درخت لگائیں، ماحول کو آلودگی سے بچائیں

ایم فاروق قمر
درخت ہماری زمین اور اس کے ماحول کی بقا ء کی علامت و ضمانت ہیں۔ یہ اللہ عزوجل کا ماحول دوست عطیہ ہیں۔ درخت، فطرت اور دنیاوی تغیرات کی تلخیوں اور موسمی سختیوں میں اعتدال کا موجب بنتے ہیں۔ ماحول کو خوشگوار یا کم از کم قابلِ برداشت بنا کر آب و ہوا میں توازن بنائے رکھتے ہیں۔ پہاڑوں ، میدانوں کی دلکشی اور خوبصورتی کا سبب ہیں۔ ترقی کی خوفناک رفتار نے زمین کو بہت سے خطرات سے بھی دوچار کر دیا ہے۔ تیز رفتار ترقی فضائی آلودگی، گرین ہائوس ایفیکٹ اور گلوبل وارمنگ کا موجب بن رہی ہے جس سے جانداروں کی زندگی دو بھر ہو چکی ہے۔ آلودگی نے ہماری دھرتی کو ہر لحاظ سے داغدار کر دیا ہے۔ ترقی اور آلودگی لازم و ملزوم ہیں لہٰذا ترقی سے انکار ممکن نہیں ہے مگر دنیا کے سب سے بڑے مسئلے یعنی ماحولیاتی آلودگی کا سب سے بڑا حل درختوں ، پودوں کی کثرت سے موجودگی ہے۔ کیونکہ درخت ہر قسم کی آلودگی کی ڈھال ہیں۔
درخت کسی بھی علاقے کے لیے پھیپھڑوں کا کام کرتے ہیں جو ہوا کی صفائی اور انسانوں کو زندگی سے بھرپور ترو تازہ فضا فراہم کرتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں ان پھیپھڑوں کے اجسام یعنی جنگلات رفتہ رفتہ تنزلی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
درخت بارش کے پانی کو جذب اور ذخیرہ کرتے ہیں، جس سے زمین کے نیچے صاف پانی کو ذخیرہ کرنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ ندیوں میں کیمیکلز کی نقل و حمل اور سیلاب کو روکتے ہیں۔ درخت سے گرے ہوئے پتے بہترین کھاد بناتے ہیں جو مٹی کو افزودہ کرتے ہیں۔ درختوں نے انسانی وجود کی ابتدا سے لے کر اب تک اسے سہارا دیا ہوا ہے۔
ایک درخت کئی انسانوں کو آکسیجن فراہم کرتا ہے۔ دس بڑے درخت ایک ایئر کنڈیشنر کے مساوی ٹھنڈک پیدا کرتے ہیں۔ فضائی آلودگی کو حیرت انگیز طور پر زائل کر کے صاف ماحول فراہم کرتے ہیں ۔ مضر صحت گیسوں کو جذب کرتے ہیں ۔ شور کی آلودگی کی عفریت و اذیت کو بھی درخت کم کرتے ہیں۔ آندھیوں کی شدت درختوں کے موجب کنٹرول میں رہتی ہے۔ تالابوں اور جوہڑوں کے کناروں پہ لگے درخت گندے پانی کے اثرات و بدبو کم کرتے ہیں اور ان کے پتے ماحول کو صاف ہوا مہیا کرتے ہیں۔ سخت گرمیوں میں خود دھوپ برداشت کرتے ہیں جبکہ انسانوں کو چھائوں کی نعمت فراہم کرتے ہیں۔ کچھ درخت سیم و تھور والی زمین کو قابلِ کاشت بناتے ہیں تو کچھ چارے کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں
گرمیوں میں یہ درخت ہمارے راستوں میں سایہ اور ٹھنڈک فراہم کرتے ہیں۔ ہم ہر موسم میں درختوں سے طرح طرح کے پھل حاصل کر سکتے ہیں مثلاً آم، سیب، کیلے، جامن، کینو وغیرہ۔ بعض پھل ایسے ہوتے ہیں جو کئی مہینے محفوظ رکھ کر کھائے جاتے ہیں، جیسے کہ بادام، اخروٹ وغیرہ۔
درختوں کے تنوں سے لکڑی حاصل کر کے اس سے مختلف قسم کا فرنیچر بنایا جاتا ہی۔ جس میں میز، کرسیاں، صوفے، بستر، الماریاں وغیرہ شامل ہیں۔ پھر کچھ مخصوص درختوں کی لکڑیوں پر خوبصورت نقش و نگار بنا کر ان کو فرنیچر کے طور پر استعمال کرنے کے علاوہ بیرون ملک برآمد بھی کیا جاتا ہے۔ جس سے ملک کو زرِ مبادلہ ملتا ہے۔
