CM RizwanColumn

سائفر کیس بریت، سی پیک

تحریر : سی ایم رضوان
ہمیشہ سے ہی پاکستان میں اصل معاملہ اداروں سے اوپر کا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات ان اداروں کو ایک دوسرے کو جل دے کر یا دھوبی پٹکا لگا کر اصل عالمی آقا کی سپر میسی ثابت کرنے کا حکم مل جاتا ہے جسے پورا کرنا ہماری سب کی پرانی عادت بھی ہے اور قدیمی روایت بھی۔ اس کی دلیل ایک منظر سے ملاحظہ فرمائیں۔
کیمرہ، ایکش، لائث سین شروع۔ امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے پی ٹی آئی کے بانی اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے سائفر کیس میں بری کئے جانے کے تازہ فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے پاکستان کا داخلی معاملہ قرار دیا اور کہا ہے کہ ’’ عمران خان کے خلاف الزامات کا فیصلہ پاکستان کی عدالتیں اپنے قوانین کے تحت کریں گی‘‘۔ یہ منظر امریکہ کا ہے جس میں پیر کے روز واشنگٹن میں سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی معمول کی بریفنگ کے دوران کسی صحافی نے اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے سائفر کیس میں زیریں عدالت کی سنائی ہوئی سزا کا فیصلہ کالعدم کرنے کے فیصلہ کے متعلق دریافت کیا تو سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان میتھیو ملر کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی سے متعلق سوالات کا کئی بار جواب دے چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم مختلف ممالک سے متعلق فیصلے کے لئے مناسب حالات اور سیاق و سباق کو مدنظر رکھتے ہیں۔۔۔۔ یعنی یہ امریکہ والے پاکستان کے معاملے میں ایک وقت میں اپنے ہی خلاف رجیم چینج کا الزام بھی سنتے ہیں اور دوسرے وقت میں الزام لگانے والے کے حق میں اپنی لابی کو بھی سرگرم رکھ کر پاکستانی عدلیہ کی لوکل اسٹیبلشمنٹ کی منشا کے خلاف فیصلہ دینے کی طاقت پر تبصرہ بھی نہیں کرتے اور بظاہر یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہمارا کیا لینا دینا اس کام سے۔ بہرحال میتھیو ملر کی بجائے پی ٹی آئی کے ہمدرد اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے اس فیصلے کو پی ٹی آئی کے لئے اہم قانونی فتح قرار دے رہے ہیں جبکہ حکومت کے بعض افراد نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کو چیلنج کرنے کا عندیہ دیا ہے جو کہ وہ کبھی نہیں کریں گے۔
البتہ ہم تو یہ کہیں گے کہ شہباز شریف کے موجودہ دورہِ چین کے نتائج ثابت کریں گے کہ چین آئندہ سپر پاور بننے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں۔ یار لوگ ہم سے اس دور کی کوڑی لانے کی تفصیل مانگیں گے تو ہم ضرور یہ عرض کریں گے کہ یہ ٹھیک ہے کہ ایک طرف تو پاکستان میں سرگرم امریکی لابی کی کوششوں سے بانی پی ٹی آئی کو ریلیف مل رہا ہے مگر اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ کل کلاں کو اقتدار بھی اسے مل جائے گا اور اگر ایسا ہی مان لیا جائے تو شہباز شریف کے موجودہ دورہِ چین میں سی پیک پر پیش رفت ایسے ہونی چاہیے جیسے کہ سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی کو ریلیف ملا ہی نہیں اور اگر چین اس معاملے کی نزاکت کے پیش نظر سی پیک کو متاثر نہیں کرتا تو پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ آئندہ دنیا کی سپر پاور چین ہو گا۔ یاد رہے کہ پیر کے روز چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل عدالت نے سائفر کیس میں عمران خان وغیرہ کی سزاں کے خلاف اپیلیں منظور کر کے مختصر فیصلہ سنا دیا۔ ویسے تو پی ٹی آئی رہنما اس متوقع فیصلہ کا انتظار گزشتہ عیدالفطر سے پہلے کرنے لگے تھے تاہم یہ فیصلہ سنائے جانے کی شبھ گھڑی پیر 4جون کو آئی۔ واضح رہے کہ سائفر کیس ایک سفارتی دستاویز پر مرکوز تھا جس پر ایف آئی اے نے الزام لگایا تھا کہ عمران خان نے وزیر اعظم کی حیثیت سے یہ دستاویز حاصل کی اور اسے دفتر خارجہ کو واپس نہیں کیا تھا۔ اس دستاویز کے ذریعے پی ٹی آئی کے بانی نے تسلسل کے ساتھ الزامات لگائے تھے کہ اس دستاویز میں امریکہ کی طرف سے ان کی حکومت کو ہٹانے کا کہا گیا تھا۔ اس دستاویز کو ہی بنیاد بنا کر عمران خان اور ان کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے پاکستان کی قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر آئین کے مطابق ووٹنگ بھی نہیں ہونے دی تھی۔ اس اقدام کو آئین کو سبوتاژ کرنے کی کوشش قرار دیتے ہوئے الگ سے اس پر قانونی کارروائی بھی جاری ہی مگر اس پر فیصلہ لانے میں کسی کو جلدی نہیں ہے۔
ایک اور شبھ گھڑی یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف چینی وزیر اعظم لی کیانگ کی دعوت پر چار سے آٹھ جون تک چین کے پانچ روزہ سرکاری دورہ پر روانہ ہو گئے۔ رواں سال وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد وزیراعظم کا چین کا یہ پہلا دورہ ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ چین اس دورے کے ذریعے پاکستان کے ساتھ کام کرنے کے لئے پرعزم ہے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان سدا بہار تزویراتی تعاون پر مبنی شراکت داری میں مزید پیش رفت ہو اور نئے دور میں مشترکہ مستقبل کے لئے نئے اقدامات کیے جا سکیں۔ وزیراعظم چین کے صدر شی جن پنگ، وزیر اعظم لی کیانگ اور نیشنل پیپلز کانگریس کی سٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین سے ملاقات اور بات چیت کریں گے۔ بیجنگ کے علاوہ گوانگ ڈونگ اور شانشی کا بھی دورہ کریں گے۔ یاد رہے کہ دونوں ممالک نے ماضی میں اعلیٰ سطح کے قریبی تبادلے کیے، سی پیک پر نتیجہ خیز تعاون کیا اور بین الاقوامی، علاقائی معاملات میں مضبوط رابطے اور ہم آہنگی کو برقرار رکھا۔ پی آر آئی منصوبے سے مجموعی طور پر 25ارب 40کروڑ ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری، 236000ملازمتیں، 510کلومیٹر ہائی ویز، 8ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی اور 886کلومیٹر کور ٹرانسمیشن نیٹ ورک بچھایا گیا جس سے پاکستان کی معاشی اور سماجی ترقی مضبوط ہوئی۔ سی پیک کے دوسرے مرحلے کے تحت دونوں ممالک اپنے رہنماں کی طرف سے طے پانے والے اہم اتفاق رائے کو عملی جامہ پہنائیں گے جس میں ترقیاتی حکمت عملی اور پالیسی کوآرڈینیشن کی مضبوطی شامل ہے جبکہ ایم ایل ون کی اپ گریڈیشن، گوادر بندرگاہ اور قراقرم ہائی وے فیز ٹو کی بحالی سمیت میگا پراجیکٹس پر پیش رفت کو تیز کریں گے۔ دونوں ممالک مقامی حالات کی بنیاد پر صنعت، زراعت، کان کنی، توانائی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں میں تعاون کو مضبوط کریں گے اور مزید گفت و شنید اور تجارتی لبرلائزیشن کو فروغ دیں گے ۔
