ColumnImtiaz Aasi

عمران خان کی نالش

امتیاز عاصی
قید خانے میں خواہ کتنی سہولتیں کیوں نہ ہوں اسے جیل یونہی نہیں کہتے چند فٹ کے سیل میں بند کرکے چہل قدمی کے لئے مزید کئی فٹ جگہ کا اہتمام عام قیدیوں کے لئے نہیں ہوتا بلکہ انہیں اپنے سیلوں کے باہر مخصوص جگہ کے اندر ڈھلائی کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ وہ قیدی جنہیں بہتر کلاس کی سہولت میسر ہوں انہیں بھی اپنے سیلوں کے احاطے میں چہل قدمی کی اجازت ہوتی ہے۔ خان صاحب کو چہل قدمی کے لئے کئی سیلوں کی دیواروں کو توڑ کر زیادہ سے زیادہ جگہ مہیا کی گئی ہے۔ خان صاحب کو جیل میں ایک سال ہو گیا، انہیں اتنے عرصے میں اس بات کا ادراک ہو جانا چاہیے تھا عمران خان جیسے وی آئی پیز اور دیگر سیاسی لوگوں کو علیحدہ رکھنے کا مقصد انہیں کسی قسم کے نقصان نے بچانا مقصود ہے۔ جیلوں میں جب کوئی سیاسی شخصیت یا کوئی پولیس کا کوئی ملازم آ جائے تو انہیں حفاظتی نقطہ نگاہ سے دیگر قیدیوں سے علیحدہ رکھا جاتا ہے۔ عمران خان ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے بانی اور سابق وزیراعظم ہیں انہیں بہتر کلاس کے لئے مختص جگہ پر اس لئے نہیں رکھا گیا ہے کیونکہ وہاں پہلے سے بہتر کلاس کے قیدی اور حوالاتی موجود ہیںاگر جیل انتظامیہ انہیں بی کلاس کے لئے مختص جگہ میں رکھتی تو انہیں ایک کی بجائے کئی قیدیوں اور حوالاتیوں کو وہاں سے دوسری بیرکس میں شفٹ کرنا پڑتا۔ انگریز نے جیل مینوئل سوچ سمجھ کر بنایا تھا جو آج کا نہیں بنا ہوا ہے جسے سو سال سے زیادہ مدت ہو چکی ہے۔ عمران خان کو بہتر کلاس کی سہولتوں سے میرے خیال میں بہت زیادہ سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔ چند سال قبل تک جیلوں میں اے اور بی کلاس ہوا کرتی تھی لیکن پنجاب حکومت نے اے کلاس ختم کرکے بس ایک بہتر کلاس مختص کر دی ہے جو اس کے اہل ہوتے ہیں انہیں بہتر کلاس کی سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں۔ جہاں تک عمران خان کی قید تنہائی والی بات ہے وہ اپنی جگہ درست ہے اگر عمران خان کو بہتر کلاس کی سہولت دے کر کھلا چھوڑ دیا جاتا وہ جیل میں جہاں چاہیں گھومیں پھریں تو جیل میں بھونچال آجائے جیل انتظامیہ کے لئے لااینڈ آرڈر کا مسئلہ بن سکتا ہے۔ عمران خان کو کھانے پینے کی من پسند اشیائے خورو نوش باہر سے منگوانے کی اجازت ہے جو بہتر کلاس کے قیدیوں کو میسر ہوتی ہے۔ بہتر کلاس کے قیدیوں کو ایل ای ڈی ، میٹریس، ٹیبل اور کرسی کی سہولت حاصل ہوتی ہے البتہ جم کی سہولت ہم نے پہلی مرتبہ سنی ہے ۔ ہمارے خیال میں جیل مینوئل میں اس کا ذکر نہیں ہے۔ عمران خان نے نماز پنجگانہ اور قرآن پاک کی تلاوت اور تفسیر کا جو سلسلہ جاری رکھا ا ہے جیل میں دل و دماغ کو سکون دینے کے لئے اس سے اچھا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ جیلوں میں جو انسان اپنا زیادہ سے زیادہ وقت حق تعالیٰ سے لو لگانے میں گزارتا ہے ایسے قیدیوں کو جیلیں کچھ نہیں کہتیں۔ اس حقیقت میں دو آراء نہیں بقول اللہ سبحانہ تعالیٰ کے نبی حضرت یوسفٌ نے جیل کو جنم کے ٹکڑے سے ویسے تشبیہ نہیں دی۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے عمران خان مضبوط اعصاب کے مالک ہیں جو بہت کم قیدیوں کے نصیب ہوتا ہے ۔