ColumnRoshan Lal

بی جے پی کا الٹا سفر؟ ( پہلا حصہ)

روشن لعل
ہمسایہ ملک بھارت کی اٹھارویں لوک سبھا کے لیے منعقدہ عام انتخابات کے حتمی نتائج سامنے آنے کے بعد یہ سوال پوچھا جانے لگا ہے کہ کیا بنیاد پرست ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کا الٹا سفر شروع ہو گیا ہے ۔ حالیہ انتخابات کے مطابق ، بھارتیہ جنتا پارٹی نے کل 543نشستوں میں سے 240نشستیں جیت کر ایک مرتبہ پھر خود کو ایوان کی سب سے بڑی پارٹی ثابت کر دیا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی انتخابات سے قبل بننے والے جس اتحاد کا حصہ بنی اس کی کل نشستیں 290 ہیں جو حکومت سازی کے لیے درکار 272نشستوں سے 18زیادہ ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی جیتی نشستوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، انہیں حالیہ عام انتخابات کا فاتح اور اگلی ٹرم کے لیے بھارت کا یقینی حکمران قرار دیا جاسکتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جس سیاسی اتحاد کی جیت اور حق حکمرانی انتہائی واضح ہے ، اس کے کیمپ میں تو سوگ کی سی کیفیت ہے لیکن اس کا مخالف اتحاد جس کی حاصل کردہ کل سیٹیں صرف بھارتی جنتا پارٹی کی جیتی ہوئی سیٹوں سے بھی5 کم ہیں، اس کے کیمپوں میں خوشیاں منائی جارہی ہیں۔ اصل میں سب سے زیادہ نشستیں جیتنے کے باوجود بھارتیہ جنتا پارٹی کے کیمپ میں سوگ اس وجہ سے ہی کیونکہ اس جماعت نے 2019کے لوک سبھا الیکشن میں 303نشستیں جیتی تھیں جو حکومت سازی کے لیے درکار 272نشستوں سے 31زیادہ تھیں۔ بھاریہ جنتا پارٹی نے 2019کے عام انتخابات سے قبل 2014میں منعقدہ انتخابات 282نشستیں حاصل کیں جو حکومت سازی کے لیے درکار سیٹوں سے 10زیادہ تھیں۔ بھارت میں سال 2014سے قبل 1984میں وہ آخری عام انتخابات منعقد ہوئے جب کانگریس نے آخری مرتبہ حکومت سازی کے لیے درکار سیٹوں سے 143زیادہ سیٹیں حاصل کر کے تن تنہا حکومت بنائی تھی ۔ اس کے بعد منعقدہ مسلسل 7انتخابات میں وہاں کوئی بھی سیاسی جماعت حکومت سازی کے لیے تن تنہا سادہ اکثریت حاصل نہیں کر سکی تھی۔ نریندر مودی کی قیادت میں جب بھارتیہ جنتا پارٹی نے پہلے 2014اور پھر2019میں حکومت سازی کے لیے بتدریج زیادہ سیٹیں حاصل کر کے تن تنہا حکومت بنائی تو بی جے پی کے رہنمائوں نے 2024کے لوک سبھا الیکشن کے لیے 400سیٹوں کا ہدف مقرر کرتے ہوئے یہ اعلان بھی کر دیا کہ اتنی سیٹیں جیتنے کے بعد وہ نہ صرف تن تنہا حکومت سازی کریں گے بلکہ کسی کی مدد کے بغیر آئین میں ترمیم کر کے اس کی سیکولر حیثیت کو ختم کرنے کے قابل بھی ہو جائیں گے۔ حالیہ انتخابات میں 400نشستیں جیتنے کی بجائے گزشتہ انتخابات میں جیتی گئی نشستوں سے 63کم نشستیں لینے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کے آئین کی سیکولر حیثیت ختم کرنے کے خواب چکنا چور ہو چکے ہیں۔ بی جے پی کے کیمپ میں اگر سوگ کی کیفیت ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے خوابوں کی تعبیر اس سے دور ہو گئی ہے، جبکہ کانگریس پارٹی کی سر کردگی میں مخالف کیمپ اس وجہ سے خوش ہے کہ انہوں نے اپنے آئین کی سیکولر حیثیت کو بچا لیا ہے۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ بی جے پی نے لوک سبھا میں حاصل دو تہائی اکثریت کے بل بوتے پر جس طرح بھارتی آئین کے آرٹیکل370 میں ترمیم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا ، اب وہ بھارت کے آئین میں ایسی ترمیم کیا ، تن تنہا کوئی ایسا قانون بھی نہیں بنا سکے گی جس کے لیے محض سادہ اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے۔ لوک سبھا میں حکومت سازی کے لیے پہلی ترجیح ہونے کے باوجود حالیہ الیکشن کے نتیجے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیاسی طاقت میں جو کمی واقع ہوئی ہے اسے معمولی نہیں سمجھا جاسکتا۔ بلاشبہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیاسی طاقت کم ہوئی ہے مگر اس تناظر میں کیا یہ سوچنا درست ہے کہ بی جے پی جو مسلسل ترقی کر رہی تھی اب اس کا الٹا سفر شروع ہو گیا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیاسی طاقت میں کمی کی بعد اس کا الٹا سفر شروع ہوا ہے یا نہیں ، اس بات پر غور کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ بی جے پی نے جو ترقی کی اس کا سفر اس نے کہاں سے شروع کیا تھا۔
پاکستان میں بی جے پی کے متعلق بہت کم لوگوں جانتے ہونگے کہ اپریل 1980میں معرض وجود میں آنے والی اس جماعت کو راشٹریہ سویم سیوک سنگ( RSS ) نے اپنے ایجنٹ کے طور پر سیاسی میدان میں اتارا تھا ۔ اصل میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہندوستان کے سیاسی منظر نامے سے غائب ہونے والی بھارتیہ جن سنگ کے متبادل کے طور پر بنایا گیا تھا۔ بھارتیہ جن سنگ کی پیدائش، آر ایس ایس کے زیر سایہ 1951میں ہوئی تھی۔ بھارتیہ جن سنگ نے اپنے قیام کے وقت واضح طور پر ہندو نیشنل ازم کو اپنی سیاسی بنیاد قرار دیاتھا ، مگر ان دنوں بھارت میں سیکولر ازم کابیانیہ اس قدر مضبوط تھا کہ RSSکے سیاسی ونگ کے طور پر قائم ہونے والی اس پارٹی نے کھل کر مذہبی انتہاپسندی کا اظہار کرنے سے گریز کیا۔ بھارتی جن سنگ کا وجود ایک ہندو نیشنلسٹ سیاسی جماعت کے طور پر 1970کے وسط تک قائم رہا۔ 1975میں جب اندرا گاندھی نے امیر جنسی کے نفاذ کو مخالف سیاستدانوں کی گرفتاریوں کے لیے استعمال کیا تو اس کے رد عمل میں نہ صرف حزب اختلاف کی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوںکے لیڈروں کو قریب آنے کا موقع ملا بلکہ آئندہ الیکشن میں کانگریس کے خلاف ایک بڑا سیاسی اتحاد قائم ہونے کی راہ بھی ہموار ہوئی۔ 1977میں چھٹی بھارتی لوک سبھا کے الیکشن میں حزب مخالف کی ایسی سیاسی جماعتوں نے جنتا پارٹی کے نام سے اندرا گاندھی کی کانگریس کے خلاف اتحاد بنایا جس میں ہندو قوم پرست جن سنگ جیسی جماعت بھی شامل تھی اور سیکولر ازم کا دم بھرنے والی سوشلسٹ پارٹی بھی اس کا حصہ تھی۔ 1977کے انتخاب میں کانگریس کی 153سیٹوں کے مقابلے میں جنتا پارٹی نے 298سیٹیں لے کر کامیابی حاصل کی ۔ جنتا پارٹی کی 298سیٹوں میں سب سے بڑا حصہ سابقہ جن سنگ کے لوگوں کا تھا جن کی تعداد90 سے بھی زیادہ تھی۔ 1977کے انتخاب کے نتیجے میں قائم ہونے والی جنتا پارٹی کی اتحادی حکومت بہت جلد انتشار کا شکار ہو کر ختم ہوگئی۔ 1977کے الیکشن میں اندراگاندھی کی کانگریس جس بری طرح ہاری تھی 1980کے الیکشن میں اس نے اتنی ہی شاندار کامیابی حاصل کی ۔ جنوری 1980کے الیکشن میں جس ٹوٹی پھوٹی جنتا پارٹی نے حصہ لیا اس میں جن سنگ کے لوگ بھی شامل تھے اور یہ پارٹی صرف 31سیٹیں حاصل کر سکی تھی۔ اس پارٹی میں مزید شکست و ریخت اس وقت ہوئی جب سابقہ جن سنگ سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے یہ کہا گیا کہ وہ RSSسے اپنی لاتعلقی کا اعلان کریں تو انہوں نے ایسا کرنے کی بجائے ساتویں لوک سبھا کے الیکشن کے صرف چار ماہ بعد اپریل 1980میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت بنا ڈالی ۔ ( جاری ہے)

جواب دیں

Back to top button