ColumnImtiaz Aasi

سیاسی مقدمات کا انجام

امتیاز عاصی
قوم ایک سا ل سے سائفر کیس کا شور غوغا سن رہی تھی۔ آخر سائفر کا غلغلہ بیٹھ گیا اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو بری کر دیا۔ ماتحت عدالت نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو دس دس سال قید کی سزا سنائی تھی۔ دونوں رہنمائوں کے خلاف گزشتہ سال اگست میں مقدمہ بنایا گیا تھا۔ سائفر کیس بنانے پر سرکاری خزانے کے کتنے کروڑ خرچ ہوئے ہوں گے حکومت کو چاہیے اس کی تفصیلات سے قوم کو آگاہ کرے ۔ سیاسی حکومتوں کا مقصد مخالفین کو زچ کرنا اور عوام کی نگاہوں میں انہیں بے توقیر کرنا مقصود ہوتا ہے جس کے لئے قومی خزانے کو ذاتی سمجھ کر خرچ کیا جاتا ہے۔ ایک ممتاز قانون دان سے سائفر کیس کے فیصلے پر تبصرہ کرنے کو کہا گیا تو انہوں نے بتایا سائفر کیس کی سماعت کے دوران انہوں نے پراسیکیوٹر سے کیس کی قانونی نوعیت بارے دریافت کیا گیا اس کا جواب تھا کیس میں کچھ نہیں البتہ اس نے حکومت سے فیس لے لی ہے اور مقدمہ کی پیروی کرنے سے لوگوں کے ساتھ علیک سلیک کا موقع مل گیا ہے حالانکہ حکومت کو مقدمہ قائم کرنے سے قبل اس کے قانونی پہلوئوں کو ہر صورت میں سامنے رکھتے ہوئے مقدمہ کا اندراج کرنا چاہیے یہاں تو عمران خان کو کسی طریقے سے جیل بھیجنا تھا۔ اسلام آباد کے جلسہ میں سائفر کی کاپی کو لہرایا یا نہیں ایک طوفان برپا ہو گیا جیسا کہ ملک میں بھونچال آگیا ہو۔ حقیقت میں سائفر کیس سی وقت ختم ہو گیا تھا جب عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری نے عدالت میں سائفر کی گمشدگی بارے اپنا بیان ریکارڈ کرایا تھا۔ حکومتی وکلاء نے ہائی کورٹ میں دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا عمران خان 342 کے ملزم بیان میں تسلیم کیا ہے لیکن عدالت کا موقف تھا اس کے باوجود پراسیکوشن کو کیس ثابت کرنا ہوتا ہے ۔ عدالت نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا اگر سائفر گم ہو گیا تو پاس رکھنے کا الزام کیسے لگ سکتا ہے۔ عدالت نے اس امر پر تعجب کا اظہار کیا ملزم بیان کے ساتھ ہی سائفر کیس کا فیصلہ آجاتا ہے ۔عام طور پر ماتحت عدالتوں سے ملزمان سزا یاب ہو جاتے ہیں ماتحت عدلیہ کے پلیٹ فارم پر شہادتوں کا گہرائی سے جائزہ نہیں لیا جاتا اس کے برعکس اعلیٰ عدلیہ میں مقدمات میں شہادتوں کو بغور جائزہ لینے کے بعد اپیلوں کا فیصلہ ہوتا ہے ماتحت عدالتوں اور اپیلیٹ کورٹ میں مقدمات کی سماعت میں یہ واضح فرق ہے۔ بدقسمتی سے جس ملک میں ڈاکٹر قدیر خان جیسے محب وطن سائنس دان کو ٹی وی پر معافی مانگنے کو مجبور اور امریکہ کے حوالے کرنے کی کوشش کی گئی ہو ایسے ملک میں کچھ بھی ممکن ہے۔ سائفر کیس میں ایک اہم جواز پیش کیا جاتا رہا ہے امریکہ کے ساتھ تعلقات بہت متاثر ہوئے ہیں حالانکہ عمران خان کی حکومت کی برطرفی کے بعد امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ وطن عزیز اور امریکہ کے تعلقات اچھے نہ ہوتے پاکستان آئی ایم ایف پروگرام نہیں لے سکتا تھا جب کہ اب آئی ایف ایم اپنی شرائط کے ساتھ قرض دینے پر رضامند ہے لہذا حکومت کا یہ موقف درست نہیں تھا سائفر سے دونوں ملکوں کے مابین تعلقات میں سرد مہر ی آئی ہے۔ عجیب تماشا ہے ایک طرف عمران خان اپنے سٹاف کو سائفر تلاش کرنے کا کہتا ہے دوسری طرف اس کے خلاف سائفر کا مقدمہ بنا دیا جاتا ہے۔ سوال ہے عمران خان اور دوسرے سیاست دانوں کے خلاف موجودہ حکومت کے دور میں جیتنے کیس بنائے گئے اعلیٰ عدالتوں میں سب کے سب ختم ہو گئے جس کی وجہ عدالتوں پر عمران خان کا اثر رسوخ نہیں بلکہ جن مقدمات میں کوئی ٹھوس ثبوت substanceنہیں ہوتا اعلیٰ عدالتوں سے ملزمان بری ہو جاتے ہیں۔ اگر ملک کو ترقی دینا ہے تو سیاست دانوں کو ایک دوسرے کے خلاف بوگس مقدمات بنانے کی روش ترک کرنی ہو گی۔ سانحہ نو مئی کیا ہوا پی ٹی آئی کے لوگوں پر قیامت آگئی مرد و زن جیلوں میں بھیج دیئے گئے قریبا ایک سال بعد بعض کو رہائی ملی ہے لیکن ان کے خلاف مقدمات کی سماعت نہیں ہو سکی ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف مقدمات کی سماعت اندرون جیل میں ہوتی ہے حالانکہ اسے عدالت میں پیش کیا جائے تو کون سی قیامت آجاتی۔ کوئی سمجھے نہ سمجھے جیل میں رکھنے سے عمران خان عوام کی نظروں میں پہلے سے زیادہ مقبولیت حاصل کی۔ یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے ایک طرف سیاست دان ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام کی بات کرتے ہیں دوسری طرف سیاسی رہنمائوں کے خلاف مقدمات پر مقدمات قائم کئے جا رہے ہیں۔ دراصل ملکی سیاست ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھ چکی ہے یہاں اپنے مفادات کے سوا سیاست دانوں کو ملک و قوم کی کوئی فکر نہیں۔ ملک میں کوئی غیر قانونی کام ہوتا ہے تو بڑے سے بڑے لوگ ملوث نکلتے ہیں ایسے میں ہمارا ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے۔ تاریخی حقائق پر نظر ڈالیں تو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے بعد پیپلز پارٹی ختم ہو گئی ہے بلکہ اس کے بعد دو مرتبہ حکومت کر چکی ہے۔ پیپلز پارٹی کے قائد دو مرتبہ قصر صدارت تک پہنچ چکے ہیں لہذا جو لوگ یہ سمجھتے ہیں عمران خان کو جیل میں رکھ کر پی ٹی آئی کا خاتمہ ہو جائے گا احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ عمران خان نے نوجوان نسل کو باشعور کر دیا ہے نئی نسل روایتی سیاست دانوں سے نجات چاہتی ہے جس کی ایک بڑی وجہ وہ لوگ ڈیلور کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ حیرت اس پر ہے نواز شریف تین مرتبہ وزیراعظم اور ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلی رہ چکے ہیں اب ان کا نیا نعرہ ہے وہ قوم کی تقدیر بدل دیں گے بھلا کوئی ان سے پوچھے انہیں قوم کی تقدیر بدلنے سے پہلے کس نے روکا تھا۔ عوام سیاست دانوں کے جھوٹے نعروں سے مرعوب نہیں ہوتے بلکہ وہ عملی طور پر ملک و قوم کی خدمت کرنے والے سیاسی رہنمائوں کو اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی سپریم جوڈیشل کونسل کو شکایت کے بعد کچھ ماحول میں تبدیلی دکھائی دے رہی ہے۔ سائفر کیس کا فیصلہ آنے کے بعد اس بات کا کسی حد تک یقین آگیا ہے عدلیہ آزادانہ طور پر فیصلوں کی طرف گامزن ہے۔

جواب دیں

Back to top button