یعنی ایندھن، سایہ، لکڑی،پھل اور سرمایہ سب کچھ تو درختوں سے حاصل ہوتا ہے۔
درخت نہ صرف سلابوں سے تحفظ فراہم کرتے ہیں، یہ قحط اور خشک سالی سے بھی بچاتے ہیں، یہ اپنی جڑوں میں جذب شدہ پانی کو ہوا میں خارج کرتے ہیں اور بادلوں کی تشکیل میں بھی مدد کا باعث بنتے ہیں۔
اسی طرح سفیدہ اگرچہ وافر پانی صرف کرنے کی وجہ سے اچھا نہیں سمجھا جاتا مگر پھر بھی نہایت کار آمد درخت ہے۔ اسے کھیتوں کی بجائے سڑکوں، بازاروں، گلیوں اور سیوریج سسٹم کے قریب لگانے سے فاضل اور گندہ پانی استعمال کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ چوبیس گھنٹوں میں پچاس لٹر سے زائد پانی استعمال کرتا ہے اور چھ ماہ بعد کٹائی سے ایندھن بھی لیا جاسکتا ہے۔ پرانے دیو قامت درخت تو اب کم کم ہی دِکھتے ہیں۔ ان پہ مختلف النوع پرندوں کا بسیرا ہوتا ہے اور ایسے درختوں کا خاتمہ ماحول کے ساتھ ساتھ دیگر جانداروں کے لئے بھی نا قابلِ تلافی نقصان ہے۔
بقول پروین شاکر:
اس بار جو ایندھن کے لئے کٹ کے گرا ہے
چڑیوں کو بڑا پیار تھا اس بوڑھے شجر سے
کسی ملک کے پچیس فیصد رقبے پہ جنگلات ہونا ضروری ہیں لیکن بد قسمتی کہ وطنِ عزیز میں یہ شرح صرف چار فیصد ہے اور اسے بھی وطن کے باسی اور ٹمبر مافیا ہڑپ کیے جارہے ہیں۔ لوگ نئے درخت لگانے کی بجائے پہلے والوں کے پیچھے پڑے ہیں حتیٰ کہ عوام اپنی سماجی و مذہبی تقریبات و ضیافتوں کے لئے چوری اوپر سے سینہ زوری کے مصداق،انہی پیڑوں کا قتل ِعام کئے جارہے ہیں۔ سڑکوں اور عمارتوں کی تعمیر میں بے شمار قیمتی درخت اکھاڑے جارہے ہیں۔ اسی المیے کا رونا مجید امجد نے اپنی نظم ’’ توسیع ِشہر‘‘ میں رویا تھا ۔ ہماری آبادی اس رفتار سے بڑھ رہی ہے کہ لوگوں کو اپنے سوا اور کسی چیز یا قدرتی وسائل بڑھانے میں دلچسپی نہیں۔ انہیں صرف حاصل کرنا اور فائدہ اٹھانا آتا ہے۔ اگر ہر پاکستانی اپنے حساب سے اپنے گھر، گلی، محلے، ادارے اور کھیتوں کو گرین بیلٹ بنانے کا ارادہ کر لے تو یہ دیس جنت بن جائے گا۔ ان گنت ماحولیاتی و اقتصادی مسائل کا مداوا ہوگا۔ ووٹ، سیاست، سماج اور کاروبار کو بہت عزت دے لی۔ آئیے اب درختوں کو عزت دے کر دیکھتے ہیں اور ان کی قدر کرتے ہیں۔
درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے
میرے کریم آقاؐ نے فرمایا: ’’ درخت لگانا ایسی نیکی ہے جو بندے کی موت کے بعد بھی جاری رہتی ہے جب کہ وہ اپنی قبر میں ہوتا ہے‘‘۔
اسی طرح میرے کریم آقاؐ نے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: ’’ اگر کوئی مسلمان کسی درخت کا پودا لگاتا ہے تو اس درخت سے کوئی انسان یا جانور کھاتا ہے تو لگانے والے کے لیے بھی وہ صدقہ ہے‘‘۔ ( صحیح بخاری: 60 12)
آئیے ہم سب شجر کشُی کی بجائے شجر کشَی کا عہد کریں کیونکہ یہ عمل معاشرتی و ماحولیاتی افادیت کے ساتھ ساتھ باعثِ اجر و ثواب بھی ہے
ہمیں چاہیے کہ اپنے ان دوستوں کی تعداد میں خوب اضافہ کریں، تا کہ ماحولیاتی آلودگی اور گرمی میں کمی لائی جا سکے۔ آئیں ہم سب اپنے حصے کا ایک ایک درخت لگائیں اور اجر و ثواب کمائیں۔





