نے فیصل آباد میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران کہا کہ میں اب بھی کہتا ہوں کہ جو دھاندلی سے اقتدار میں آئے ان کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔ میں گھر کی بات گھر کے مالک سے کروں گا، گھر میں جو رہ رہا ہے اس سے بات کروں گا، اگر چوکیدار کہتا ہے کہ میں گھر کا مالک بن گیا ہوں تو اس سے بات کروں گا۔ میں مالی سے تو بات نہیں کروں گا، باہر جو کھڑا ہوا ہے ٹھیلے والا اس سے تھوڑی بات کروں گا۔ یہ جو فارم 47والے ہیں یہ تو ٹھیلے والے بھی نہیں ہیں۔
پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات سے انکار کے ساتھ ساتھ الزامات اور بے تکے دلائل یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ وہ ملک میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے فتنہ، فساد اور نفاق چاہتے تھے اور چاہتے ہیں اور اپنے سوا کسی کو بھی طاقت ملنے کے خلاف ہیں اور اپنے لئے بھی طاقت اس طرح چاہتے ہیں کہ جیسے کسی کی جھولی میں پکا ہوا آم خود بخود آ گرے اور یہ صورت حال آج کی نہیں ہے پچھلے دو سالوں سے پی ٹی آئی رہنماں نے ملک پر مسلط کی ہوئی ہے اور غیر تفہیمی نوعیت کا ہتک آمیز اور فسادی رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔ جس طرح کہ عارف علوی نے کہا کہ وہ مالکوں سے بات کریں گے مالی سے نہیں۔ یعنی پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ حکومت بے اختیار ہے، کٹھ پُتلی ہے اور وہ بات صرف پاکستانی فوج سے کریں گے۔ دوسری طرف موجودہ حکومت کے قیام کے بعد سے تادم تحریر بانی پی ٹی آئی کے حق میں آنے والے متعدد فیصلے مذاکرات کے حوالے سے حکومتی حکمت عملی میں تبدیلی کی ایک واضح دلیل اور ثبوت قرار دیئے جا سکتے ہیں کہ حکومت پی ٹی آئی کو ریلیف دینے میں رکاوٹ نہیں ڈالے گی اگر پی ٹی آئی ملک کے وسیع تر مفاد میں انتشار کی بجائے اتفاق پر رضا مند ہو جائے لیکن افسوس کہ پی ٹی آئی کوئی فیصلہ کُن یا صلح کن رویہ اپنانے سے مسلسل گریزاں ہے۔ اس صورتحال پر اگرچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی پر اپنے ہی بیانیے اور اپنے ووٹروں اور کارکنان کا بھی دبا ہے مگر سوال یہ ہے کہ اگر پی ٹی آئی قیادت نے تشدد، نفرت اور الزام پر مبنی یہ متشددانہ بیانیہ صرف مقبولیت کے لئے اپنایا ہوا ہے تو کیا اس ذہنیت کو نازی ذہنیت کہنا درست نہ ہو گا۔ دوسری طرف جو آج کل خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے وہ مکمل طور پر بانی پی ٹی آئی کی ہاں یا نہ پر انحصار کرتی ہے۔ وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور صوبائی پارٹی کے صدر بھی ہیں لیکن وہ بھی اڈیالہ جیل سے آنے والے پیغامات کو ہی دیکھتے ہیں۔ دوسری طرف عارف علوی نے بھی عمرانی منشور کے عین مطابق اپنے حالیہ خطاب میں اپنے مخالف سیاستدانوں کو ٹھیلے والوں سے بھی کم تر بنا دیا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ پی ٹی آئی کے کارکنان اپنی قیادت کی ہر بات مانتے اور بیانات میں تضادات کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ یعنی پی ٹی آئی اوپر سے لے کر نیچے تک انتشار اور نفاق کی حامی ہے۔ دیگر سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کرنے یا کسی ضابطے، طریقے کے ساتھ سیاسی جدوجہد کرنے یا حکومت لینے کی بجائے وہ بلیک میل کر کے اور گالیاں دے کر پاور حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں۔
