شفاف عدالتی کارروائی اور نیب ترامیم

تحریر : امتیاز عاصی
یہ امر باعث مسرت ہے فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں سانحہ نو مئی کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانے اور سازشی عناصر کے خلاف شفاف عدالتی کارروائی کا اعلان کرکے طاقتور حلقوں نے اس تاثر کو غلط ثابت کر دیا ہے کہ عدلیہ پر آزادانہ فیصلے کرنے کے سلسلے میں کسی قسم کا کوئی دبائو ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ جج صاحبان نے بعض اداروں کی طرف سے دبائو کے ضمن میں سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت درج کرائی ہے جس کا ابھی تک کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے۔ تاہم اس کے دوسرے پہلو کو دیکھا جائے تو کیا بعض اداروں کے علاوہ مقدمات کا اپنے حق میں فیصلہ کرانے کے سلسلے میں عدالتوں پر کسی قسم کا دبائو نہیں ہوتا؟ جس معاشرے میں ہم رہ رہے ہیں وہاں کچھ بھی ممکن ہے قتل جیسے سنگین جرائم میں ملوث ملزمان ماتحت عدالتوں سے سزا یاب ہو نے کے بعد اعلیٰ عدالتوں سے بری ہو جاتے ہیں۔ سوال ہے کوئی عدالت قانون اور آئین کے مطابق فیصلہ کرنے کا تہیہ کر لے تو اسے کوئی روک سکتا ہے؟ عام تاثر ہے ذوالفقار علی بھٹو کیس میں عدالت سے دبائو کے پیش نظر موت کی سزا دینے کا فیصلہ لیا گیا تھا۔ آخر جسٹس صمدانی نے ذوالفقار علی بھٹو کو ضمانت پر رہائی بھی دی تھی کیا ان کی ضمانت کسی دبائو کا نتیجہ تھا۔ عدالت سفارش اور دبائو کو خاطر میں نہ لائے تو ایسی عدالت کے جج کو ملازمت سے فارغ کر دیا جاتا ہے؟ یہاں ہم اپنی ذاتی مثال کا حوالہ دیتے ہیں ماتحت عدالت سے موت کی سزا اور ہائی کورٹ سے ماتحت عدالت کے فیصلے کی توثیق کے بعد سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ جس میں جسٹس گلزار احمد، جسٹس اقبال حمید الرحمان اور جسٹس اعجاز چودھری جیسے نیک نام جج شامل تھے مدعی فریق کے اثر و رسوخ کو دیکھا جاتا تو ہماری موت کی سزا سپریم کورٹ سے ختم نہیں ہو سکتی تھی اللہ سبحان تعالیٰ کہ مہربانی اور میری والدہ کی دعائوں سے موت کی سزا کو عمر قید میں بدل دیا گیا۔ پشاور ہائی کورٹ نے جنرل مشرف کو موت کی سزا ان کی عدم موجودگی میں سنائی ادارے چاہتے تو عدالت پر دبائو نہیں ڈال سکتے تھے لہذا ہمیں سفارش اور دبائو کے خول سے نکلنا ہوگا۔ اداروں کو کسی خاص شخصیت سے لگائو کی بجائے ملک و قوم کے مفاد کو دیکھنا ہوتا ہے۔ جو سیاسی جماعت ملک اور قوم کے مفاد میں کام کرتی ہے ادارے اسی کے ساتھ ہوتے ہیں لہذا سیاست دانوں کو ملک و قوم کی ترقی کے لئے مل جل کر کام کرنا چاہیے۔ عشروں سے دہشت گردی کا شکار ہے بلوچستان میں شرپسند عناصر دہشت گردی کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتے۔ افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی سے کے پی برسوں سے دہشت گردی کا شکار ہے دہشت گردوں سے نبرد آزما عسکری قیادت اور مسلح افواج سے تعلق رکھنے والے جوان جو سینہ سپر ہو کر ملک دشمنوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ہم نہیں سمجھتے عدلیہ کے لوگ منصفانہ اور آزادانہ فیصلے کرنے کی کوشش کریں تو کوئی ادارہ ان کے راستے میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ ہمیں تو اس حکومت کی سمجھ نہیں آتی ایک طرف نیب ترامیم کے خلاف پٹیشن سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے دوسری طرف حکومت نیب قوانین میں صدارتی آرڈننس کا سہارا لیتے ہوئے من پسند ترامیم کر رہی ہے۔ ایوان کی موجودگی میں صدارتی آرڈننس کے ذریعے ترامیم کمزور حکومت کی نشانی ہے۔ تعجب ہے پہلے ریمانڈ چالیس روزہ تھا جسے ختم کرکے چودہ روز کیا گیا چالیس روز کرنے کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔ دراصل سیاست دان اداروں کو کام کرنے نہیں دیتے جہاں ان کے ذاتی مفاد کا ٹکرائو ہو وہاں قوانین میں ترامیم کر لی جاتیں ہیں۔ اللہ کے بندوں کرپشن کے خاتمے کے لئے مل جل کر جدوجہد کرو تو ملک سے کرپشن کا خاتمہ ممکن ہے۔ کرپشن کے خلاف کام کرنے والے اداروں کو فری ہینڈ دو تاکہ ہمارا ملک ترقی کر سکے۔ بدقسمتی سے کسی کے خلاف کرپشن کا مقدمہ قائم ہو تو وہ اپنی بے گناہی کا شورغوغا کرتا ہے عدالتوں میں پیشی کے موقع پر وکٹری کا نشان بناتے ہیں جیسے کشمیر فتح کرکے آئے ہوں حالانکہ کرپشن میں ملوث لوگوں کو مارئے شرم کے نگاہیں نیچی رکھنی چاہیں۔ ایک بہت قریبی مہربان جناب جسٹس عبادالرحمان لودھی کئی برس لاہور ہائی کورٹ کے جج رہ چکے ہیں۔ پہلی بات کوئی انہیں سفارش کرنے کی جرات نہیں کرتا تھا غلطی سے کسی نے سفارش کرنے کی کوشش کی تو اسے مایوسی ہوئی لیکن جج صاحب بدستور اپنے فرائض آزادی سے ادا کرتے رہے اور راست بازی کی اعلیٰ مثالیں چھوڑی ہیں۔ عمران خان کے دور میں کابینہ کے اجلاس میں انہی جج صاحب کو کسی عہدے پر لگانے کی منظوری دی گئی بعد ازاں خاموشی اختیار کر لی گئی۔ کسی نے عمران خان کے کان میں ڈال دیا ہوگا جج صاحب تو کسی کی سفارش مانتے نہیں جس کے بعد ان کی تقرری کا معاملہ ٹھپ ہو گیا۔ ملک کے ساتھ بہت کھلواڑ ہو چکا ہے لہذا سیاست دان ذاتی مفادات کے خول سے نکلیں اور ملک و قوم کے لئے ایمانداری سے کام کریں تو ہمارا ملک مقروض رہے گا نہ عوام کو مہنگائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حکومت کے چند اقدامات سے اشیائے خوردونوش اور پٹرولنگ مصنوعات کی نرخوں میں کمی آئی ہے۔ اگر حکمران صدق دل سے ملک اور عوام کے لئے کام کریں اور تو کوئی وجہ نہیں ہمارا ملک مشکلات کے بھنور سے نہ نکل سکے۔ یہ بات باعث شرم ہے بیرون ملک ہمارے سیاست دانوں کی کوئی ساکھ نہیں ہے جو کام انہیں کرنے چاہیں عسکری قیادت کو کرنے پڑ رہے ہیں ۔ حکومت کو چاہیے کسی ادارے میں کرپشن سامنے آئے تو ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لانے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ وزیراعظم کو اعلیٰ عدلیہ کے چیف جسٹس کے درخواست کرکے برسوں سے مبینہ کرپشن کے مقدمات کا تصفیہ کرانا چاہیے۔ نیب ترامیم سے کرپشن ختم نہیں ہوگی بلکہ کرپشن کے مقدمات کی عدالتوں میں بھرپور پیروی کرکے ملزمان کو ان کے انجام تک پہنچانے سے ختم ہوگی۔ ہم فارمیشن کانفرنس کے فیصلوں کی تائید کرتے ہیں سانحہ نو مئی میں ملوث ملزمان اور ان کے سہولت کاروں کو ضرور سزا ملنی چاہیے۔