کسی بھی جمہوری نظام میں چونکہ اپوزیشن کو حکومت کی راہ میں روڑے اٹکانے کا جمہوری حق حاصل ہوتا ہے، لہٰذا ایک بڑا روڑا موجودہ پاکستانی حکومت کی راہ میں یہ ہے کہ ماضی کے برعکس موجودہ دور میں اسٹیبلشمنٹ کی پروا نہ کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی کو پے در پے ریلیف دیئے جا رہے ہیں۔ اس کے باوجود وزیر اعظم شہباز شریف پرعزم ہیں اور کئی محاذوں پر کامیابی بھی سمیٹ رہے ہیں۔ یہ بھی ان کی کامیابی ہے کہ لوگ سائفر کیس میں بریت کے فیصلے کے بعد یہ پیش گوئی کر رہے تھے کہ وزیراعظم کا یہ دورہ چین منسوخ ہو جائے گا مگر اب یہ تین کی بجائے پانچ روزہ ہو گیا ہے اور وہ چین پہنچ بھی گئے ہیں۔ جہاں وہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے فیز ثو کے باضابطہ آغاز کی تقریب میں شامل ہوں گے۔ یاد رہے کہ شہباز شریف کے اس دورے سے پہلے، وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے 13سے 16مئی کو چین پاکستان وزرائے خارجہ کے سٹریٹجک ڈائیلاگ کے پانچویں دور کے لئے بیجنگ کا دورہ کیا تھا۔ اسی طرح منصوبہ بندی، ترقی کے وزیر احسن اقبال نے بھی شہباز شریف دورے کی تیاریوں کے لئے چین کا دورہ کیا اور مشترکہ رابطہ کمیٹی ( جے سی سی) کے 13ویں اجلاس سے قبل ملاقاتیں کیں، جو 25مئی کو عملی طور پر منعقد ہوا تھا۔ چینی فریق نے 13ویں جے سی سی اجلاس بلانے پر اصرار کیا تھا تاکہ تصفیہ طلب معاملات طے پا جائیں اور سی پیک فیز ٹو کے روڈ میپ کو حتمی شکل دی جائے۔ سی پیک کے پہلے مرحلے میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر توجہ دی گئی، جس میں بندرگاہیں، شاہراہیں اور توانائی کے منصوبے شامل ہیں جبکہ دوسرے فیز میں صنعتوں میں تعاون اور سرمایہ کاری، پاکستان ریلوے کی مین لائن ون اور قراقرم ہائی وے کی دوبارہ ترتیب شامل ہے۔ جے سی سی کے 13ویں اجلاس کے دوران، ایم ایل ون منصوبے کی لاگت 10سے کم کر کے 6.7ارب ڈالر کر دی گئی اب اسے مرحلہ وار تعمیر کیا جائے گا۔ نظرثانی شدہ منصوبے کے تحت ایم ایل ون پر رفتار کو 2015۔2016میں 260کلومیٹر فی گھنٹہ کی اصل رفتار سے کم کر کے 120۔160کلومیٹر فی گھنٹہ کر دیا گیا تھا۔ نظرثانی شدہ ایم ایل ون منصوبے کو سنٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی (CDWP) نے منظور کر لیا اور اسے منظوری کے لئے قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی(ECNEC)کو پیش کر دیا گیا۔
اب حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کے اس دورہ چین کے دو اہم مسائل کے گرد گھومنے کا امکان ہے، ایک چینی کارکنوں اور منصوبوں کی سکیورٹی کے ساتھ ساتھ پاور پلانٹس کے قیام کے لئے 15.5ارب ڈالر کے پاور سیکٹر کے قرضوں کی تشکیل نو اور چینی انڈپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (IPPs)کو 1.98ارب ڈالر کے بقایاجات کی ادائیگی اور دوسرا اس تاثر سے آزاد پیش رفت کہ مستقبل میں بھی سی پیک کو پھر سے وہ نقصان پہنچ سکتا ہے جو پی ٹی آئی دور حکومت میں پہنچا تھا۔ ان دو مسائل کی موجودگی میں پیش رفت یا کوئی کمی اور دوسرا پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کے مستقبل کا تعین۔ ان حالات میں شہباز شریف کا یہ دورہ چین ایک مشکل کام ہے اور اس مشکل کے حل ہونے کی قوی امید ہے۔

جواب دیں

Back to top button