Column

پارٹی رہنمائوں کو بلاول بھٹو کی ہدایات

علی حسن
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بدھ کے روز اپنی پارٹی کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور اراکین سے تفصیلی خطاب کیا جس میں انہوں نے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالتے ہوئے ارکان سے سستی کا مظاہرہ کرنے کا شکوہ کرتے ہوئے ہدایت کی کہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے جو تاریخی کامیابی حاصل کی ہے تو ہم دن رات محنت کر کے عوام کی توقعات پر پورا اتریں۔ اراکین پارلیمنٹ، پارٹی اور کابینہ کے اراکین پر سست روی کا مظاہرہ کرنے کا شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ آپ پانچ دفعہ جیت کر آئے ہیں تو آپ میں سستی نظر آ رہی ہے، میں چاہ رہا ہوں کہ آپ کی سستی ختم کروں، پاکستان پیپلز پارٹی نے جو تاریخی کامیابی حاصل کی ہے تو میں چاہتا ہوں کہ ہم دن رات محنت کریں تاکہ ہم عوام کی توقعات پر پورا اتر سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے تمام اراکین قومی و صوبائی اسمبلی، وزرا محنت کرتے ہوئے نظر آئیں، ایم پی اے کا عوامی رابطہ جاری رہنا چاہیے اور انہیں تلقین کی کہ پارلیمنٹ میں حاضری کے ساتھ ساتھ آپ کو اپنے حلقے اور عوام کو وقت دینا پڑے گا کیونکہ وہی عوامی رابطہ ہیں۔ میں نہیں سمجھتا ترقیاتی یا بڑے بڑے منصوبے آپ کو الیکشن جتواتے ہیں، اگر آپ اپنے حلقے کے عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ کی اچھی پوزیشن رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی ورکرز منسٹرز اور ایم پی ایز میں میں مجھے کچھ سستی نظر آ رہی ہے۔ جو کہ نا قابل برداشت ہے۔ ہم اپنے عوام کے مسائل حل کرنے کے لئے آئے تھے ضروری ہے کہ ہمارے ایم پی ایز کا عوامی رابطہ مضبوط ہو۔ اپنے حلقے کے عوام کو وقت دیں انکے مسائل انکی مشاورت سے حل کریں۔ ہمیں ٹرانسفر اور پوسٹنگ کی سیاست کا خاتمہ کرنا ہوگا تمام تعیناتیاں میرٹ پر ہونی چاہئیں۔ آپس کی لڑائیوں کی وجہ پارٹی کی کارکردگی اور ڈیلیوری کو نقصان نہیں ہونا چاہیے ہم سیاست میں عوام کی خدمت کے لئے آئے ہیں ذاتی مفادات کی جنگ لڑنے نہیں آئے ۔ انہوں نے کہا ٹیم ورک کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں آپ سے بھی یہی توقع ہے‘‘۔
صوبہ سندھ میں تواتر کے ساتھ 2008سے حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی کے نوجوان سربراہ نے تاخیر سے سہی لیکن ٹھیک ٹھیک نشان دہی کی ہے۔ صوبائی حکومت کو اپنی کوتاہیوں، کمزوریوں اور خامیوں کو کھلے دل اور آنکھوں کے ساتھ دیکھنا چاہئے کہ آکر کیا وجوہات ہیں صوبائی حکومت عوام کی توقعات پر پوری کیوں نہیں اتر رہی ہے۔ پارٹی کے سیاسی مخالف جب پیپلز پارٹی کی کارکردگی پر تنقید کرتے ہیں تو جن با توں کا ذکر پارٹی کے سربراہ نے کیا ہے ، ان کا تو تذکرہ ہوتا ہی ہے لیکن پارٹی کی حکومت کی حکمرانی کی کمزوریوں کا ذکر بھی ہوتا ہے۔ پارٹی کی حکمرانی میں کمزوریوں کا تو سندھ ہائی کورٹ اور سپریم ہائی کورٹ کئی بار نشان دہی کرا چکی ہیں۔ اسی کمزور حکمرانی کی وجہ سے پارٹی کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ کمزور حکمرانی میں مختلف اسباب کے علاوہ مختلف قسم کے تعصبات کا بھی دخل ہے۔ پارٹی کے قائدین اور بڑے سیاسی رہنمائوں کا کہنا ہوتا ہے کہ عوام پارٹی کی کارکردگی کی وجہ سے ہی اسے ووٹ دیتے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ درست نشان دہی ہو لیکن پارٹی نے وڈیروں کی سیاست کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے۔ جس وڈیرے کے پاس پیشے ہیں اور وہ اگر ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو منتخب بھی ہوجاتا ہے۔ اس میں منتخب شخص کی کارکردگی کا کوئی کمال نہیں ہوتا ہے۔ بر صغیر میں ایسی سیاسی جماعتیں جو عوام کی سیاسی نبض پر ہاتھ رکھنے کی دعوی دار ہوتی تھیں آج سیاسی اکھاڑے سے باہر ہی نہیں بلکہ غائب بھی ہو چکی ہیں۔
