Column

بھارت میں مخلوط حکومت کا دور واپس

محمد ناصر شریف

بھارت کے 73سالہ انتخابی سفر میں 32برسوں تک مخلوط حکومتیں دیکھی گئی ہیں اور 10برس کے بعد مخلوط حکومت کا دور پھر سے واپس آگیا ہے۔ بھارت کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے اپنی مخلوط حکومت کے دور میں ’’ مخلوط دھرم’’ کی ایک اصطلاح ایجاد کی تھی اور اب ان کے سیاسی وارث نریندر مودی کو اسی مخلوط دھرم کے اصول پر عمل کرنا ہو گا۔
سال 2014سے قبل تک بھارتی عوام تقریباً تین دہائیوں تک ایک جماعت کی اکثریت کے بجائے بکھرا ہوا مینڈیٹ فراہم کرتی رہی تھی، جس کی وجہ سے مخلوط حکومت ایک معمول کی روایت رہی۔ 80، 90اور رواں صدی کی پہلی دہائی میں کسی بھی پارٹی کو لوک سبھا میں اکثریت نہیں ملی۔ تاہم 2014میں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کو واضح اکثریت ملی اور نریندر مودی مخلوط حکومت کا خاتمہ کرتے ہوئے دہلی کے تخت پر براجمان ہوئے۔ 2019میں بھی بی جے پی کو 303سیٹیں حاصل ہوئیں اور حکومت سازی کیلئے بی جے پی کو اپنے اتحادیوں کا محتاج ہونا نہیں پڑا۔ نیشنل ڈیموکریٹک الائنس ( این ڈی اے) مودی حکومت کا حصہ رہی تاہم بی جے پی کو اس دوران اپنے شراکت داروں کو مطمئن کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ بھارت میں 1951میں ہونے والے پہلے انتخابات کے بعد سے 73 برس کے انتخابی دور میں تقریباً 32سال مخلوط حکومت رہی ہے اور اقتدار کے 31سالوں میں واضح اکثریت والی حکومتیں رہی ہیں۔ اس میں وزیر اعظم نریندر مودی کے بھی 10برس بھی شامل ہیں۔ دیکھا جائے تو عام انتخابات میں مودی جیت کر بھی ہار گئے، بھارتی انتخابات میں مودی کی نفرت اور انتہا پسندی کی سیاست دم توڑنے لگی، لوک سبھا میں 400پار (400سے زائد نشستیں لینے) کا نعرہ حسرت بن گیا، 300بھی پار نہیں ہوسکے اور انتخابات میں مودی کے بیانیے کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ انتخابات سی قبل اور نتائج کے اعلان تک مودی اور اس کی انتہا پسند جماعت بی جے پی نے مخالف جماعتوں کو دبانے کیلئے ہر منفی حربہ استعمال کیا۔ انتہاپسندی اور مسلمان دشمنی پر مبنی بیانیے اور الیکشن سے قبل اپوزیشن کیخلاف استعمال کئے جانے والے ہتھکنڈوں کے باوجود فاشسٹ مودی اپنے دعووں کو ثابت کرنے میں ناکام رہا، جن رہنماؤں سے مودی سرکار کو شدید خطرہ تھا ان کو جھوٹے مقدمات میں الجھا کر گرفتار کرایا۔ اس حوالے سے اروند کیجریوال کی مثال سب کے سامنے ہے۔ انتخابات سے قبل مودی سرکار کی جانب سے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ اور سی بی آئی کی جانب سے اپوزیشن جماعتوں کے رہنمائوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے اور سوشل میڈیا پر مودی کو بھارت کا مسیحا دکھایا گیا۔
انتخابات کے نتائج آنے والے دنوں میں بھارت میں بڑی تبدیلی کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو نریندر مودی ایک بار پھر اتحادیوں کے ساتھ ملکر تیسری بار حکومت بنائیں گے اور بھارتی وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔ مودی آنجہانی جواہر لال نہرو کے بعد یہ اعزاز حاصل کرنے والے دوسرے رہنما بن جائیں گے لیکن مخلوط حکومت آنے کی وجہ سے ان کو پہلے جیسی آزادی حاصل نہیں ہوگی۔ بھارتی الیکشن کمیشن کے مطابق حکمراں جماعت بی جے پی 295نشستوں پر کامیاب ہوگئی، اپوزیشن جماعت کانگریس کی زیر قیادت اتحاد ’’ انڈیا ’’ نے 230نشستیں جیت لی ہیں جبکہ 17نشستیں دیگر جماعتوں کے نام رہی ہیں۔
مودی کے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر بھی کام نہ آئی اور بی جے پی کو ایودھیا میں شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ فیض آباد کے حلقے سے بی جے پی کے سینئر للو سنگھ کو سماج وادی پارٹی کے اودھیش پرساد نے 56ہزار ووٹوں سے شکست دی۔ بی جے پی رہنما اور مودی کابینہ کے اہم وزیر سمرتی ایرانی کو امیٹھی میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ گزشتہ انتخابات میں کانگریس رہنما راہول گاندھی کو ہرانے والی سمرتی ایرانی کو کانگریس کے امیدوار کشوری لعل شرما نے 3لاکھ 72ہزار ووٹوں سے شکست دی۔ حیدرآباد دکن میں مسلمانوں کیخلاف زہر اگلنے والی اور انتخابی مہم کے دوران مسجد کی طرف علامتی تیر چلانے والی مادھوری لٹھا کو اسد الدین اویسی نے 3لاکھ 30ہزار سے زائد ووٹوں کے بھاری مارجن سے شکست دے دی۔ یو پی کی 43نشستوں پر اپوزیشن اتحاد کامیاب رہا ، حکمران اتحاد نے 36نشستیں حاصل کیں۔
