Column

مریم نواز حکومت کے 100دن اور شعبہ تعلیم

تحریر : محمد نور الہدی
جب سے سیاسی قیادتوں کی آپس میں مقابلے کی فضا بنی ہے، ہر آنے والے حکومت اپنا موازنہ گزشتہ حکومت کے ابتدائی 100دن سے لازمی کرتی ہے۔ اس سے نہ صرف حکومت کی پرفارمنس سامنے آتی ہے بلکہ اسے خود احتسابی کا موقع بھی ملتا ہے۔ آج موجودہ حکومت بھی اسی مرحلے سے گزر رہی ہے۔ ہم اگر صوبے کی بات کریں تو مریم نواز پنجاب کی قیادت کر رہی ہیں۔ مریم نواز کی قیادت کے 100دن کا موازنہ کیا جائے تو اس پر کئی مقالے لکھے جا سکتے ہیں۔
ان 100دنوں میں مریم نواز نے ہر ادارے پر توجہ دی۔ تعلیم، صحت اور دیگر شعبوں کی ترقی اور عام آدمی کی فلاح و بہبود کا ویژن اپنایا۔ کئی طرح کے مافیاز کو کنٹرول کیا۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار صحیح معنوں میں پڑھے لکھے افراد پر مشتمل کابینہ بنائی، یعنی اپنی ٹیم کے چنائو کے حوالے سے مریم نواز نے ’’ رائٹ پرسن فار دی رائٹ جاب‘‘ والا فارمولا اپنایا۔ ان 100دنوں میں مریم نواز نے کئی ایسے پراجیکٹس کا آغاز کیا جن کا براہ راست تعلق عام آدمی کی ترقی اور فلاح و بہبود سے جڑا تھا۔ نوجوانوں کیلئے گلوبل آئی ٹی سرٹیفیکیشن پروگرام، آئی ٹی سٹی سمیت یوتھ کو خودمختار بنانے کیلئے متعدد منصوبوں کا کریڈٹ مریم نواز کو ہی جاتا ہے۔
تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ مریم نواز نے تعلیمی نظام کی درستی کا بیڑا اٹھایا اور اس کی بربادی کا جو حق گزشتہ حکومت نے بھرپور طریقے سے ادا کیا تھا، اس کے ازالہ کیلئے دن رات ایک کیا۔ تعلیمی نظام کی درستی کی باگ دوڑ مریم نواز نے ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں تھمائی جو بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور صوبے کی تعلیمی ترقی کیلئے ہر قسم کے لالچ سے بے نیاز ہو کر اقدامات اٹھا رہا ہے۔ تعلیمی مافیاز کے خلاف اس شخص نے جو سٹینڈ لیا ہے وہ یقینا سنہرے حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ مافیا کی طرف سے بڑی بڑی پیشکش کو ٹھکرایا اور قوم کے مستقبل کا کسی بھی قسم کا سودا کرنے سے گریز کیا۔
جی ہاں، میں رانا سکندر حیات کی بات کر رہا ہوں، جو بوٹی مافیا کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہوئے ’’ پبلشر مافیا کو بھی نہیں چھوڑا ‘‘، پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت جن اداروں نے گورنمنٹ سکولز کی سرپرستی کا ذمہ لیا ہوا تھا، مگر کارکردگی نہیں دکھا پا رہے تھے، ان اداروں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ محکمہ تعلیم کے جن شعبوں یا افسروں کے خلاف کرپشن یا کمیشن لینے کی شکایات تھیں، ان کے خلاف بھرپور ایکشن لیا، ایسے ہی بے شمار اقدامات کے ذریعے رانا سکندر حیات نے خود کو مریم نواز کا درست انتخاب ثابت کیا۔ وگرنہ ماضی میں ہمارے سیاسی نظام کی بدقسمتی رہی ہے کہ اسے تعلیم کے وزیر ہمیشہ ’’ زیر تعلیم‘‘ ہی ملے، تعلیم کی وزارت سے انہیں نوازا جاتا رہا جن کا اپنا کوئی تعلیمی ویژن تک نہیں تھا۔ یہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ صوبے کو رانا سکندر حیات کی صورت میں ایک تعلیم یافتہ، ویژنری اور لالچ سے پاک وزیر تعلیم ملا، وگرنہ گزشتہ چند وزرائے تعلیم کی کارکردگی اور روز و شب کو اگر ٹٹولا جائے تو نہ صرف عجب کرپشن اور رویوں کی غضب داستانیں سامنے آئیں گی ، بلکہ نیب کو بھی متحرک ہونے کا خوب موقع ملے گا۔
محکمہ تعلیم ہی کی 100روزہ کارکردگی کو اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ طلباء اور اساتذہ سمیت تمام متعلقہ سٹیک ہولڈرز کو سامنے رکھ کو پالیسیاں وضع کی جا رہی ہیں۔ آمدہ تعلیمی اصلاحات کی بات کریں تو طلبہ کی حقیقی ضروریات کو مدنظر رکھ کر ممکنہ اصلاحات لائی جا رہی ہیں۔ رانا سکندر حیات تاریخ کے پہلے وزیر ہیں جنہوں نے روز اول سے ہی تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر پالیسیاں بنانے کی روایت قائم کی ہے۔ رانا سکندر حیات کا کہنا ہے کہ جن پر پالیسی اپلائی ہونی ہے، وہ مطمئن ہوں گے تو ہی پالیسی بنے گی۔ اسی ضمن میں ہر ضلع میں وہ تعلیمی پنچائیت سجا کر، جن سے وابستہ مسائل ہیں، انہی سے جا جا کر پوچھ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک صوبائی وزیر تعلیم نے جتنے بھی فیصلے کئے اور جتنے اقدامات اٹھائے، وہ سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر اٹھائے۔
بجٹ 2024ء کے تناظر میں وزیر تعلیم رانا سکندر حیات نے سابق وزراء کی طرح محض بجٹ بڑھانے کی ڈیمانڈ کرنے کی بجائے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ گزشتہ ادوار کی طرح بجٹ ضائع نہیں ہونے دیں گے بلکہ اس کا بہتر استعمال کر کے مثال قائم کریں گے۔ رانا سکندر حیات کا موقف ہے کہ بجٹ بڑھانے کے مطالبات کی بجائے اگر اس کا شفاف استعمال یقینی بنا لیا جائے تو بے شمار مسائل کا احاطہ کیا جا سکتا ہے۔ منصب سے ایسا انصاف کرتے میں نے کم ہی وزراء دیکھے ہیں۔ پنجاب کے تمام وزراء کی اگر مجموعی طور پر یہی روش رہی تو مجھے یقین ہے کہ یہ 100دن کیا، موجودہ حکومت کے 5سال مستقبل میں آنے والی تمام حکومتوں پر حاوی رہیں گے اور انہیں ذمہ داریاں احسن انداز میں ادا کرنے پر مجبور کرتے رہیں گے۔

جواب دیں

Back to top button