Columnمحمد مبشر انوار

یاددہانی

محمد مبشر انوار( ریاض)
تاریخ کا سبق ہے کہ تاریخ سے کوئی نہیں سیکھتا، قبرستان ناگزیروں سے بھرے پڑے ہیں لیکن ہر دور میں فرعون، نمرود و شداد کی یاد تازہ کرنے والے ناگزیر مسلمہ طور پر موجود دکھائی دیتے ہیں۔ یاد ماضی ایک طرف عذاب کی صورت ہے تو دوسری طرف یہ اصلاح احوال کا زینہ بھی ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھا جا سکتا ہے، دہرائی گئی غلطیوں سے احتراز کرتے ہوئے زندگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے لیکن اس کے لئے بنیادی شرط اپنی ذات سے اوپر اٹھنا ہے وگرنہ بعینہ ماضی کی غلطیاں دہراتے ہوئے مزید تنزلی ہی نصیب بن سکتی ہے۔ تحریک پاکستان کے ہنگام، جو پاکستان معرض وجود میں آیا، اس کا جغرافیہ اس بات کا متقاضی تھا کہ حسن سلوک کے ساتھ ایک دوسرے کو برداشت کیا جاتا، حقوق کی پاسداری میں بڑے ظرف کا مظاہرہ کیا جاتا، ایک دوسرے کی عزت کی جاتی لیکن بدقسمتی سے ہوا اس کے برعکس اور مشرقی پاکستان کے شہریوں کو مسلسل احساس کمتری کا شکار رکھا گیا۔ جبکہ حقیقت یہ تھی، اور ہے کہ تحریک پاکستان کا وجود ہی بنگال میں رکھا گیا تھا اور مشرقی پاکستان کے شہریوں کا سیاسی فہم و ادراک بہر طور کہیں بہتر تھا، اس کے باوجود ان کے ساتھ یگانگت کا ماحول پیدا نہیں ہو سکا اور اول روز سے ہی مشرقی پاکستان کا وجود مغربی پاکستان کے لئے ایک مسئلہ بنا رہا۔23برس تک مشرقی پاکستان اس روئیے پر شاکی رہے لیکن انہیں دیوار سے لگانے کی مشق میں کہیں کوئی کمی نہ آئی بلکہ حکمرانوں کی جانب سے جو اقدامات اٹھائے گئے، ان میں تعصب واضح دکھائی دیتا رہا اور ان اقدامات کے باعث نتیجہ یہ نکلا کہ بنگالی ،جو پہلے ہی جغرافیائی لحاظ سے ایک قوم تھے، مزید خول میں گھس گئے، باہمی اعتماد جو ایک کلمہ گو ہونے کی وجہ سے بڑھنا چاہئے تھا، ثانوی حیثیت اختیار کر گیا اور لسانیت و علاقائی تشخص اس پر حاوی ہو گیا۔ علاوہ ازیں! پاکستان جو جمہوری طرز حکومت کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا تھا، اپنی اساس سے دور ہو گیا اور اپنے اولین دور میں ہی ٹیکنوکریٹس کی باہمی رسہ کشی اور فوری بعد آمریت کے باعث، جمہوری اطوار سے دور ہوتا گیا۔ اس صورتحال نے جلتی پر تیل کا کام کیا کہ سیاستدان جو باہم مل بیٹھ کر مسائل کا حل ڈھونڈ سکتے تھے، آمریت کی وجہ سے ان کے روئیے مزید سخت اور نفرت انگیز ہوگئے، گو کہ یہاں رویوں میں سختی اور نفرت کے پس پردہ ہوس اقتدار بھی شامل رہی کہ اگر جمہوری اقدار کو سامنے رکھا جاتا تو واضح طور پر شیخ مجیب اکثریت کے بل بوتے پر حق حکمرانی رکھتے تھے لیکن جنرل یحییٰ خان کی ضد، ہوس اقتدار ، بھٹو کے مشتعل بیانات، عالمی سیاست اور بھارت کے کردار نے یہ ممکن نہ ہونے دیا۔ تب کسی کو یہ سمجھ نہ آئی کہ مشرقی پاکستان میں انتخابات کا نتیجہ یکطرفہ کیوں ہوا؟ یہ کیسے اور کیونکر ممکن ہوا کہ مشرقی پاکستان کی تقریبا تمام نشستوں پر شہریوں نے ایک سیاسی جماعت کو کیوں سونپی؟ مغربی پاکستان کے سیاستدان کیوں مشرقی پاکستان میں مقبول نہ رہے اور کیوں مشرقی پاکستان کے قد آور سیاستدان مغربی پاکستان میں حق نمائندگی سے محروم رہے؟ کیا اس کے پس پردہ متعصب رویہ نہیں تھا؟ کیا موجودہ پاکستان میں اس متعصبانہ روئیے میں کوئی کمی آئی ہے یا سقوط ڈھاکہ کے بعد سیاسی مفادات کی خاطر ہم نے اس لسانی و علاقائی روئیے سے جان چھڑائی ہے؟ اس کا واضح جواب نفی میں ہے کہ اسی کی دہائی میں، مخالف سیاسی قوتوں کا زور توڑنے کے لئے ہم نے اسی سوچ کے تحت کئی ایک مذہبی و لسانی و علاقائی سیاسی جماعتوں کی تشکیل کی، جو بعد ازاں آج بھی ہمارے معاشرتی نظام کو دیمک بن کی چمٹی ہوئی ہیں۔