فوربز اور بلومبرگ کے مطابق مودی کے سیاسی اتحاد کی واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکامی نے ہندوستانی اسٹاک مارکیٹ اور ٹائیکونز کے کھربوں ڈبو دیئے ۔گوتم اڈانی کو 69کھرب 64ارب روپے کا نقصان، ایک دن میں دولت میں سب سے بڑی کمی ہوئی، مکیش امبانی کو 7کھرب ، جندال خاندان کو 5کھرب ، کمار منگلم کو دو کھرب سے زیادہ کا نقصان ہوا۔
راہول گاندھی نے کہا کہ ہم نے یہ الیکشن صرف بی جے پی نہیں بلکہ پوری ریاستی مشینری کے خلاف لڑا۔ خفیہ ایجنسیاں، بیوروکریسی اور آدھی عدلیہ بھی ہمارے خلاف تھی۔ بی جے پی نے پارٹیاں توڑیں، وزرائے اعلیٰ کو جیلوں میں ڈالا اور ہر ہتھکنڈا استعمال کیا لیکن کانگریس رہنماؤں نے متحد ہوکر حکومت کیخلاف انتخاب لڑا۔ آزادی کے بعد بھارت کا پہلا لوک سبھا الیکشن 489سیٹوں کیلئے 1951۔52میں چار ماہ کے دوران منعقد ہوئے۔ انڈین نیشنل کانگریس نے 364سیٹیں جیت کر جواہر لعل نہرو کی وزارت عظمیٰ میں حکومت بنائی۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا 16 سیٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔ ایک روپے کے کرنسی نوٹ کے سائز کے بیلٹ پیپرز استعمال کئے گئے۔ دوسرے عام انتخابات 1957میں ہوئے، جس میں لوک سبھا کی 494نشستوں میں وزیر اعظم نہرو کی قیادت میں کانگریس 371 سیٹیں جیت کر اکثریت کے ساتھ اقتدار میں واپس آئی۔ کمیونسٹ پارٹی 27سیٹوں کے ساتھ رنر اپ بنی۔ تیسرے عام انتخابات 1962میں ہوئے۔ وزیر اعظم نہرو کی قیادت میں کانگریس 494میں سے 361سیٹوں کے ساتھ دوبارہ اقتدار میں آئی۔ ایوان میں دوسری بڑی پارٹی 29سیٹوں کے ساتھ سی پی آئی تھی۔ چوتھے عام انتخابات1967میں ہوئے۔
1961 کی مردم شماری کی بنیاد پر چوتھا لوک سبھا الیکشن520سیٹوں کیلئے ہوا۔ کانگریس283سیٹیں جیت کر چوتھی بار اقتدار میں آئی ہے۔ کانگریس پہلی بار 300کے نشان سے نیچے تھی۔ 1964میں وزیر اعظم نہرو اور 1966میں آنے والے وزیر اعظم لال بہادر شاستری کی موت کے بعد، اندرا گاندھی اس جیت کے ساتھ وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہوئیں۔ سی راجگو پالاچاری کی سواتنتر پارٹی 44سیٹوں کے ساتھ لوک سبھا میں سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی بن کر ابھری۔ پانچویں عام انتخابات 1971میں ہوئے۔ اندرا گاندھی 1971کے انتخابات میں دوبارہ اقتدار میں آئیں۔ پارٹی نے 350کا ہندسہ عبور کیا اور 518لوک سبھا سیٹوں میں سے 352پر کامیابی حاصل کی۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) 25سیٹوں کے ساتھ ایوان میں دوسری سب سے بڑی پارٹی تھی۔ چھٹے عام انتخابات 1977میں ہوئے۔1971 کی مردم شماری کی بنیاد پر حلقوں کی حد بندی کے بعد، لوک سبھا انتخابات 543سیٹوں کیلئے ہوئے۔ جنتا پارٹی ( باضابطہ طور پر بھارتیہ لوک دل)298 سیٹوں کے ساتھ واحد سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ یہ پہلا موقع تھا جب کانگریس قومی الیکشن ہاری ہے۔ مرار جی ڈیسائی نے 24مارچ 1977کو نئے وزیر اعظم کے طور پر حلف لیا۔ اپوزیشن میں کانگریس کی 154سیٹیں رہیں۔ ساتویں عام انتخابات 1980میں ہوئے۔ اندرا گاندھی کی قیادت والی کانگریس 529میں سے 353سیٹیں جیت کر اقتدار میں واپس آئی۔ ایوان میں اگلی سب سے بڑی پارٹی جنتا پارٹی ( سیکولر)41 سیٹوں کے ساتھ تھی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ موسم سرما میں انتخابات منعقد ہوئے۔ آٹھویں عام انتخابات 1984میں ہوئے۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ہمدردی کے ملک گیر سونامی پر سوار راجیو گاندھی کی قیادت والی کانگریس نے 514میں سے 404سیٹیں جیت لیں۔ یہ پہلا اور واحد موقع ہے جب کسی سیاسی پارٹی کو لوک سبھا میں 400سے زیادہ سیٹیں ملیں۔

جواب دیں

Back to top button