ماحولیاتی آلودگی ذمہ دار کون؟

مظہر کریم ملک
پاکستان سمیت دنیا بھر میں پانچ جون کو عالمی یو م تحفظ ماحولیات (World Environment Day)منایا گیا۔ 50 سال قبل 1972ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 5جون کو ’’ یوم ماحولیات‘‘ قرار دیا اور 1974ء میں پہلی بار اس دن کو عالمی سطح پر منانے کا آغاز ہوا۔ عالمی یوم ماحولیات ہر سال Only One Earth( صرف ایک زمین) کے عنوان سے منایا جاتا ہے جس کا مقصد دنیا کو ماحولیات کی اہمیت اور ماحولیات کو لاحق خطرات سے آگاہی فراہم کرنا ہے۔ ماحولیات کے حوالے سے صرف ایک دن مختص ہونا، اخبارات اور ٹی وی چینلز پر اشتہارات نشر کرنا، سیمینار منعقد کرنا، سرکاری افسران کا تقریریں کرکے ماحولیات کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور اگلے دن اسے بھول جانا مناسب حکمت عملی نہیں بلکہ ماحولیات کے حوالے سے موثر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔
تقریبا دنیا کے 80فیصد سائنسدان اور ماہر ماحولیات ان بات پر متفق ہیں کہ ماحولیاتی آلودگی کے اضافہ کا سبب ہم سب ہیں جبکہ بعض اسی قدرت کا نظام کہتے ہیں ، گزشتہ چند سالوں سے بدقسمتی سے پاکستان کا شمار دنیا کے آلودہ ترین ممالک میں ہوتا ہے لاہور میں سموگ سے کئی بیماریوں نے جنم لیا اور اس کے کنٹرول کے لیے حکومت کافی متحرک نظر آئی اور اس سلسلہ میں سابقہ دور میں ایک ارب درخت لگانے کا پروگرام بھی شروع کیا گیا اور اس کی تکمیل کا دعوی بھی کیا جاتا ہے لیکن ایشیاء کا سب سے بڑا جنگل چھانگا مانگا کا پھیلائو آئے روز کم ہوتا نظر آرہا ہے جس میں آئے روز شجر کاری کے نام پر حکومتی فنڈ خرچ کر دیا جاتا ہے ملک میں گزشتہ کئی دہائیوں سے جنگلات کی کٹائی، زرعی زمین کی جگہ ہائوسنگ سوسائٹیوں کے قیام اور پٹرولیم مصنوعات کے بے دریغ استعمال، بڑے شہروں میں گاڑیوں کی تعداد میں ہوشربا اضافہ اور ان سے نکلنے والا دھواں ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کر رہا ہے ۔ یو این ڈی پی کے مطابق پاکستان میں سالانہ تقریبا 20ملین ٹن فضلہ جمع ہوتا ہے جس میں سے 5سے 10فیصد پلاسٹک کا کچرا شامل ہے۔
جب ہم استعمال شدہ پلاسٹک کو پھینک دیتے ہیں یا اس کو جلادیتے ہیں تو انسانی صحت اور حیاتیاتی تنوع کو اس سے شدید نقصان پہنچتا ہے اس عمل کا اثر پہاڑوں کی چوٹیوں سے لے کر سمندر کی گہرائی تک پڑتا ہے اور ماحولیاتی نظام مکمل طور پر آلود ہوجاتا ہے۔ پلاسٹک سمندری گندگی کا سب سے بڑا مستقل حصہ ہے جو سمندری فضلہ کا کم از کم 85فیصد بنتا ہے۔ موجودہ صدی میں گلوبل وارمنگ میں بھی تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے انسانی صحت کو گلوبل وارمنگ کے نقصانات سے بچانے کے لئے اسے 1.5ڈگری سینٹی گریڈ سے نیچے رکھنا ضروری ہے جس کے لیے سن 2030 تک سالانہ گرین ہائوس گیسوں کے اخراج کو آدھا کرنا ہوگا اگر بروقت حفاظتی اقدامات نہ کئے گئے تو فضائی آلودگی ایک دہائی کے اندر 50فیصد تک بڑھ جائے گی اور آبی ماحولیاتی نظاموں میں بہنے والا پلاسٹک کا فضلہ تقریباً تین گنا بڑھ جائے گا۔ پلاسٹک بیگز پر پابند ی کے اعلان کے باوجود چند بڑے شہروں کے بڑے شاپنگ مالز کے علاوہ ملک بھر میں کہیں اس پر عملدرآمد نظر نہیں آتا، بعض شہروں میں تو یہ تک معلوم نہیں کہ ان پلاسٹک بیگز پر پابند ی ہے ۔
افریقہ کے سب صحرا ممالک میں خشک سال کی وجہ سے کروڑوں لوگ شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ خشک سالی نے بارہ سے زائد ممالک میں قحط کی صورت حال پیدا کر دی ہے۔ اس آفت کی وجہ سے بچوں کی اموات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان نمائندوں نے عالمی برداری سے اپیل کی کہ اس جانب توجہ دے۔ تحقیق کے مطابق کرہ اراض کے درجہ حرارت میں 1.3ڈگری کا اضافہ ہو چکا ہے اور2050تک اس میں 3ڈگری تک اضافہ ہو سکتا ہے جس سے گلو بل وارمنگ اور سمندروں کی سطح میں مزید اضافہ ہو گا۔ ہیٹ وے نے شہریوں کو شدید ہراساں کیا ہوا ہے ۔