ایسی کوئی مثال ہی نہیں ملتی ہے کہ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ ، ان کے وزرائ، پارٹی کے صوبائی صدر نثار کھوڑو یا با اثر رہنما عوام یا اپنے کارکنوں سے با ضابطہ طور پر تواتر کے ساتھ ملاقاتیں کرتے ہوں ، انہیں در پیش مسائل سنتے ہوں ، آگاہی حاصل کرتے ہوں اور ان کا حکومتی سطح پر سدباب کے لئے اقدامات کئے جاتے ہوں۔ جب کمزور حکمرانی کی نشان دہی کی جاتی ہے تو اس کا مطلب ان محکموں اور اداروں کی کارکردگی کی نشان دہی کی جاتی ہے جن کا براہ راست تعلق عوام سے ہے ۔ سندھ سیکریٹریٹ کا ریکارڈ دیکھ لیا جائے کہ عوام کو داخلہ کی کتنی اجازت ہوتی ہے۔ وزراء کو عام لوگوں کے ساتھ ملاقات کی زحمت ہی گوارہ نہیں کرتے ہیں۔ اپنے حلقہ انتخاب میں تو ملاقات کرنا ان کے لئے مشکل ہوتا ہے۔ وہ دور گیا جب وزراء یا منتخب نمائندے گھر آئے مہمان ( ووٹر یا عوام) کے ساتھ کسی تامل کے بغیر ، وقت کی پروا کئے بغیر ملاقات کر لیا کرتے تھے۔ اپنے مہمانوں کی خاطر تواضع میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی تھی۔ سندھ میں ریگستانی ضلع تھر پارکر کے سیاسی رہنماء ارباب امیر حسن، پیپلز پارٹی خواتین شاخ کی سربراہ فریال تالپور کے سسر میر علی بخش تالپور، سائیں جی ایم سید، وغیرہ وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں جو گھر آئے مہمان کی خاطر تواضع کے لئے ہر وقت حاضر رہا کرتے تھے۔ وزیر اعلیٰ ہائوس میں تو وہ تمام لوگ جو بااثر ہیں، جن کے سیاسی تعلقات ہیں، آتے جاتے رہتے ہیں لیکن ہاوس کے باہر کی فٹ پاتھ پر بھی عام آدمی کھڑا نہیں ہو سکتا ہے ۔ پولس اسے بھگا دیتی ہے۔
چیئرمین بلاول کو چاہئے کہ پارٹی کے حامیوں سے شکایات، تجاویز باقاعدگی سے خود منگوایا کریں اور لوگوں کے خطوط کا جواب دیا کریں۔ آج کے دور میں تو مشکل نہیں ہے کہ عوام کی شکایات کو مانیٹر کیا جائے۔ انہوں نے خود نشان دہی کی ہے کہ منتخب نمائندے افسران کے ٹرانسفر یا پوسٹنگ کے چکر میں نہ رہا کریں۔ افسران کے ٹرانسفر اور پوسٹنگ کا معاملہ ایسا زہر ہے جو افسران تو اپنی سہولت اور مالی مفادات کے چکر میں ملوث رہتے ہیں اور وزیر اعلیٰ ہائوس کے چکر ہی لگاتے رہتے ہیں۔ سرکاری افسران پر اور ان کی کارکردگی پر گہری نظر رکھنا بہت ضروری اس لئے ہوتا ہے کہ ان کا دائو پر کچھ لگا ہوا نہیں ہوتا ہے۔ آج یہ لوگ پیپلز پارٹی کے جی حضوری بنے ہوئے ہیں تو کل کسی اور سے وفاداری نبھا رہے ہوں گے۔ ایسے مہربان بھی سرگرم ہوتے ہیں جو ٹرانسفر اور پوسٹنگ کی باقاعدہ رقم مقرر کر کے پیسی وصول کرتے ہیں۔ محکمہ پولس میں تو نچلے درجے پر تقرری کے معاملات پر نظر رکھنا بہت ہی ضروری ہوتا ہے۔ تھانہ دار اور حد تو یہ ہے کہ بڑا منشی، چھوٹا منشی، وغیرہ وغیرہ کی تقرری اگر میرٹ پر ہو گی تو امن و امان بہتر رکھنے میں مدد ملے گی۔ خود ان کے اپنے الفاظ میں ’’ پاکستان پیپلز پارٹی نے جو تاریخی کامیابی حاصل کی ہے تو میں چاہتا ہوں کہ ہم دن رات محنت کریں تاکہ ہم عوام کی توقعات پر پورا اتر سکیں اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے تمام اراکین قومی و صوبائی اسمبلی، وزرا محنت کرتے ہوئے نظر آئیں۔ ہر چھ ماہ میں کابینہ کی کارکردگی رپورٹ لی جانی چاہیے ۔ وزرا کی رپورٹ کا جائزہ میں خود لوں گا ‘‘۔

جواب دیں

Back to top button