Column

تمہارا 9مئی اور ہمارا 9مئی

تحریر : راجہ شاہد رشید
یار لوگ اکثر اپنے کالم تجزیوں میں یہ کہتے اور لکھتے آئے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن سمیت سب سیاسی جماعتیں ، ادارے اور ان کے کرتا دھرتا تلخ ماضی کو دُہرانے کی بجائے ماضی سے سبق سیکھیں اور ضرور سیکھیں ۔ ہم اپنے اپنے گندے کپڑے کسی ڈی چوک میں یا فیصل مسجد کے فواروں کے نیچے نہ دھوئیں بلکہ انہیں اپنے گھر میں ہی دھو لیں تو بہتر ہے ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کی خاطر آگے بڑھیں اور مٹی پا پالیسی اپنائیں کیونکہ اسی میں سب کی بھلائی ہے اور یہی آج کے اس عہد کی سب سے بڑی سچائی ہے ۔ میری فون پر بات ہو گئی تھی اور ’’ ساڈھی گل ہو گئی اے‘‘ والی نون لیگ کے سیالکوٹی ببر شیر خواجہ آصف تحریک انصاف پر طنز کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ یاد کرو جب اقتدار میں تھے تو آرمی چیف باپ اور ڈی جی ISIچاچا تھا، تب تم نے ساری مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو جیل بھیج دیا تھا اور کچھ کو جلا وطن کر دیا تھا ، انہوں نے کہا کہ اس طرح نہیں ہوتا کہ جب چاہا وطن کی اساس پر حملہ کر دیا، سیاسی اختلافات کو وطن دشمنی بنا لیا اور پھر معافی مانگ کر معصوم بھی ہو گئے‘‘۔ میرے خواجہ جی کی یہ سب باتیں درست سہی لیکن اس ضمن میں ان کی اپنی ن لیگ کا حال اس سے بھی بدتر ہے ۔ یاد کرو جب ٹی وی سکرینوں پر ساری دنیا نے دیکھا تھا کہ ماڈل ٹائون میں ظلم کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں، خواتین پر بلکہ حاملہ خواتین کے پیٹ پر گولیاں ماری گئی تھیں، گھنٹوں جارحیت جاری رہی، دینی طلبہ پر پتھر اور ڈنڈے برسائے جاتے رہے، جبکہ آپ کی حکومت نے نظام قانون و انصاف کو FIRتک بھی نہیں کاٹنے دی تھی، خواجہ آصف ہی کے الفاظ میں کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے ، سپریم کورٹ پر حملے کر کے پھر قیمے والے نان کھانے والی ن لیگ آج کہتی ہے کہ ہم 9مئی والے نہیں 28مئی والی ہیں ۔ مسلم لیگ ن کا 9مئی بیانیہ اگر مختصر الفاظ میں بیان کیا جائے تو یہی ہے کہ ہمیں بس اقتدار دے کر بالکل بھی چھیڑو نہ اور کپتان سمیت اس کے سب کھلاڑیوں کو چھوڑو نہ تاکہ گلیاں ہو جان سنجیاں تے وچ مرزا یار پھرے ۔ ن لیگ کے سربلند سینیٹر و صحافی و کالم نگار جناب عرفان صدیقی جی کے لیے میرے اندر من مندر میں گراں قدر تکریم و احترام ہے ، نہ صرف میرے دل میں ان کے لیے خلوص و ہمدردی و محبت ہے بلکہ ہر قلم کار، ہر اخبار نویس، ہر مدیر اور ہر اخبار کو ان سے پیار ہے تبھی تو سبھی اخبارات ان کے آرٹیکلز ایسے نمایاں کر کے اور بطور خاص پبلش فرماتے ہیں جیسے وہ ان ہی کے مستقل کالم نگار ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے ان صدیقی جی کی ’’
صداقتیں‘‘ 28مئی 2024روزنامہ جنگ، ملک کے سب سے بڑے اخبار میں اپنے کالم بعنوان ’’ ایک اور 9مئی کی اکساہٹ!‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ معاشی صورتحال میں مسلسل بہتری آنا، مہنگائی کی شرح کا کم ہونا ، PTIکی سر توڑ کوششوں کے باوجود IMFکا مقاطعہ نہ کرنا، بیرونی سرمایہ کاروں کا امید افزا رویہ ، سٹاک ایکسچینج کا مستحکم ہونا، PTIکے لیے اچھے اشارے نہیں، پیشتر اس کے کہ پاکستان مضبوط ہو کر خان صاحب کو قصہ پارینہ سمجھنے لگے، کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔ خان سے منسوب عمر ایوب کے بیان پر غور کیا جائے تو انہوں نے پاکستان کی موجودہ صورتحال کو 1971ء کے پاکستان سے تشبیہ دی ہے‘‘۔ ویسے دل بہلانے کے لیے یہ خیال اچھا ہے کیونکہ کسی کپتان کو قصہ پارینہ سمجھے جانے کے سپنے دیکھنے پر تو کوئی پابندی نہیں ہے، سوتے میں دیکھیں، چاہے جاگتے میں دیکھیں، مگر معلوم نہیں کس پاکستان کی مضبوطی کی بات کر رہے ہیں، جہاں مہنگائی کی شرح کم ہوئی ہے اور معاشی صورتحال میں مسلسل بہتری بھی آئی ہے۔ یہ کتنی بڑی صداقت ہے، صد افسوس و ماتم کہ یہاں سب صداقتیں قطری خط ایسی ہی ہوتی ہیں، کاش یہ ’’ معاشی صورتحال میں مسلسل بہتری‘‘ ایک عام انسان اور مفلس پاکستانی بھی دیکھ پائے جو دو وقت کی روٹی اور گیس بجلی کے بلوں کا رونا روتا ہے ، پینے کے لیے صاف پانی کو ترستا ہے۔ سبحان اللہ کیا ہی نشہ ہے اس سینیٹری کا بھی جہاں اپنے سوا کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا ۔ یہ حضرت ایک مدت سے اپنا قلم کلہاڑا اٹھائے 9مئی کی آڑ میں PTIکے پودے کو جڑ سے کاٹنے اور اس کا سر کُچلنے کے چکر میں ہیں، موصوف کا بس چلے تو یہ PTIکو سقوط ڈھاکہ یعنی بنگلہ دیش کی علیحدگی کا بھی ذمہ دار قرار دے دیں گے بلکہ نائن الیون اور ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا سارا ملبہ بھی کپتان پر ڈال دیں گے۔ 83ویں فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں 9 مئی کے ضمن میں جو کہا گیا وہ بجا اس طرح ہے کہ9 مئی کے کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچا کر ہی یہ اُمید باندھی جا سکتی ہے کہ کل کو کوئی اور احمق ایک نیا 9مئی کرنے کی ہمت و جسارت نہیں کرے گا لیکن فیض کے الفاظ میں :
اور بھی دُکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
2024 ء کا یہ 9مئی ہمارا 9مئی کچھ اس طرح ہے کہ اس دن میرے 35سالہ جوان بھائی راجہ رمیض رشید کی نماز جنازہ اور تدفین ہوئی، اس کے تین معصوم بچے یتیم ہو گئے اور اس کی بیوی بیوہ ہو گئی، میری ماں سمیت ہم سب بہن بھائی روتے تڑپتے رہ گئے کیونکہ ہم اُجڑ گئے ہیں، سوگ و ماتم ختم ہی نہیں ہو رہا الغرض میں نے اسی کیفیت میں بصورت شعر کہا ہے کہ:
رنگ روٹھ ہی گئے تیرے جانے کے بعد
ہم تو ٹوٹ ہی گئے تیرے جانے کے بعد
رات کو اُسے ایک تیز رفتار کار نے ایسی زوردار ٹکر ماری کے اُس کے بعد وہ بولنے کے قابل ہی نہ رہا، ڈولفنز نے انہیں پابند کرنے کی بجائے شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی لے کر کار اور کار والوں کو بھاگنے کے لیے راستہ دیا، بینظیر ہسپتال پہنچے تو ڈاکٹرز نے توجہ نہ دی اور فرمایا کہ یہ سر پر شدید دماغی چوٹ ہے اس ’’ بینظیر ہسپتال‘‘ میں تو کوئی نیورو سرجن ہی نہیں ہے پھر ہم ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال بھاگتے رہ گئے یہ ہے ہمارا 9مئی کے ہسپتال اور FIRکاٹنے والے مارنے والوں کی بجائے ہم مرے ہوئوں کو ہی مارتے رہے اور قانون پڑھاتے رہے حتیٰ کہ ہمیں ’’ کنگلے‘‘ تک کہا گیا ۔ یہ کیسا نظام قانون و انصاف ہے کہ اتنے دن گزر جانے کے باوجود کسی نے وہ گاڑی پکڑی اور نہ ہی گاڑی والے پکڑے ۔ میرے دیس میں ایک سابق PMاور مقبول عوامی لیڈر کو دن دیہاڑے گولیاں لگیں لیکن FIRنہ کٹی ۔ سانحہ ماڈل ٹان کی FIRبھی کافی وقت گزرنے کے بعد ایک دھرنے کی شرائط و مطالبات کی صورت میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے کہنے پر ہوئی تھی۔ حسن آباد راولپنڈی کینٹ میں میرے پرانے پڑوسی ہونے کے باوجود بھی یہ سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر میری پہنچ سے باہر ہیں لیکن کاش میں ان تک پہنچ پاں ، حال دل بتلائوں اور کہوں کہ خدارا میرے رمیض کے ان معصوم یتیم بچوں ، 10سالہ زارا رمیض، 7سالہ تحریم اور 4سالہ محمد آیان کے سر پر دست شفقت رکھیں ، ان کے بابا کو مارنے والوں کو قانون کٹہرے میں لائیں اور کیفرٍ کردار تک پہنچائیں ۔

جواب دیں

Back to top button