Columnمحمد مبشر انوار

پتھر کا دور

محمد مبشر انوار( ریاض)
مطلب براری کے لئے انفرادی و عالمی سطح پر کیسی کیسی چالیں چلی جاتی ہیں، کیسے کیسے خواب دکھائے جاتے ہیں اور کیسے کیسے سبز باغ دکھائے جاتے ہیں، اس کا اندازہ پاکستان میں رجیم چینج کے پس منظر میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے ۔ اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے لئے اور ایک ’’ آزاد ریاست‘‘ کو اپنے زیر دست رکھنے کے لئے، کس طرح عالمی طاقت نے سفارتی طریقے سے دبائو ڈالا اور کس طرح مقامی سہولت کاروں نے اس مقصد میں اپنا کردار ادا کیا، سب واضح ہو چکا ہے۔ بقول عمران خان کہ اولا سازش کی ابتداء امریکہ سے ہوئی جبکہ بعد ازاں عمران خان نے اپنا موقف بدلتے ہوئے کہا کہ اس سازش میں بنیادی کردار جنرل باجوہ نے ادا کیا اور امریکیوں کو قائل کرنے کے بعد، اس رجیم چینج کو امریکہ سے متحرک و فعال کیا تا کہ یوں محسوس ہو کہ اس کے تانے بانے امریکہ سے شروع ہوتے ہیں۔ بہرحال جو بھی ہوا، حقیقت یہی ہے کہ پاکستان میں جو حکومت یا سیاستدان اپنے قد سے اوپر اٹھنے کی کوشش کرتا ہے، اس کا انجام کسی بھی صورت اچھا نہیں رہا اور اس کی ٹانگیں کھینچنے میں صرف امریکہ خواہش کبھی کافی نہیں رہی تاوقتیکہ امریکہ کو مقامی سہولت کار میسر نہ رہے ہوں۔ ایسا کبھی بھی دیکھنے میں نہیں آیا کہ امریکہ کو مقامی سہولت کاروں کی فوج ظفر موج تقریبا بے دام میسر نہ رہی ہو کہ جو قیمت/بولی مقامی سہولت کار لگواتے ہیں وہ کبھی بھی ریاستی مفادات کے مقابلے میں خاطر خواہ نہیں رہی بلکہ انتہائی کم قیمت یا بے دام خدمات کے عوض ملک سے بے وفائی کے مرتکب رہتے ہیں۔ افسوس تو اس امر کا ہے کہ اپنی بولی لگواتے ہوئے یہ ناہنجار ( اصل لفظ لکھتے ہوئے پر جلتے ہیں کہ گھٹن کے اس ماحول میں سچ کہنا یا سچ لکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو چکا ہے) اپنے مادر وطن پر بداعتمادی کا مبینہ اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں او ر مادر وطن کی مشکلات میں اضافہ کا باعث ہی بنتے ہیں۔ ذاتی چند روزہ دنیاوی زندگی کی عیش و عشرت کی خاطر، ریاست کو بیچنے، لوٹنے کھسوٹنے میں ایک دوسرے پر فوقیت لے جانے میں مگن یہ ۔۔۔۔۔ اس وطن میں رہنے کے لئے بھی تیار نہیں اور اپنی لوٹ کھسوٹ کا مال اپنے آقائوں کے دیس میں لے جاتے ہیں، پاکستانی شہریوں کو زندہ درگور کر کے، ان کی زندگی اجیرن بنانے میں انہیں کوئی تامل نہیں رہتا۔ سائفر سے شروع ہونے والی کہانی کا انجام اس قدر دردناک ہو گا کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ یہاں تو ریت ہی مختلف رہی ہے کہ ایسے کسی مقدمہ میں ملوث شخص کو کب باعزت بری کیا جاتا تھا، یہاں تو ایک جھوٹے مقدمہ قتل میں منتخب وزیر اعظم کو عدالتی سماعت میں خامیوں کے باوجود پھانسی کے تختہ پر لٹکا کر قریبا پینتالیس سال بعد عدلیہ صرف اتنا کہہ پاتی ہے کہ مقدمہ کی سماعت قانون کے مطابق نہیں ہوئی، جبکہ اس وزیراعظم کا جرم امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر، ملکی مفادات و تحفظ کو یقینی بنانا تھا۔ بعینہ یہی جرم عمران خان سے ’’ قطعا نہیں‘‘ کہہ کر سرزد ہو چکا تھا اور امریکہ کسی بھی صورت اپنی باجگزار ریاست کا یہ رویہ قبول کرنے کو تیار نہیں تھا، سہولت کاروں نی امریکہ کی مشکل آسان کر دی اور عمران خان اور امریکہ کے درمیان، قومی مفادات کو تج کر، نفرت کو ہوا دی، سائفر آیا اور بھان متی کے کنبے نے اکٹھے ہوکر عمران خان کو مسند اقتدار سے الگ کر دیا۔ بعد ازاں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تجربہ کار اور ریاست سے وفاداری کا ڈھول پیٹنے والے کم از کم سائفر کی تحریر کے مطابق ہی ریاستی مفادات کا تحفظ کر پاتے، امریکی خواہش بجا لانے کے بعد، امریکی وعدے وعید کے مطابق معافی تلافی کرنے کے بعد، معاشی صورتحال پر کئے گئے وعدوں پر عمل درآمد کروا لیتے لیکن ہوا کیا؟ رجیم چینج کے بعد پاکستانی معیشت مسلسل تنزلی کا شکار ہے جبکہ اس کی رگوں میں دوڑنے والے قرضے، نہ صرف بڑھ رہے ہیں بلکہ ان کی شرح سود بھی دن بدن بڑھتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے، بالفرض یہ تصور کر لیا جائے کہ شرح سود میں اضافہ نہیں ہو رہا تب بھی، اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ سود کی رقم مبینہ طور پر اتنی بڑھ چکی ہے کہ آمدن کا بیشتر حصہ اس کی ادائیگی کی نذر ہو جاتا ہے۔ ان ادائیگیوں کے حصول کی خاطر، ریاست تقریبا روزانہ کی بنیاد پر، نت نئے ٹیکس لگا کر اپنی آمدن بڑھانے کی سعی کرتی ہے لیکن بدقسمتی دیکھئے کہ حکمرانوں کے اللے تللے اور غیر پیداواری اخراجات میں کہیں کوئی کمی دکھائی نہیں دیتی، جو اس حقیقت کا بدترین مظہر ہے کہ حکمرانوں کے نزدیک ریاست نام ہی لوٹ کھسوٹ کا ہے، اس کے مفادات ان کے خواہشات کی نذر ہوتے ہیں تو انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ حقائق حکمرانوں کی اس ریاست پر بد اعتمادی کا مظہر ہیں کہ انہیں اس ریاست میں رہنا ہی نہیں لہذا جتنا سمیٹا جا سکتا ہے، یہاں رہتے ہوئے سمیٹ لیا جائے کہ اس کی ادائیگی تو عام شہریوں نے کرنا ہے۔
معاشی ترقی کی حامل کسی بھی ریاست کے ڈھانچہ کو دیکھیں تو ایک فرق انتہائی واضح دکھائی دے گا کہ وہاں صنعت کو متحرک و فعال رکھنے کے لئے، پاور/بجلی کی بلا تعطل سہولت میسر ہے، صنعتی پہیہ چوبیس گھنٹے رواں دواں ہے اور عوام کو روزگار کے وافر مواقع دستیاب ہیں، شرح آمدن بھی اسی تناسب سے زیادہ ہے لہذا عوام خوشحال، مطمئن اور مسرور دکھائی دیتے ہیں۔ ہنر مندوں کے لئے اپنے ہنر کو آزمانے کے وسیع تر مواقع ہیں اور اس ہنر کو روزمرہ زندگی میں تبدیل کرنے کے لئے سرمایہ دار ہمہ وقت سرمایہ کاری کرنے کے لئے تیار دکھائی دیتے ہیں حتی کہ صورتحال یہ ہے کہ ایک دوڑ لگی ہوئی ہے کہ جو ہنر یا سہولت آج منڈی میں متعارف کروائی جاتی ہے، چند سال بعد، اس سے کہیں بہتر پراڈکٹ مارکیٹ میں اس کو تبدیل کرتی دکھائی دیتی ہے، اس کے باوجود سرمایہ کار اپنے لگے سرمایہ سے کئی گنا زیادہ منافع وصول کرکے نئی پراڈکٹ کا سامنا کرنے کے لئے تیار دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستانی ہنر مند ہیں کہ جن کے ہنر کی قدر نہیں کی جاتی اور نہ ہی انہیں سرکاری سطح پر وہ پذیرائی ملتی ہے کہ وہ اپنے ہنر کا زیادہ سے زیادہ مظاہرہ کر سکیں