Column

بائیسکل کے نسل کُش زوال کا ذمہ دار، رقیب موٹر سائیکل

تحریر : امتیاز یٰسین
بائیسکل کو انسانی صحت پر ورزش کی صورت میں خوشگوار اثرات مرتب کرنے، ماحول دوست مواصلات، روڈ حادثات سے تحفظ، قومی دولت پٹرول سے بچت اور شہریوں کے ریونیو کی حفاظت کے بے پناہ خواص کی بنا پر 2018ء میں تین جون کو سائیکل کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا ۔ ملکی تاریخ میں تیل کی بلند ترین قیمتوں نے ہر شعبہ ہائے زندگی کی اشیاء ضروریہ کے نرخوں میں ہوش ربا حد تک اضافہ کر رکھا ہے۔ شہریوں کے لئے سفر کرنا دشوار ہو چلا ہے۔ نایاب ہوتے تیل سے عاجز آئے شہریوں میں سفر کے قدیمی ذریعہ سائیکل کی یاد تازہ کر دی۔ سوشل میڈیا اور عوامی مقامات پر کم خرچ سواری سائیکل پر گفتگو ہو رہی ہے۔ سائیکل کی کہانی کچھ یوں ہے سفر کی مشقت کو کم کرنے اور اسے آسان بنانے کے لئے زمانہ وقت کے رجحانات کے مطابق انسان پہیہ کی ایجاد کے بعد جانوروں کی سواری کے بعد مادی سواری کے ذرائع کی اختراعات میں سرگرداں ہو گیا۔ جو ایک دلچسپ اور حیران کن ایجاد بائیسکل کی شکل میں سامنے آئی ۔ بائیسکل جس کے لفظی معنی دور، چکر کے ہیں، ماضی کی یہ مُفرِط و معروف اور کثیر الاستعمال سواری عصرِِ حاضر میں تیزی سے معدام و متروک ہوتی جا رہی ہے۔ ماضی بعید کی یہ زمین پر بہتے تار کول کی رفتار سے چلنے والی لوکل سواری کے ساتھ ساتھ مان گمان، مفاخرت اور جسمانی ورزش کا بھی اہم ذریعہ سمجھی جاتی تھی۔ موٹاپا جس کا علاج مہنگی میڈیسن اور ورزش سے بھی نا ممکن ہوتا ہے، سائیکلنگ بہترین اور تیر بہدف طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ انسانی جسم میں پٹھوں کو توانا بنانے ، مدافعتی نظام کو تقویت ملنے کے ساتھ ساتھ زائد کیلوریز رفع ہو جاتی ہیں۔ زمانہ کی سبک رفتاری نے اس کی خرامی، مُعاصر سے تصادم، نرم و کم رو سواری کی بدولت اسے کاغذ کی نائو سمجھتے ہوئے اس کی اہمیت و ضرورت کو مسترد کر دیا ہے۔
پرانی سائیکل کی ایجاد کے بانی جرمنی کے بارون کارل فان ڈرائس تصور کئے جاتے ہیں۔ جنہوں نے12جون 1877ء میں یہ نادر و نایاب سواری بنا پیڈل کے ایجاد کی۔ البتہ جدید بائیسکل کے بانی سٹارلے ہیں جنہوں نے 1884ء میں اس دلپذیر ایجاد سے دنیا میں آب و تاب سے دھوم مچا دی۔ یقیناً یہ سود مند ہونے ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بُو العجب اور انسانی عقل کو ورطہ حیرت میں ڈالنے والی مقدم تخلیق تھی، کہ دو ویل کے سہارے سوار نہ صرف بیلنس قائم رکھتا ہے بلکہ اس کی ڈرائیو اور سفر سے بھی لطف اندوز ہو رہا ہوتا ہی۔ اس ماحول دوست سواری جو نہ ایندھن استعمال کرتی نہ ہی کاربن ڈائی آکسائڈ چھوڑتی کو زمانہ سلف سے ہی غریب کی سواری کا اعزاز حاصل رہا ہے۔ بائیسکل ڈیڑھ صدی کے لگ بھگ یہ اعزاز اپنے سر پر سجائے اس پر قابض رہا۔ مگر گزشتہ دو دہائیوں سے سائنس کے انقلاب اور حیرت انگیز ترقی نے جہاں دیگر متعدد ایجادات کی اہمیت کم کر کے قصہ پارینہ بنا دیا وہاں کاسہ پشت بائیسکل سے بھی اس سے غریب کی سواری کا اعزاز چھین کر اسے پستی و بے ثباتی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا۔ پاکستان میں گزرے وقت کی حسین یادیں چھوڑے بائیسکل سے اس کے مقام کا غاصب موٹر سائیکل کو قرار دیا جاتا ہے۔ جو گردشِِ دوراں میں ایک تہی دست کی سواری کا علمبردار بنے اپنی اہمیت کی دھاک بٹھا چکا ہے۔ بلکہ یہی نہیں ماضی کا سائیکل رکشہ عصر حاضر میں موٹر سائیکل رکشہ میں تبدیل ہو کر اپنی کامیابی کا سفر تیزی سے طے کر رہا ہے۔ دیکھنا ہے کہ موجودہ دور میں اگر موٹر سائیکل غریب کی سواری ہے تو متروک ہوتی بائیسکل کس طبقہ کی سواری ہے؟ اس کا استعمال سب سے پہلے اور زیادہ چائنہ میں ہوا اور ہو رہا ہے۔ جنہوں نے سائنسی ٹیکنالوجی میں انقلاب بر پا کر کے تیز رفتار ماڈرن لگژری گاڑیاں بنانے کے باوجود اس کا استعمال ترک نہیں کیا۔ ملک کے وزیر اعظم سے لیکر عام آدمی تک بائیسکل پر سوار نظر آتے ہیں جو جدت کے ساتھ روایت پسندی کا حسین امتزاج ہے۔ یہ لوگ اب بھی اپنی ثقافت اور پہچان کو برقرار رکھنے کے لئے ہفتہ میں ایک دن تمام خاص و عام کے لئے سائیکل کے استعمال کا دن مختص ہے۔ ڈنمارک میں اکثریتی آبادی کا ذرائع مواصلات سائیکل ہے۔ یہ تحریری ، فلموں کے کردار اور گیت سنگیت کا بھی محور رہا۔ جن فلموں نے عوامی مقبولیت و پذیرائی کے ساتھ ساتھ ریکارڈ بزنس بھی کئے۔ تمام سیاسی پارٹیوں نے سیاسی مقبولیت اور پذیرائی کے لئے غریب عوام کی فلاح و بہبود کے نعرے لگا کر اقتدار کی منازل طے کیں ان میں ایک سیاسی پارٹی نے تو سائیکل کو غریب کی گاڑی سمجھتے ہوئے اپنا انتخابی نشان بھی بنایا۔ ناپید ہوتی انسانی فزیکل فٹنس کے خواص کی حامل اس سواری کی قدر دانی کو دیکھتے ہوئے بڑی بڑی کمپنیوں نے ورزش کے لئے اس سے مشابہہ مشینیں مارکیٹس میں متعارف کرائیں جو جدید اور ماڈن جِم کا حصہ ہیں۔ اس کے محدود اور ترک استعمال کی وجہ سے کاروبار سے وابستہ دوکاندار مندے کا شکار اور گھروں میں مفلو ک الحالی کا راج ہے۔ بائسیکل نے اپنی نسل کی بقا، اٹھتی قدر اور تشفی کے لئے سٹوڈنٹس طبقہ کا رخ کیا مگر وہاں بھی اسے دوام اور قدامت پسندی نصیب نہ ہوئی۔ یہ ٹھکانہ بھی اس کے ہاتھ سے تیزی سے رختِ سفر باندھتا جا رہا ہے۔
سکول و کالجز میں بھی اس کے رقیب موٹر سائیکل نے اپنے پنجے گاڑنا شروع کر رکھے ہیں۔ آنے والی دہائی میں شاید یہ عظیم ایجاد جس پر پطرس بخاری سمیت کہنہ مشق ادیب نگاروں نے مضامین لکھے اور شاعروں نے شعر تخلیق کئے نئی نسل کو عجائب گھروں میں ملے، کسی پرانی فلم میں بطور عجوبہ اس کی جھلک نظر آئے ،یا پھر ہمیشہ کے لئے داغِ مفارقت دیتی بے نَیلِ مَرام تختہ خاک ہو جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے جب سہل پسندی اور بدلتے لائف سٹائل کی بدولت ورزش کے فقدان کے باعث نت نئی صحت کی پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہوں، گاڑیوں کے دھویں کے سبب فضائی آلودگی عروج پر ہو، پاکستان میں آئل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہوں ایسے میں ماحول دوست و انسان دوست، حادثات کی دشمن بلا خرچ اس سواری کے استعمال رجحان کو فروغ دینے کے اقدامات اٹھا کر گرتی صحت، فارمیسی اور فیول پر اٹھنے والے اخراجات اور فضائی آلودگی کم کئے جا سکتے ہیں۔ اس صحت مندانہ سرگرمیوں کے لئے سائیکل ٹریکس اور لین علیحدہ بنائے جائیں تاکہ گاڑیوں کی روانی متاثر نہ ہو۔

جواب دیں

Back to top button