۔سیاسی بہکائوں کا چکر

تحریر : تجمل حسین ہاشمی
جب بھی سیاست دانوں سے حساب کتاب کی بات ہوئی تو وہ خفا ہی نظر آئے ، زیادہ تر قائدین نے احتساب کو سیاسی قرار دے کر ہمدردیاں سمیٹ کر حکومتیں بنا لیں۔اداروں کے خلاف محاذ کھول دیئے، ابھی تک وار جاری ہیں ان کے بخشش نہیں ہے۔پنجاب اسمبلی کی ویب سائٹ پر ممبرز کی عمروںکا موازنہ دیکھ کر حیران تھا کہ زیادہ تر ممبرز 50 پلس تھے ۔کارناموں کے حوالہ سے لمبی فہرست ہے ۔ پانامہ لیکس ، دبئی لیکس کے بعد بھی طاقتور کو کوئی پرواہ نہیں ہے ۔ سابقہ وزیر خزانہ شبر زیدی کہتے ہیں۔’’اداروں میں اتنی سکت نہیں کہ وہ احتساب کر سکیں‘‘ ۔ معاشرے کا ہر فرد اپنے حق کی آزادی کا شکوہ کرتا نظر آتا ہے لیکن اپنے ہی عمل سے سبزہ زار کو سرخ کر رہا ہے ، آئین کی پامالی کھلے عام ہے ۔ طاقتور معصوم لوگوں کو اپنے مقصد کیلئے استعمال کرتے ہیں ، خاندانی فیکڑیوں کے مالکوں نے توشہ خانہ کا مال تک نہیں چھوڑا ۔ کیا اس کے بعد بھی کوئی دلیل رہ جاتی ہے ۔کیسی پاک دامنی جس کا چرچا کیا جاتا ہے ۔سرکاری مال پر اپنا حق سمجھتے ہیں ۔ٹیکسز پر ڈاکے ڈالے جاتے ہیں ۔سبسڈی پر لوٹ مار جاری ہے ۔ معاشرتی قدریں اس قدر گر چکی ہیں ایسا لگتا ہے کہ قانون کی گرفت ختم ہو چکی ہے۔ ملک طاقتوروں کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے ۔ توشہ خانہ کی تفصیل کے بعد یقین نہیں آتا یہ امیر زادے ملک کو ٹھیک کر لیں گے ۔ عوامی خدمات ان کا منشور ہے ۔ یہ تبدیلی لانا چاہتے ہیں ۔ اس طرز سیاست سے صدیوں تک خدمات ممکن نہیں ۔ نعروں سے غربت ختم کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ کھلے عام جھوٹے بیانات دیتے ہیں ۔اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے سے کئی سالوں سے سادہ لوح ذہنوں کی آبیاری کی گئی ۔ جو سیاسی چلوں سے نا واقف تھے۔ 9مئی کو لوگوں کی عقل پر پردہ پڑ گیا تھا جو اپنے ہی ریاستی اداروں پر چڑھ ڈورے ، یہ انتہا تھی ۔ ایسی سوچ رکھنے والے کسی قسم کی رعایت کے مستحق نہیں ہیں ۔ اب سیاسی لیڈر سانحہ مئی پر سیاست کر رہے ہیں ان کو بھی سمجھ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔حالات کو مزید ہوا نہیں دینی چاہئے لیکن ان کی سیاست کو یہی کچھ سوٹ کرتا ہے ۔ قانون و آئین پر تنقیدی سیاست بالکل نہیں ہونی چاہئے ایک عرصے سے سیاست دان اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانیے بناتے ہیں اور اعلیٰ عدلیہ پر حملے کرتے ہیں ۔ اعلیٰ اداروں کے خلاف بیان بازی بند ہونی چاہئے ۔ اپنے ہاتھوں سے اپنے سبزہ زار کو سرخ مت کریں ۔ ملک کی سلامتی مقدم ہونی چاہئے ۔ ہمارے ہاں خاموش رہنا گناہ تصور کیا جاتا ہے ۔ سیاسی جماعتوں نے زبان درازوں کی ٹیم رکھی ہوئی ہے جن کا کام صرف بولنا ہے خواہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ ہو ۔ سچی اور جھوٹی پریس کانفرنس سے اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں اور اس سے پیدا ہونے والے اثرات کی کوئی فکر نہیں ۔ تنقید کا شکار صحافتی برادری ہے ۔ میرے مطابق سیاست دانوں کے پاس معاشی پلان نہیں یہ کبھی مشرقی پاکستان اور کبھی حمودالرحمان کمیشن پر سیاست شروع کرتے دیتے ہیں،نئی نسل کو اپنے مسائل کا حل چاہے ان کو انصاف ، روزگار ، تعلیم اور صحت کی سہولیات چاہئیں ، سہولیات کی ذمہ داری ان سیاست دانوں کی ہے جو 25 کروڑ کی نمائندگی کر رہے ہیں ، 1947 سے 2024 تک 24 وزیر اعظم 12 کیئر ٹیکر وزیر اعظم ، 45 وزیر خزانہ اور 336 قومی اسمبلی کے ممبرز ملک کی معیشت صورت حال کو بہتر نہ کر سکے ۔ آج بھی فوڈز امپورٹ کی مد میں ملین ڈالر خرچ ہوتے ہیں ، چند ماہ پہلے گندم کی امپورٹ نے اپنے کسانوں کی کمر توڑ دی اور ہمارے لیڈر مشرقی پاکستان اور حمودالرحمن کمیشن پر اپنی سیاست کو زندہ کر رہے ہیں قوم کی سوچ اور روح دونوں کو موڑا جا رہا ہے جو کسی صورت ملکی معیشت اور سلامتی کے لیے بہتر نہیں ہے ۔ جیل میں بیٹھے شخص کے پاس کوئی معاشی پلان نہیں ۔کیسے ملک کو بہتر کر سکتا ہے جبکہ اس
کے ایجنڈے میں تنقید کے سوا کچھ نظر نہیں آ رہا ۔جہاں تک مشرقی پاکستان کی بات ہے یا مجیب الرحمن کے کردار کی بات ہے تو اس میں کوئی شق نہیں کہ مجیب الرحمن اچھا انسان نہیں تھا ۔ اس کو انڈیا کی پشت پناہی حاصل تھی ۔ صحافی اور ینا فلاسی نے مشرقی پاکستان کے حوالہ سے ذوالفقار علی بھٹو سے انٹرویوکیا جس میں بھٹو صاحب نے شیخ مجیب الرحمن کے حوالہ سے انکشافات کا پردہ چاک کیا تھا ۔ مشرقی پاکستان کے سانحہ کو سابقہ آرمی چیف جنرل باجوہ نے سیاسی قرار دیا تھا ۔ اس میںکوئی دو رائے نہیںکہ شیخ مجیب الرحمن ایک شاطر انسان تھا اور اس کے مقاصد اس وقت کچھ اور تھے جس کا واضح ذکر فلاسی کے انٹرویو میں شائع ہوا ۔حمودالرحمن کمیشن کے حوالہ سے میجر جنرل ر رائو فرمان علی نے اپنی کتاب میں ’’صفائی پیش کرنے کی کوشش کی ‘‘۔ مزید کہا کہ کمیشن میں ایسا کچھ نہیں ۔ 1971 کے واقعات کے بعد عسکری اداروں نے ہر محاذ کے لیے مضبوط حکمت عملی اختیار کی جو ملکی سلامتی کے لیے انتہائی ضروری تھا اور آج 25 کروڑ عوام کا سر بلند ہے ۔ دشمن پر بھی خوف کا سماں ہے ۔ معاشی مشکلات اور دشت گردی میں گھرے ملک کا ایٹمی طاقت ہونا بڑے فخر کی بات ہے ۔ ہمارے سیاسی قائدین کو ماضی سے باہر نکلنا چاہئے ۔ ادارے آئین پاکستان کے ماتحت کام کرتے ہیں ۔ حکم کی تکمیل فرض ہے لیکن سیاست دانوں کو یہ بات سمجھنی چاہئی کہ نئی نسل اپنے مسائل کا حل چاہتی ہے لیکن سیاسی حلقے ان کو بے بنیاد معلومات سے بہلانا ، بہکانا چاہتے ہیں ، تیز ترین ٹیکنالوجی کے سامنے یہ بہکاوے ، بیانیے نہیں چلیں گے ۔ ویسے ہمارے ہاں سب سے آسان لوگوں کو بہکانا ہے اور ہم لوگ بہک بھی جاتے ہیں کیوں ہمارے پاس تعلیم نہیں اور ہمیں حقیقت جاننے کی عادت نہیں ہے ۔ ماضی میں زندہ رہنا چاہتے ہیں اور ہمارے حکمران بھی یہی چاہتے ہیں کہ قوم اپنے مسائل اور ماضی کی کمزوریوں پر ماتم کرتی رہے ۔ اس لیے بہکانے کا عمل بہت آسان ہے اور ہم بہک جاتے ہیں ۔