بلکہ انہیں مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ملک چھوڑ کر کہیں اور رہائش اختیار کر لیں کہ ان کے ذہن نارسا کے لئے پاکستان میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ بہرکیف حقیقت یہی ہے کہ پاکستان کو پٹڑی پر چڑھنے سے قبل ہی اتار دیا جاتا ہے کہ اسی میں عالمی طاقتوں کا مفاد چھپا ہے اور اس میں سہولت کاری ہمارے اپنے ہی، ذاتی مفادات کے تابع رہتے ہوئے، کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
پتھر کا دور اور کیا ہو سکتا ہے کہ دنیا بھر میں جس پاور /بجلی کو آج بنیادی ضرورت تسلیم کیا جاتا ہے، وہ پاکستان میں ایک آسائش سے بھی بڑھ کر ہو چکی ہے حالانکہ پاکستان وہ ملک ہے کہ جہاں سستی ترین بجلی پیدا کرنے بہترین ذرائع موجود ہیں لیکن کوتاہ نظر حکمرانوں نے ریاست پاکستان کے مفادات کو پس پشت ڈال کر ذاتی تجوریاں بھرنے کی خاطر ایسے نجی بجلی گھر متعارف کروا رکھے ہیں کہ جن کی بدولت آج پاکستانی شہریوں کا سانس لینا دوبھر ہو چکا ہے۔ مجال ہے کہ ریاستی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے، ان نجی بجلی گھروں کے ساتھ کئے گئے معاہدوں پر نظر ثانی کا سوچا بھی جائے کہ کون ایسے ذریعہ آمدن کو کھونے کا متحمل ہو گا کہ جہاں سے ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ چوکھا آ رہا ہو۔ بالعموم ریاستی ذرائع آمدن صنعت، زراعت، سروسز وغیرہ تصور ہوتے ہیں لیکن پاکستان جیسا ملک جہاں ان تمام وسائل سے خاطر خواہ آمدن حاصل کی جا سکتی تھی، کا ذریعہ آمدن عوام پر ٹیکسوں کے نفاذ پر منحصر ہے۔ اس کے لئے بھی تین چار چیزیں ایسی ہیں کہ جن کے بغیر عوام کا گزارا ہی ممکن نہیں، اور ان چیزوں پر ٹیکس لگا نے کا مطلب ہے کہ روزمرہ زندگی کی ہر چیز مہنگی ہو جائے، عوام یہ ظلم کب تک سہ پائے گی، اس کا کوئی اندازہ نہیں کہ ریاست ایسے کسی احتجاج کو بھی سختی سے کچلنے پر تیار دکھائی دیتی ہے۔ ریاست کب تک اور کہاں تک بجلی، گیس اور تیل کی قیمتیں بڑھا کر اپنا ذریعہ آمدن برقرار رکھے گی؟ بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے پر آزاد کشمیر میں جو کچھ ہوا، وہ آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہونا چاہئے تھا لیکن حکمران ان چیزوں سے فقط ڈنگ ٹپانا جانتے ہیں، حد تو یہ ہے کہ اس وقت عوام کی ہر ممکن کوشش یہی ہے کہ ان اشیاء کا کم سے کم استعمال کریں تا کہ بھاری بھرکم بلوں سے بچا جا سکے لیکن کب تک؟ معاہدے ہی ایسے ہیں کہ اگر بجلی استعمال نہ بھی کریں، تب بھی پیداواری قیمت ادا کرنا ہو گی۔ سابق صدر بش کے تاریخی الفاظ یاد آتے ہیں جو انہوں نے صدر مشرف کو افغانستان کے خلاف جنگ میں ساتھ نہ دینے پر کہے تھے کہ پاکستان کو ’’ پتھر کے دور‘‘ میں دھکیل دیا جائے گا، موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ خواہ جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا جاتا یا نہ دیا جاتا، امریکی خواہشات کے مطابق پاکستان کے نصیب میں ’’ پتھر کے دور‘‘ میں جانا ہی لکھا تھا، جب بجلی جیسی بنیادی ضرورت ہی میسر نہیں تو کیا آج یہ کسی پتھر کے دور سے کم ہے؟؟؟۔

جواب دیں

Back to top button