طلوع و غروب کا منظر

سیدہ عنبرین
پاکستان اور بھارت میں موسم ایک جیسا ہے اور سیاسی موسم بھی، ہم انتخابات سے قبل بویا کاٹ رہے ہیں جبکہ بھارت میں انتخابی نتائج سامنے آرہے ہیں، جس کے مطابق نریندر مودی کے سب خواب اسی طرح چکنا چور ہوئے ہیں جس طرح پاکستان میں جناب نواز شریف اور ان کے خاندان کے، جنہیں قومی امید تھی کہ ان کی رام کہانیاں اور ان پر ظلم کی فرضی داستا نیں سن سن کر انہیں دو تہائی اکثریت حاصل ہو جائیگی۔ یوں وہ بلا شرکت غیرے حکومت بنائیں گے۔ خود چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بنیں گے اور معاملات حکومت سیدھے کرنے کے بعد اپنی بیٹی کو اپنی زندگی میں وزیر اعظم پاکستان بنانے کا شوق پورا کر لیں گے۔ مودی نے بھی یہی سوچا تھا کہ وہ بھاری اکثریت حاصل کر لے گا اور پھر پانچ برس تک من مانیاں کرتا رہے گا۔
مودی نے اپنی انتخابی مہم میں اس مرتبہ ’’ چار سو پار‘‘ کا نعرہ دیا لیکن کانگریس اتحاد گلے کی ہڈی بن گیا۔ ان کی جماعت اور اس کا اتحاد اپنے ہدف سے بہت پیچھے رہ گئے، وہ حکومت تو بنا لیں گے لیکن ان کی حکومت بھی شاخ نازک پر آشیانہ بنانے کے مترادف ہوگی جس طرح پاکستان کی حکومت ہے۔
کانگریس اتحاد کے راہنما راہول گاندھی نی انتخابات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے انتخاب صرف بی جے پی اتحاد کے خلاف نہیں لڑا بلکہ یہ انتخاب بی جے پی، عدلیہ ،خفیہ ایجنسیوں اور مودی جماعتی کاروباری ٹولے کے خلاف تھا جس میں مخالفانہ کردار میں بکائو میڈیا شامل تھا۔ ان کے اس تبصرے سے یوں لگتا ہی جیسے وہ بنا نام لیے یہ بتا رہے ہوں کہ پاکستان میں انتخابات کیسے ہوئے۔ بھارتی انتخابات کے حوالے سے جسے سب سے زیادہ جگ ہنسائی کا سامنا ہے وہ ایگزیٹ پول اور یکطرفہ بھارتی میڈیا ہے، جو تواتر سے ہماری طرح اپنے عوام کو تصویر کا ایک ہی رخ دکھاتے رہے جو بظاہر بہت خوش کن تھا لیکن نتائج سامنے آنے پر نقاب ہٹا تو اندر سے ایک مختلف تصویر برآمد ہوئی۔ تمام تر سرمایہ اور انتخابی ہتھکنڈے استعمال کرنے کے بعد مثبت نتائج برآمد نہ ہو سکے۔ نتائج آنے پر سٹاک مارکیٹ کریش کر گئی، سرمایہ کاروں کے کئی ہزار ارب روپے ڈوب گئے۔ مودی کے سب سے بڑے حمایتی سرمایہ کار کے شیئرز کی قیمت میں انیس فیصد کی کمی واقع ہوئی، یوں وہ بھارت کے امیر ترین سرمایہ کاروں کی فہرست سے آئوٹ ہو گئے۔ ان کے ساتھ ساتھ کئی اور سرمایہ کاروں پر سیاسی غشی طاری ہے، ایگز یٹ پول کی مہارت کا پول بھی کھل گیا اور حقیقت آشکار ہوئی کہ جعلی جائزہ کمپنیاں کس طرح نتائج پر اثر انداز ہونے کیلئے کیا کچھ کرتی ہیں۔ آج کل ایسی ہی ایک کمپنی پاکستان میں اسی قسم کے اعدادوشمار کے ذریعے اہل پاکستان کو بیوقوف بنانے کے مشن پر ہے اور باور کرا رہی ہے کہ ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں، قوم کا ہر فرد اس قدر خوشحال ہوچکا ہے کہ شاید زکوٰۃ لینے والا ڈھونڈنے سے نہیں مل رہا۔ اشیائے صرف کی قیمت اتنی کم ہیں کہ لوگ انہیں تقریباً مفت ہی سمجھ کر ڈھیروں کے حساب سے خریداری کر رہے ہیں۔ بھارت میں انتخابات سے قبل بے داغ کردار کے حامل مخالفین کو بیہودہ الزامات کے تحت گرفتار لیا جاتا رہا۔ خفیہ ایجنسیاں انہیں اپنی ہمدردیاں تبدیل کرنے کیلئے آخری لمحے تک دبائو ڈالتی رہیں۔ اہم کردار ان ووٹرز کا رہا جنہوں نے کسی قسم کی سرگرمی میں حصہ لیے بغیر نہایت خاموشی سے پولنگ ڈے پر مودی کے خلاف کانگریس اتحاد کو ووٹ دیا یوں انہوں نے اپنی نفرت کا اظہار کیا۔