جیلوں میں بند رہ کر اکثر قیدی عارضہ قلب، ٹی بی اور سکن کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ہم کئی عشرے پہلے والی جیلوں پر نظر ڈالیں تو آج کی جیلیں اور خصوصا سنٹرل جیل راولپنڈی ایک ریسٹ ہائوس کی مانند ہے۔ قیدیوں اور حوالاتیوں کو سرکاری کینٹن سے کھانے پینے کے اشیاء منگوانے کی اجازت ہوتی ہے البتہ کچا گوشت قیدیوں اور حوالاتیوں کو منگوانے کی اجازت نہیں ہوتی اس کے باوجود اثر و رسوخ رکھنے والے قیدی جیلوں میں گوشت اور مچھلی منگوا لیتے ہیں۔ عمران خان کو یہ بات ذہین نشین رکھنے کی ضرورت ہے وہ کوئی عام قیدی نہیں ہیں سابق وزیراعظم ہیں ان کے خلاف کئی ایک مقدمات ہیں بقول رانا ثناء اللہ ان کے خلاف ابھی اور بہت سے مقدمات قائم کئے جانے ہیں۔ سابق وزیراعظم اچھی طرح جانتے ہیں وہ کن حالات کے تحت جیل گئے ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے وہ نواز شریف کی طرح کوئی ڈیل کرکے قید خانے سے باہر نہیں آنا چاہتے ہیں جو ایک اچھے سیاست دان کی خوبی ہے۔ نیلسن منڈیلا کی مثال ہمارے سامنے ہے وہ کئی عشرے جیل میں رہنے کے بعد رہا ہوئے تو عوام نے ان کا تاریخی استقبال کیا اور اس کے ساتھ اقتدار بھی سونپ دیا۔ ایران کے روحانی پیشوا حضرت آیت اللہ خمینی کی مثال ہمارے سامنے ہے وہ کئی برس تک جلاوطن رہے اور اپنی تقاریر کی کیسٹوں سے ایران میں انقلاب برپا کرکے اسلامی سلطنت کی بنیا د رکھی۔ جناب خمینی تہران کے ہوائی اڈے پر اترے تو لاکھوں عوام جس گاڑی میں وہ سوار تھے اٹھا کر ایر پورٹ سے باہر لے آئے تھے۔ایک اچھے لیڈر کی یہی خوبی ہوتی ہے وہ اپنے مفادات کی خاطر کسی قسم کی ڈیل نہیں کرتے بلکہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرکے عوام کی نظروں میں سرخرو ہوتے ہیں۔ عمران خان کو قید تنہائی کا شکوہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ یہ ان کے اپنے مفاد میں انہیں عام قیدیوں سے علیحدہ رکھا گیا ہے۔ ایک انگریزی فلم بن ہر میں رومنوں کو عیسائیوں پر ظلم کرتے دکھایا گیا ہے۔ ہزاروں سال قبل جب بحری جہازوں کو چپوں سے چلایا جاتا تھا چارٹر سیٹن فلم ایکٹر کو بحری جہاز کو چپوں سے چلانے کو کہا گیا جب دروغہ دیکھنے کیلئے آیا تو چارٹر کو جواں مردی سے بحری جہاز کو چلاتے دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا ۔ دراصل انسان کو اس کی wilpowerزندہ رکھتی ہے۔ عمران خان نے قید کے دوران قرآن حکیم کی تلاوت اور نماز کی ادائیگی کو جو معمول بنایا ہے ایسے لوگوں کے حوصلے پست نہیں ہوتے۔ بعض حلقوں نے عمران خان کو پلے بوائے سمجھا رکھا تھا لیکن وہ پہاڑ کی مانند کھڑا ایسے بندوں کے سامنے کسی قسم کی ڈیل رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ دراصل انسان کو یا تو نفرت یا محبت زندہ رکھتی ہے۔ عمران خان ہمت کوسے کام لینا چاہیے اپنی پارٹی کے ورکرز اور رہنمائوں کو یہ پیغام دینا چاہیے وہ ملک و قوم کی بھلائی کے لئے کام کریں ایک اچھے لیڈر کی یہی خوبی ہوتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button