FNFاس سلسلہ میں مختلف ورکشاپس اور ماحول دوست آگاہی مہم کے ذریعے ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ اس پلیٹ فارم سے باقاعدگی سے سوشل ورکرز ، صحافیوں اور وکلا ، سول سوسائٹی، طلبہ کو تربیت دی جاتی ہے ۔
سچ تو یہ ہے کہ ہماری زمین کا قدرتی نظام ہے اور ہم اس نظام میں اپنی ترقی ، خواہشات کے حصول کے لیے بگاڑ پیدا کرتے ہیں جیسے پہلے ایک سال میں ایک یا دو فصل تیار ہوتی تھیں ہم مختلف کھادوں، کیمیکلز سے یہی زمین چار یا پانچ فصل تیار کرتی ہے یہ مضر صحت کیمیکلز بعد میں زیر زمین پانی میں شامل ہوتا ہے اور یوں نہ صرف آبی حیات بلکہ انسانوں کے لیے بھی یہ مضر صحت ہے، پاکستان میں موجود زیادہ تر انڈسٹری میں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ نہیں لگایا جاتا کیونکہ اس میں ایک بڑی رقم خرچ ہوتی ہے علیحدہ سے سٹاف رکھنا پڑتا ہے پھر اس کی ٹریٹمنٹ کے لیے جو سامان آنا ہے اس پر بھی خرچ آتا ہے تو صنعتکاروں نے اس کا آسان حل براہ راست کھیتوں ، نالوں ، نہروں ، دریائوں میں بہا دیا جاتا ہے جس کے باعث پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کافی نمایاں دکھائی دے رہے ہیں، جو موسموں میں یک لخت اور غیر یقینی تبدیلیوں کا سبب بن رہے ہیں۔ پاکستان کا شمالی علاقہ پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے جہاں دنیا کے بڑے گلیشئرز ہیں اور درجہ حرارت میں اضافے کے باعث یہ گلیشئرز پگھل رہے ہیں جس کے باعث ان کے رقبے میں 2کلومیٹر کی کمی ہوچکی ہے۔ سائنسدانوں کو تشویش ہے کہ انسانوں کے ہاتھوں کی جانے والی اس برق رفتار تبدیلی سے مستقبل میں زمین کے موسم پر شدید اثرات مرتب ہوں گے لہٰذا ہمیں ماحولیاتی تبدیلیوں کے مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا جس کیلئے غیر معیاری ایندھن کا استعمال، زیادہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں اور فیکٹریوں سے گیسوں کے اخراج کی روک تھام کو یقینی بنانا ہوگا۔ اسی طرح جس مقام پر کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے پلانٹ نصب کئے جائیں، وہاں یہ پابندی عائد کی جائے کہ پلانٹ کے اطراف بڑی تعداد میں شجرکاری کو یقینی بنایا جائے گا تاکہ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر سکیں۔ اس کے علاوہ آٹو موبائل انڈسٹری کی پالیسی میں بھی ترمیم کرنا ہوگی اور الیکٹرک گاڑیاں بنانے اور امپورٹ کرنے والی کمپنیوں کو سہولتیں اور مراعات دینا ہوں گی۔
درجہ حرارت میں حیران کن اضافہ ہورہا ہے اگر یہی صورتحال رہی تو آئندہ چند سالوں میں پاکستان کے چند شہروں کا درجہ حرارت 50سینٹی گریڈ سے تجاوز کرنے کا خدشہ ہے
زمین اللہ تعالیٰ کا قیمتی تحفہ ہے، ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنی آنے والی نسلوں کو صاف اور سرسبز ماحول فراہم کریں۔ یوم ماحولیات منانے کا بنیادی مقصد لوگوں میں ماحولیات کے بارے میں شعور اور آگاہی پیدا کرنا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہر دن ماحولیات کے تحفظ کا دن ہے اور یہ سلسلہ سال بھر جاری رہنا چاہئے۔ یوم ماحولیات ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ہم اس طرح کی پالیسیاں بنائیں جس سے صاف، سرسبز اور پائیدار فطری زندگی ہم آہنگی کے ساتھ گزار سکیں اور اپنی زمین کا تحفظ یقینی بنا سکیں جس کیلئے ہمیں ماحول دوست پالیسیاں اپنانا ہوں گی۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنا ہے تو نا صرف جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور پانی کے ضیاع کو روکنا ہو گا بلکہ پلاسٹک سمیت آلودگی پھیلانے والے دیگر ذرائع کا تدارک بھی کرنا ہو گا۔ اس سلسلہ میں پاکستان میں مختلف قوانین تو بنائے گئے ہیں لیکن ان پر صحیح معنوں پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا ، ا گر اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور نہ کیا گیا تو شاید قدرت دوبارہ غور کرنے کا موقع نہ دے۔





