Column

’’ شین‘‘ کا تختہ الٹنے کی سازش

تحریر : سیدہ عنبرین
ابھی کل کی بات ہے ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر 12ارب ڈالر، پٹرول ڈیڑھ سو روپے لٹر اور روٹی 10روپے میں دستیاب تھی، اچانک معلوم ہوا کہ حکومت حد درجہ نالائق اور معیشت ڈوب رہی ہے، ملک دیوالیہ ہونے کو ہے، لہٰذا نظام کی تبدیلی ناگزیر ہے، جو کرنا تھا کر لیا گیا، صاف شفاف لوگ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں سے ڈھونڈ کر انہیں اچھی طرح غسل صحت کروا کر نظام ان کے حوالے کر دیا گیا، جنہوں نے دن رات اپنی محنت اور قابلیت کے بل بوتے پر معیشت کو سیدھے راستے پر ڈالا، زرمبادلہ کے ذخائر 7ارب ڈالر تک آ گئے، ڈالر تین سو روپے کی قیمت پا کر بھی دستیاب نہ رہا، پٹرول پونے تین سو روپے تک جا پہنچا اور روٹی کا سفر طے ہوتے ہوتے 30روپے تک جا پہنچا، یہاں پہنچ کر خیال آیا کہ اتنی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو مستقل ملازمتیں فراہم کر دینا چاہئے تاکہ وہ مستقل مزاجی سے قوم کی خدمت کر سکیں، انہیں مزید ذہنی سکون مہیا کرنے کیلئے نیب کے قوانین بدل دیئے گئے تاکہ پکڑ دھکڑ کا خدشہ پرفارمنس پر اثر انداز نہ ہو اور بلا خوف و خطر کا کام کیا جا سکے۔ نیب کے ریمانڈ کی مدت پہلے کم کی گئی، پھر اپنا الو سیدھا ہو جانے کے بعد اس میں ایک مرتبہ پھر اضافہ کیا گیا ہے، اس کام کے پیچھے بھی ایک سائنس کارفرما ہے۔ پہلے نیب ریمانڈ کی مدت کم کرنے سے الو سیدھا ہوا تھا، اب اسے بڑھانے سے الو سیدھا ہو گا، یہ الو بھی عجیب ہے، کبھی ایک حال میں خوش رہتے ہیں، کبھی اسی حال میں ناخوش، الو کی خوشی میں سب کی خوشی کا راز پنہاں ہے۔
قوم اپنے صدمات سے باہر نہ آئی تھی کہ 83کروڑ بجلی یونٹس کی ڈکیتی ہو گئی، ڈاکو رنگے ہاتھوں پکڑے گئے، ہاہا کار مچی تو بتایا گیا کہ ڈاکوئوں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی، انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا، کام اور نعرہ تو بہت اچھا تھا لیکن اس کیلئے تو کردار کی ضرورت ہوتی ہے وہ دستیاب نہ تھا پس انتظار کریں۔ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے دعویداروں کی کردار سازی کیلئے کوئی فیکٹری لگے پھر کردار سازی شروع ہو گی، اس وقت تک آپ کسی نئی بجلی ڈکیتی کا انتظار کریں۔
بجلی ڈکیتیاں ہمارے نظام کا مستقل حصہ ہیں، جو بدمعاشوں کی حکومت میں ہوا کرتی تھیں، اب شرافت کی سیاست ہے، شریف حکومت ہے، اس کا ویژن ملاحظہ فرمایئے۔ بجلی چوری روکنے کا ایسا طریقہ ایجاد ہوا ہے جو دنیا میں کہیں اور نہیں۔ ایک گلی میں اگر 50گھر ہیں، 40اپنی خرچ کردہ بجلی کا بل بروقت ادا کرتے ہیں، 10چور ہیں تو اس گلی میں لوڈ شیڈنگ اس لئے ضروری ہے کہ 10چور چوری کرتے ہیں اور چوری سے باز نہیں آ رہے، بجلی چوری نہ کرنے اور بل بروقت ادا کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بجلی چوری کو روکیں، ورنہ اعلانیہ اور غیر علانیہ لوڈ شیڈنگ کا عذاب بھگتیں، اس معاملے میں بجلی ڈسٹری بیوشن کمپنی کے مراعات یافتہ افسران سے لے کر لائن مین تک اور جعلی بجلی کے بل بنانے، جاری کرنے والے مافیا ارکان سب بے قصور ہیں۔ ان کی اس حوالے سے کوئی ذمہ داری نہیں بنتی، پس ان کی موج جاری رہے گی، شرافت کی سیاست و حکومت اس مرتبہ کچھ اس انداز میں آئی ہے کہ اس کے سر پر سفید گول ٹوپی نہیں ہے، اس مرتبہ اس نے نئے زمانے کے فیشن کے مطابق چہرے پر سیاہ ماسک چڑھا رکھا ہے، جس نے ماسک چڑھا رکھا ہے، وہ کسی کو جواب دہ نہیں، مگر ٹوپیاں اس خوبی سے گھما رہا ہے کہ آپ داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ایک طرف پٹرول 4روپے سستا تو دوسری طرف بجلی کے فی یونٹ میں اتنا ہی اضافہ کر دیا جاتا ہے، ساتھ ہی اعلان کہ عام آدمی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، آزاد کشمیر میں چلنے والے عوامی ٹریلر نے سوچنے پر مجبور کیا تو انہیں ریلیف مل گیا، ابھی ملک کے دیگر حصوں میں بسنے والوں کو اس قابل نہیں سمجھا گیا شاید انتظار کیا جا رہا ہے کہ بچہ روئے گا تو دادا ابو ریلیف دینے کا سوچیں گے، ورنہ دودھ کی بالائی سمیٹیں گے اور کسی اور کی تقدیر بدل دینے کا فریضہ انجام دیں گے۔
