نوجوان نسل اور ملک کا مستقبل

تحریر : روشن لعل
جوانی سے مراد کسی بھی فرد ( مرد و زن) کی عمر کا وہ حصہ ہے جو بچپن اور پختہ عمر کے درمیان نمودار ہوتا ہے ۔ اس عمر میں نہ صرف حواس خمسہ کی کارکردگی کا معیار بہترین ہو تا ہے بلکہ جسم کی محنت کرنے کی صلاحیتں بھی زندگی کے ہر دور سے بہتر ہوتی ہیں۔ جوان ذہن کو عمر کے کسی بھی حصے سے وابستہ ذہنوں سے زیادہ زرخیز تصور کیا جاتا ہے۔ جوان ذہن کوئی بھی علم اور ہنر سیکھنے کے لیے مثالی سمجھا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے نوجوان افرادی قوت کو کسی بھی ادارے کی پیداوار کے لیے ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے۔ نوجوانی کے لیے یہ رائے بھی پختہ ہے کہ اس عمر کے دوران ہی شعوری یا غیر شعوری طور پر کسی بھی فرد کی نظریاتی سمت کا تعین ہو جاتا ہے ۔ اس عمر کے لوگ ہر دور میں اہم رہے ہیں ۔ اس دنیا میں تاریخی تبدیلی کے جتنے بھی مراحل آئے ہیں ان میں نوجوانوں کا کردار بنیادی اور نمایاں رہا ہے۔ نوجوانوں کی ان صفات کی وجہ سے ہی ماضی میں کسی بھی ادارے یا ملک کے مستقبل کی پیش بندی کرتے وقت یہ بات ملحوظ خاطر رکھی جاتی تھی کہ اس ملک یا ادارے کے نوجوانوں کی جسمانی ، علمی، تحقیقی اور ذہنی استعداد کیسی ہے ۔
سطور بالا میں نوجوانی کے متعلق جو کچھ بھی کہا گیا ہے اس کے مستند ہونے کے باوجود دور حاضر کے نوجوانوں کے متعلق یہ عمومی رائے استوار ہو چکی ہے کہ انسانیت اور سماج کے لیے کچھ کرنے کی بجائے ان کی ترجیح اپنے کیریئر کو کسی بھی قیمت پر بہتر سے بہتر بناتے رہنا ہے۔ آج کے نوجوانوں کے متعلق اس عمومی رائے کو نہ بلاوجہ اور نہ ہی بد نیتی پر مبنی قرار دیا جاسکتا ہے مگر اس رائے کو نوجوانوں پر ثبت کرنے سے پہلے یہ ضرور دیکھ لینا چاہیے کہ جس سماج میں سے کیرئیر کو ترجیح دینے والے نوجوان نمودار ہو رہے ہیں اس سماج کا اپنا عمومی رویہ اور کردار کیا ہے۔ ہمارے سماج کا عمومی رویہ کسی بھی طرح قابل تعریف نہیں ہے اور سماج کے اسی ناقابل تعریف رویے کے زیر اثر پرورش پا کر اگر یہاں نوجوان صرف اور صرف اپنے کیرئیر کو ترجیح دیتے ہیں تو اس سقم کا ذمہ دار محض ان کی ذات کو قرار نہیں دیا جاسکتا۔
جس سماج میں جا بجا اپنی کیرئیر کو ترجیح دینے والے لوگ ملتے ہوں وہاں اگر کسی جگہ ایسے نوجوانوں کا گروپ نظر آجائے جو سماج میں وسیع پیمانے پر موجود دھونس ، دھاندلی، جبر ، استحصال ، انسانی حقوق کی پامالی کی پختہ ہو چکی روایات کی پیروی کرنے کا کشادہ راستہ اپنانے کی بجائے انہیں
توڑنے والوں کی تنگ اور رکاوٹوں سے بھر پور گلی کا مسافر بن جائے تو پھر بے ساختہ یہ کہنے کو جی کرتا ہے کہ نوجوان نسل سے اب بھی امید بہار رکھی جاسکتی ہے۔ جن نوجوانوں کو دیکھ ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ان سے اب بھی امید بہار رکھی جاسکتی ہے انہیں گروپ کی شکل میں اکٹھا کرنے کا کام اور ان سے ملنے کا موقع ہمارے دوست سیمسن سلامت نے فراہم کیا۔ سیمسن سلامت نے اس وقت پاکستان کے طول و عرض سے مختلف عقائد اور نظریات کے حامل لوگوں کو اکٹھا کر کے ’’ روا داری تحریک‘‘ کے نام سے ایک تنظیم بنائی جب مذہبی ، نسلی اور فرقہ ورانہ تقسیم و تعصبات کی بنیاد پرملک کو دہشت گردی کا گڑھ بنا دیا گیا تھا۔ بعد ازاں ’’ رواداری تحریک‘‘ کے تحت سینٹر فار ہیومن رائٹس ایجوکیشن قائم کیا گیا جس کا کام خاص طور پر نوجوانوں کے ذہنوں سے ہر قسم کے تعصبات نکال کر انہیں روادار، پرامن اور جبر و استحصال سے ماورا سماج کے قیام کی طرف راغب کرنا ہے۔ جو کام یہاں سینٹر فار ہیومن رائٹس ایجوکیشن نے اپنے ذمے لیا وہ کام کرنے کا دعویٰ یہاں کئی دیگر تنظیمیں بھی کرتی ہیں مگر رواداری تحریک کے تحت ہونے والا کام دیگر تنظیموں سے مختلف اور منفرد دکھائی دیتا ہے۔ رواداری تحریک کے ایجوکیشن پروگرام کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں شرکت کرنے والے نوجوان، جن کی اکثریت کسی نہ کسی یونیورسٹی میں تحقیقی کاموں سے وابستہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہے، وہ کسی مالی مفاد یا سیر سپاٹے کے لیے نہیں بلکہ انسانی حقوق کی ضرورت و اہمیت اور اس کے سماج میں نفاذ سے متعلق جاننے اور سیکھنے کے لیے آئے تھے۔ ملک کے چاروں صوبوں کے دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے ان نوجوانوں کا کہنا تھا کہ وہ ملک میں بہترین تصور کی جانے والی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں لیکن ریاستی پالیسیوں کے تحت جو کچھ یونیورسٹیوں میں ہماری دسترس سے باہر کر دیا جاتا ہے ہم اسے سیکھنے کے لیے اپنے خرچ پر سینٹر فار ہیومن رائٹس ایجوکیشن کے تربیتی پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں۔ اس قسم کی سوچ رکھنے والے نوجوانوں سے مل کر یہ احساس ہوا کہ اب بھی اس خود غرض سماج میں ایسے نوجوان پیدا ہو رہے ہیں جو یہاں رواداری کا فروغ، انسانی حقوق کا احترام اور معاشی و سماجی انصاف کا بول بالا چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ جن صفات کو جواں عمر کا خاصہ کہا جاتا ہے وہ تمام صفات نوجوانوں کی جبلت نہیں ہیں ۔ ان صفات کے اظہار کی شدت کی مقدار ہمیشہ ہر دور ، ہر ملک اور ہر خطے کے نوجوانوں میں مختلف رہی ہے ۔ اگر ان صفات کا شمار جبلتوں میں ہوتا تو ہنسنے رونے اور کھانے کی طرح ہر مقام کے نوجوانوں کی نسبت ان صفات کے ساتھ یکساں ہوتی ۔ لیکن ایسا نہیں ہے ان صفات کے اظہار میں مختلف قسم کے نوجوانوں میں جو تنوع پایا جاتا ہے اس کا تعلق کسی بھی مقام کے نوجوانوں کے مخصوص حالات اور ان سے پہلے موجود نسلوں سے وابستگی کے ساتھ ہے ۔ نوجوانوں کی صفات کے اس فرق میں نوجوانوں کی صلاحیتوں کے فر ق کا عمل دخل بھی ہوتا ہے۔
یہ دنیا جسے آج کل گلوبل ویلج بھی کہا جاتا ہے اس میں چھوٹے بڑے، ترقی یافتہ، ترقی پذیر اور پسماندہ ہر طرح کے ممالک موجود ہیں ۔ ان ممالک میں جو طبقات پائے جاتے ہیں ان میں کچھ بالا دست اور کچھ زیر دست ہوتے ہیں ۔ ہر مخصوص طبقے کے نوجوانوں کی نشو نما مختلف حالات میں ہونے کی وجہ سے ان میں سماج کے لیے کچھ بہتر کرنے کی صلاحتیں بھی مختلف ہوتی ہیں۔ اس دنیا میں کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں نوجوان اپنی صلاحیتیں کیرئیر بہتر بنانے کی بجائے سماج میں رواداری اور حقیقی انصاف پر مبنی سماج کے قیام کے لیے استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ گو کہ پاکستان میں ایسی مثالیں کم ہیں مگر انہیں یہاں ناپید نہیں کہا جاسکتا۔ جن نوجوانوں کی انتہائی قلیل تعداد یہاں موقع پرست اکثریت سے مختلف راہ پر چلنے کی کوشش کرتی ہے بدقسمتی سے ان کا مستقبل تابناک نہیں سمجھا جاتا۔ یہ بات کسی المیے سے کم نہیں کہ جو نوجوان اس ملک میں معاشرتی اور معاشی عدم مساوات کا خاتمہ چاہتے ہیں ان کے مستقبل پر سوالیہ نشان ثبت کر دیئے جاتے ہیں حالانکہ یہ سوالیہ نشان ان نوجوانوں کے نہیں بلکہ اس ملک کے مستقبل پر ثبت ہیں ۔ جب تک اس ملک کے نوجوانوں کی اکثریت کو روادار بنا کر معاشرتی و معاشی انصاف پر مبنی نظام قائم کرنے کی طرف راغب نہیں کیا جاتا، اس وقت تک اس ملک کے مستقبل پر سوالیہ نشان موجود رہیں گے۔