دکھ تو اس بات کا ہے کہ جس مشرقی پاکستان کو ہم نے 23برس تک معیشت پر بوجھ تصور کیا، آج وہ معاشی اعتبار سے ہم سے کہیں آگے دکھائی دے رہا ہے لیکن ہم اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے آج بھی تیار نہیں کہ وسائل کی تقسیم میں ہم تب بھی انصاف پسندی سے کام نہیں لے رہے تھے اور بدقسمتی سے آج بھی ہماری روش وہی دکھائی دیتی ہے۔ اس کا ثبوت ذرائع کے مطابق کے پی میں جاری ان ترقیاتی منصوبوں کی بندش ہے جو تحریک انصاف کے دور میں شروع ہوئے لیکن آج وفاق ان منصوبوں کو بوجوہ وسائل کی کمی، معطل کر رہا ہے جبکہ دیگر صوبوں میں ہونے والے غیر ضروری اخراجات سے صرف نظر کیا جا رہا ہے۔
وہ قومیں جو اپنے ماضی سے سبق سیکھنا چاہتی ہیں، جن کے ارباب اختیار ملک و قوم کو انتہائی خلوص نیت سے ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنا چاہتے ہیں، ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ماضی کی غلطیوں کا احاطہ کریں، ان سے سبق سیکھیں اور مستقبل کے لئے اپنے لائحہ عمل صحیح خطوط پر ترتیب دے کر، ملک و قوم کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کریں۔ قوم کے قابل، معزز اور ماہرین قانون اس ضمن میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، ایسی غلطیوں کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں، قصورواروں کی نشاندہی کرتے ہیں، ان کے لئے قرار واقعی سزائوں کا تعین کرتے ہیں اور اپنے جائزہ کو اپنی سفارشات کے ساتھ حکام کو پیش کر دیتے ہیں تا کہ وہ اس پر عمل درآمد کروا سکیں۔ بدقسمتی دیکھیں کہ پاکستان میں ہونے والی ایسی کوئی بھی رپورٹ بروقت شائع نہیں کی جاتی بلکہ قصورواروں کو بوجوہ بچانے کی کوشش کی جاتی ہے تا کہ حکومتیں برقرار رہ سکیں البتہ تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے دور میں ایسی چند ایک تحقیقاتی رپورٹس کو شائع تو کیا لیکن قصورواروں کو قرار واقعی سزا دینے سے پہلو تہی کی۔ تاہم اس مشق سے کم از کم یہ امید پیدا ہوئی کہ مستقبل میں ایسی رپورٹس نہ صرف غیر جانبدارانہ طریقے سے بنیں گی بلکہ ان کی اشاعت بھی ممکن ہو سکے گی اور بالآخر یہ توقع بھی کی جاسکتی ہے کہ قصورواروں کو سزائیں بھی ملیں گی۔ اس حقیقت سے قطعا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ معاشرے میں امن وا مان صرف اور صرف اسی صورت قائم ہو سکتا ہے اگر مجرمان کو قرار واقعی سزائیں دی جائیں ، سیاسی انتقام کے نام پر قائم کئے گئے مقدمات اور ان میں سنائی جانے والی سزائوں کی قطعا کوئی اہمیت نہیں البتہ اگر کوئی بھی سیاسی شخصیت، خواہ اس کا سیاسی قد کاٹھ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، کسی بھی سرکاری ملازم سول یا فوج، اس کے ساتھ کسی قسم کا امتیازی سلوک روا رکھنے کے ضرورت نہیں بعینہ جیسا ایڈمرل ( ر) منصورالحق کے ساتھ روا رکھا گیا تھا۔ سیاسی کوتاہ قد قائدین سے اس کی توقع رکھنا عبث ہے کہ ان کی سیاسی سوجھ بوجھ کے باعث ایسے قوانین بن رہے ہیں کہ جن کا فائدہ براہ راست مجرمان کو تو مل سکتا ہے لیکن اس سے معاشرے کو بحیثیت مجموعی کسی قسم کا کوئی فائدہ ملنا دکھائی نہیں دیتا۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی، اصل موضوع سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے بنے حمودالرحمان کمیشن رپورٹ کا تھا کہ بھٹو نے سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے جرات مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، جوڈیشل کمیشن قائم کیا جس کے اغراض و مقاصد سقوط ڈھاکہ کی وجوہات تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ قصورواروں کا تعین کرنا تھا لیکن بھٹو نے اس رپورٹ کو بروقت شائع نہ کیا۔ اس کی بنیادی وجہ بالعموم یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس رپورٹ میں بلا کم و کاست سقوط ڈھاکہ کی وجوہات، چند ایک بالا میں تحریر ہیں، جبکہ قصورواروں میں کئی ایک پردہ نشینوں کے نام بھی شامل تھے، بہرحال آج یہ رپورٹ شائع ہو چکی ہے اور اس میں یحییٰ خان کو بڑے قصورواروں میں سے ایک تسلیم کیا جاتا ہے۔ یحییٰ خان کے کردار کے ساتھ ساتھ فوج کے متعلق بھی کئی ایک حقائق اس رپورٹ میں لکھے گئے ہیں، جن کا اثر سقوط ڈھاکہ کے فوری بعد اس رپورٹ کو شائع کرنے سے فوج پر براہ راست پڑنے کا اندیشہ تھا لہذا فوج کے مورال کو مزید گرنے سے بچانے کی خاطر اس رپورٹ کو بروقت شائع نہیں کیا گیا۔ تاہم جنرل ضیاء نے اس حقیقت کو پس پشت رکھتے ہوئے، طالع آزمائی کرتے ہوئے، بھٹو کی اس نیکی کو پرکاہ کی حیثیت تک نہ دی اور بھٹو کی نہ صرف حکومت کا تختہ الٹا بلکہ اس کو تختہ دار تک پہنچایا۔ تاریخ کا سبق ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا، جبکہ پاکستان میں یہ تاثر ہر گزرتے دن کے ساتھ پختہ تر ہوتا جا رہا ہے کہ ہم تاریخ سے سبق سیکھنے کے لئے تیار نہیں، صرف اسی پر اکتفا نہیں بلکہ ہم ماضی میں کی گئی غلطیوں کو بعینہ دہرانے میں کوئی عار محسوس نہیں کر رہے۔ لٹمس ٹیسٹ کا بنیادی اصول ہے کہ اگر لٹمس کو ایک مخصوص محلول میں ڈبویا جائے تو اس کا نتیجہ ہمیشہ ایک ہی رہے گا، خواہ اس تجربے کو لامتناہی تعداد میں دہرایا جائے۔ حمودالرحمان کمیشن رپورٹ درحقیقت ہماری ماضی کی فاش غلطیوں کے حوالے سے ایک رپورٹ ہے، اسے پڑھ کر، سمجھ کر ہی ماضی سے کچھ سیکھا جا سکتا ہے، بہتر کیا جا سکتا بشرطیکہ اس کا مشورہ دینے والے کو ’’ غدار وطن‘‘ سمجھ کر اس پر مزید مقدمات قائم نہ کئے جائیں، تسلیم کہ اظہار میں زیادتی کا عنصر واضح ہے لیکن اس حقیقت سے انکار بھی کیسے اور کیونکر کیا جا سکتا ہے؟ سچائی کو چھپانے کی جتنی بھی کوشش کی جائے مگر تاریخ اسے سدا اپنے دامن میں چھپائے نہیں رکھتی اور اس کو اگل دیتی ہے، بہتر یہی ہے کہ اس کا سامنا کیا جائے، نہ کہ اس سے آنکھیں چرائی جائیں، امید ہے کہ تاریخ سے سبق سیکھنے کی ’’ یاد دہانی‘‘ کرانے پر بندہ ناچیز کسی قانونی پیچیدگی کی زد میں نہیں آئے گا۔

جواب دیں

Back to top button