تین روز قبل خبر خود لیک کی گئی کہ حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے ایک کارنامہ کر گزرنے کا پروگرام ہے، پٹرول کی قیمتوں میں 15روپے فی لٹر ریلیف دیا جائے گا، سمری تیار ہو گئی، پیش کر دی گئی، کیا اس پر وزیراعظم نے دستخط بھی کر دیئے؟، ریلیف اور نئی قیمت کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہو گیا؟، پٹرول پمپوں پر سیل شروع ہونے ہی والی تھی کہ دوسری اطلاع آ گئی، جس کے مطابق پہلا ریلیف اور نوٹیفکیشن منسوخ کر کے بتایا گیا کہ پٹرول پر ریلیف پونے پانچ روپے فی لٹر ہے،15روپے نہیں، جھگڑے شروع ہو گئے، رات اسی سر پھٹول میں گزر گئی، صبح بتایا گیا کہ بیوروکریسی نے غلطی سے پچھلی مرتبہ والی سمری بھیج دی، جس پر معزز وزیراعظم نے دستخط فرمانے سے قبل اس پر غور کرنے کا کہا اور پھر نئی سمری آنے پر اس کو منظور کر لیا، تاثر یہ دیا گیا کہ بیوروکریسی کی غلطی تھی، گویا نالائق وہ ہیں، کوئی اور نہیں حالانکہ بیوروکریسی میں موجود شخصیات اعلیٰ تعلیم یافتہ اور زبردست تجربے کی حامل ہیں۔ فائل کئی ہاتھوں سے گزرتی ہے، اس قسم کی بھونڈی غلطی کا کوئی ذرہ بھر امکان نہیں ہوتا، فرض کر لیجئے یہ ہو گیا تو پھر آج کئی روز بعد تک ذمہ داروں کا تعین کیوں نہ ہوا، کچھ لوگ برخاست معطل کیوں نہ ہوئے یا او ایس ڈی کیوں نہ بتائے گئے؟۔ کیا چاند کی چودھویں کا انتظار ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ میدان سیاست میں کچھ دو جماعت پاس اور ڈائریکٹ حوالدار ذہنی سطح کی شخصیات موجود ہیں بیوروکریسی میں نہیں، خواہ مخواہ ان کا منہ کالا کیا۔ ذرائع خبر دیتے ہیں کہ غلطی کہیں بھی نہیں تھی، پس لاہور کی ایک نواحی بستی میں یہ سوچ ابھری کہ اتنا بڑا ریلیف دیا گیا تو ’’ شین‘‘ کی تو واہ واہ ہو جائے گی، وہ تو پکا ہو جائے گا، لہٰذا یہ فیصلہ تبدیل کرائو تاکہ ’’ شین‘‘ اور اس کی ٹیم کو نکما سمجھا جائے اور نون کی گنجائش بن سکے، ورنہ شین دو ایک ایسے فیصلے کر گیا تو پھر اسے پکڑنا مشکل ہو جائے گا۔ راولپنڈی کی آنکھ کا تارا تو ویسے بھی ہے۔
ایک دوسرے دھڑے کی سوچ ہے کہ ’’ شین‘‘ کو دھندے سے لگا رہنے دو، وہ وہاں سے فارغ ہوا تو پنجاب میں پناہ پائے گا، یوں پنجاب میں پہلے قبضہ جمائے بیٹھے ہیں، وہ بے گھر ہو جائیں گے، ہم وہ بدقسمت لوگ ہیں جہاں کسی بھی شخص کی قابلیت اس کی ترقی کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے، جبکہ کسی شخص کی نااہلی اس کیلئے ترقی کا زینہ بن جاتی ہے۔
بجلی ڈکیتی گروپ نے نیا طریقہ واردات ڈھونڈا ہے فرض کیجئے پہلے بجلی کا میٹر 2سو چکر کاٹنے کے بعد ایک یونٹ گراتا تھا تو اب وہ سو چکر کاٹ کر ایک یونٹ گراتا ہے، یوں بجلی 100فیصد مہنگی اور اس پر نیا عذاب ہر ماہ بعد نئی قیمت فیول ایڈجسٹمنٹ میں لوٹ مار اور اس کے علاوہ 16قسم کے ٹیکس عذاب دو عذاب کا درجہ رکھتے ہیں۔محلاتی سازشیں عروج پر ہیں، کچھ نیا کر دکھانے کے شوق میں بازی لے جانے کا ذوق سر چڑھ کر بول رہا ہے، دنیا بھر کو نااہل ثابت کر کے چانس لینے کیلئے ہاتھ پائوں مارے جا رہے ہیں، پٹرول ریلیف کا معاملہ ’’ شین‘‘ کا تختہ الٹنے کی کوششیں تو نہیں؟۔

جواب دیں

Back to top button