پی ٹی آئی کے اس رویے کو اگر ہم نازی ازم، فاشزم یعنی فسطائیت کہیں تو اس کا مطلب بھی واضح طور پر سمجھنا ہو گا۔ نازی ازم یعنی فسطائیت کا مطلب سیاست و حکومت کی وہ قسم ہے جس میں ایک جماعت کی آمریت مقدم اور مسلط ہوتی ہے۔ اس نظام پر یقین رکھنے والے لوگ اصل جمہوریت سے نفرت کرتے ہیں۔ ان کی پوری حکومت کو ایک آمر کنٹرول کرتا ہے۔ یہ عوام کی نہیں بلکہ خواص کی حکومت ہوتی ہے۔ نازی قسم کی اس سیاست کا مطلب اور نصب العین یہ ہوتا ہے کہ اس جماعت کے نظام کی ہر شے مقبول کی جائے۔ کسی انسانی یا روحانی اقدار کا ہر گز لحاظ نہ رکھا جائے۔
نازی ازم کی ابتدا جرمنی سے ہوئی تھی جہاں نازی پارٹی کا قیام 1920ء میں عمل میں آیا۔ ایڈولف ہٹلر بھی اس پارٹی میں شامل ہو گیا تھا۔ دراصل نازی پارٹی کا قیام 1914ء میں ہونے والی پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کا شاخسانہ تھا۔ اس کے بعد ہٹلر اور اس کی نازی پارٹی 1933ء میں اقتدار میں آگئی اور اس کے بعد نازیوں نے جرمنی میں لبرل جمہوریت کا خاتمہ کر دیا تھا اور جرمن عوام کو جنگ کے لئے متحرک کرنا شروع کر دیا تھا کیونکہ وہ متعدد ممالک کے خلاف توسیع پسندانہ عزائم رکھتے تھے، جس طرح ہٹلر نے نازی ازم کی شکل میں جرمنی کو ایک فسطائی ریاست بنایا، بالکل اسی طرح بینٹو مسولینی نے اٹلی میں اس نظریے کو فروغ دیا۔ اس نے 1915ء میں انقلابی فسطائی پارٹی کی بنیاد رکھی۔ نازی ازم کا ایک اور اہم عنصر انتہا درجے کی نسل پرستی ہے۔ یعنی نازی پارٹی والے یہ سمجھتے تھے کہ جرمن قوم آریا نسل سے تعلق رکھتی ہے اور آریائوں کی نسل سب سے برتر ہے اس لئے آریائوں کو ہی دنیا میں حکومت کرنے کا حق ہے۔ اس سوچ کو جرمن قوم میں پروان چڑھایا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہود دشمنی کو بھی ہوا دی گئی۔ ہٹلر جلد ہی کرشماتی لیڈر بن گیا اور پارٹی کے دیگر ارکان کو قائل کرنا شروع ہو گیا کہ جرمنی کے مسائل کا سبب یہودی اور مارکسسٹ ہیں۔ اس کے علاوہ اس نے یہ بھی پروپیگنڈا شروع کیا کہ جرمن نسل کی برتری کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔ اس صورتحال کے قیام کے بعد اس نے اپنی قوم، اپنے ملک اور اپنے لوگوں کو خطرناک جنگوں میں دھکیل دیا اور پھر انسانیت کا اس قدر قتل عام ہوا کہ آج تک دنیا مثالیں دے رہی ہیں۔ نازی ازم کی پیروی میں آج بانی پی ٹی آئی بھی لڑائی، جنگ اور نفرت سے نیچے کسی بات پر آمادہ ہی نہیں ہوتے اور ان کے پرستار بھی ان کی پیروی کے علاوہ کسی دوسری رائے کا قائل ہونا تو کجا سننے کے بھی روادار نہیں۔ اب اگر قاضی فائز عیسیٰ نے بھی انہیں بحیثیت چیف جسٹس آف پاکستان مفاہمت اور مذاکرات کا مشورہ دیا ہے تو اس کا ایک نازی مزاج گروہ پر کیا اثر ہو سکتا ہے۔ ان کی ناراضی تب تک قائم رہے گی جب تک کہ بانی پی ٹی آئی کو پورے پروٹوکول کے ساتھ وزیر اعظم نہیں بنا دیا جاتا۔

جواب دیں

Back to top button