بی جے پی نے مذہبی جذبات کو آلہ کار بنانے کی بھر پور کوششیں کی اور اپنے جلسوں میں کہتے رہے کہ انہیں ’’ چار سو پار‘‘ کرایا جائے تاکہ وہ کشمیر میں 370کے قانون اور بابری مسجد کی جگہ رام مندر پر قبضے کو مضبوط کر سکیں۔ ان کی تمام تر شعلہ بیانیوں کے باوجود ان کی پارٹی کو ایودھیا میں شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا، جہاں انہوں نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کا افتتاح کیا ایک پر تعیش تقریب منعقدہ کی جس پر کروڑوں روپے خرچ کئے گئے لیکن ان کے پارٹی امیدوار کو ایودھیا میں 54ہزار ووٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ مسلمان ووٹرز کے ساتھ ساتھ مذاہب کا باہمی احترام رکھنے کی سوچ کے حامیوں، ہندوئوں اور سکھوں نے انہیں مسترد کر دیا۔
بی جے پی اتحاد کے مقابلے میں کانگریس اتحاد کو جو کامیابی ملی ہے اس کا تصور شاید انہوں نے خود بھی نہ کیا ہو۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح پاکستان میں پی ڈی ایم اتحاد کے سامنے ان کی مخالف جماعت کو فتح ملی ہے۔
کانگریس اتحاد کے اہم راہنما راہول گاندھی کے زمانہ اقتدار میں پاکستان کو دو لخت کیا گیا تھا وہ اپنی الیکشن مہم میں اترے تو انہوں نے مسلمان سٹائل کی داڑھی رکھی ہوئی تھی۔ گمان ہے کہ انہیں کانگریس کی محبت میں شاید اتنے ووٹ نہ ملے ہوں جیتنے بی جے پی اور مودی کی نفرت میں حاصل ہوئے ہیں۔ یہ رجحان پاکستان کے انتخابات میں بھی نمایاں تھا۔ پاکستانی عوام خوب جانتے تھے کہ اگر مسلم لیگ اور اس کے اتحاد کو کامیابی ملی تو وزیر اعظم پاکستان ، وزیر اعلیٰ پنجاب اور اس کے علاوہ درجن بھر وزراء کا تعلق رائے ونڈ خاندان سے ہوگا۔ کیونکہ پاکستان میں تمام اہم عہدے اس خاندان کے پاس ہو ں تو جمہوریت کے تمام تقاضے پورے ہوجاتے ہیں اور الیکشن صاف اور شفاف سمجھے جاتے ہیں۔ بصورت دیگر الیکشن دھاندلی زدہ ہوتے ہیں جنہیں قبول نہیں کیا جاتا اور اقتدار کسی دوسری جماعت کو جاتا دیکھ کر اس کے راہنمائوں کی کردار کشی کی مہم روز اول سے شروع ہوجاتی ہے۔ اس رجحان کے پیرو کار اب تقریباً ہر جماعت میں جگہ بنا چکے ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی ابھی اس زہر سے محفوظ ہیں۔
بھارت میں مودی اتحاد کی ناکامی کے پیچھے ان کی پالیسیاں تھیں جس کے باعث دولت چند مخصوص خاندانوں کے پاس گزشتہ دس برس سے جمع ہو رہی ہے جبکہ عام آدمی کی حالت زار بد سے بدتر ہو گئی ہے۔ بھارت کی کرنسی مضبوط ہوئی ہے، اس کی برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی ہوئی ہے لیکن بھارت میں بسنے والے عام آدمی کے نصیب میں کچھ نہیں۔ پاکستان کی طرح بھارت میں بھی کاروباری طبقہ خوشحال ہے۔ متوسط اور تنخواہ دار طبقے کی عمر دال روٹی پوری کرتے کرتے گزر جاتی ہے جبکہ غریب آدمی طبقہ سسک سسک کر زندگی کے دن پورے کرتا ہے۔ بنئیے کی پالیسی تو ہمیشہ سے یہی رہی ہے، ہم نے عرصہ دراز تک ان کے ساتھ رہ کر اپنی اچھی باتیں بھلا کر ان کی استحصالی سوچ کر اپنا لیا ہے۔ دونوں ملکوں میں لفظوں کے تھوڑے سے ہیر پھیر سے قوم کی تقدیر بدلنے کا جھانسا دیا جاتاہے۔ انتخابی ٹرم پوری ہونے کے بعد پرانا رونا دھونا نئے میوزک اور نئے راگ سے شروع کیا جاتا ہے۔ جس میں زور اس بات پر دیا جاتا ہے کہ ایک باری اور پھر اس کے بعد ایک باری اور پھر اور، اور سیاسی اشرافیہ کی باریاں لیتے لیتے ہوس اقتدار اور ہوس زر ختم نہیں ہوتی، عام آدمی کی زندگی ختم ہو جاتی ہے۔ مودی اور اس کی جماعت کا سورج طلوع ہو رہا ہے، پاکستان میں مسلم لیگی اتحادی حکومت غروب ہوتی نظر آتی ہے۔ بجٹ کے بعد دو اہم مقدمات کے فیصلے سب کچھ بدل سکتے ہیں۔ طلوع و غروب کا منظر دونوں ہی دل فریب ہوتے ہیں۔





