Column

معاشرتی زوال سے جڑا ادبی زوال

تحریر : عدنان خالد
جب مجموعی عمومی مزاج دھونس دھاندلی اقربا پروری اور میرٹ کی دھجیاں بکھیرنے پر آمادہ ہو تو ہر شعبہ اہلیت و قابلیت سے عاری ہو جاتا ہے، بونے اور بھونڈ ے لوگ مسندِ اختیار تک پہنچ جاتے ہیں۔ بد قسمتی سے میرٹ کی حوصلہ شکنی کے باعث دیگر شعبوں میں دیکھا جانے والا انحطاط اور غیر معیاری پن ادب میں بھی واضح دکھائی دینے لگا ہے۔ شاعری ادب کا سب سے اہم اور سب سے پرکشش شعبہ ہے۔ ادیبوں خاص کر شاعروں میں گروہ بندیاں کوئی نئی بات نہیں،اپنے ہم خیالوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے، اپنے استاد کا علم سربلند رکھنے ، مشاعروں میں اپنے منظورِ نظر شاعروں کو بے تحاشا و بے ضرورت داد و تحسین سے نواز کر دوسروں کو نیچا دکھانے اور بطور شاعر مختلف سہولیات و مراعات حاصل کرنے کا عمل ہر دور میں جاری رہا لیکن آپس کے اختلافات اور مفادات کے ٹکرائو کے باوجود کسی نہ کسی حد تک اہل اور قابل حق داروں کو بہر حال ان کا حق مل جایا کرتا تھا۔ مخالفین تک کے فن کی قدر شناسی ضرور کی جاتی تھی، ایسا نہ کرنے کو ادبی بددیانتی جانا جاتا تھا۔ سوشل میڈیا کے آنے سے قبل مرکز اور مضافات کی بحثیں بہت توجہ طلب ہوتی تھیں۔ ایک سرکاری ٹی وی چینل اور اخبارات کے ادبی ایڈیشنوں میں مراکز کے لوگوں کا اثر انداز ہو کر سامنے آنا موضوعِ بحث ہوتا تھا ۔مضافات میں بسنے والے اپنی عدم پذیرائی اور نظر انداز کیے جانے کے شکوے کرتے نظر آتے تھے۔ کسی حد تک مراکز میں مقیم شعرا کا اجارہ واضح طور پر نظر بھی آتا تھا اس وقت بھی طاقتور گروہ اور نسبتاً کم طاقتور گروہوں کے پیروکار ایک دوسرے سے الجھتے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں مصروف رہا کرتے تھے بہر حال مضافات میں بسنے والوں کے شکوئوں میں وزن تھا۔ اختلافات نظریاتی ہوتے تھے جن میں شخصی کوتاہیوں کو موضوعِ بحث نہیں بنایا جاتا تھا۔ شائستگی اور اخلاقیات کا بہ ہر حال خصوصی طور پر خیال رکھا جاتا تھا ۔ شعر اور شاعری کبھی معاشرتی رویوں، عصری تقاضوں اور معاشرتی بگاڑ کا باعث بننے والے عوامل کی نشاندہی کرتے اور ان کے تدارک کا بڑی لطافت سے اظہاریہ ہوتے تھے۔ لیکن پھر حالات بدلنے لگے سوشل میڈیا نے سب کو اپنا فن اور کام سامنے لانے کے مواقع دیے لیکن ساتھ ساتھ لوگوں کے شعری و ادبی مذاق کو تنزل آشنا بھی کرنا شروع کیا ۔اساتذہ کی محفلیں اجڑ کر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز میں بدل گئیں۔ تنقید نقد و نظر کے منصب سے گر کر ذاتی پسند نا پسند کے ہاتھوں کھلونا بننے لگی۔ کچا پکا جو آئے سرِ بازار نمائش کے لیے پیش کرنے کا چلن عام ہوا۔ مشاعرے جیسی تاریخی ادبی روایت اور تربیت گاہ نے ویڈیوز اور رِیلز کے ہاتھوں اپنی بے توقیری ہوتے دیکھی۔ اسی بے توقیری نے مشاعرے کے آداب اور ماحول کو بھی پراگندہ کر دیا۔ انتہائی سطحی اور غیر معیاری شاعری کو شاعری کی سند عطا کی جانے لگی ہے۔ ایسی اسناد جاری کرنے میں کوئی عار اس لیے بھی محسوس نہیں گئی کہ فی زمانہ ٹک ٹاکر شعرا کی مشاعروں میں مانگ کی بدولت، سندیں جاری کرنے والے چند مفاد پرست سینئرز کی بھی روزی روٹی کسی نہ کسی طور انہی سطحی مشاعروں کی بدولت چل رہی ہے ۔ پھر آج کے چند سینئر بھی خاصے سمجھدار ہو چکے ہیں انہیں معلوم ہے کہ آج مشاعرہ صرف ایک ادبی سرگرمی یا شعر کی ترویج کا باعث نہیں رہا یہ باقاعدہ ایک کمرشل ایکٹویٹی کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔ کس شاعر کو کتنے مشاعرے ملتے ہیں اور ان کا اسے کتنا معاوضہ ملتا ہے اس پیمانے پر کسی کے قد کاٹھ کا تعین کیا جانے لگا۔ آج مشاعرہ شعری تربیت گاہ کی بجائے ایک تفریح گاہ کا روپ دھار چکا ہے۔ کالجز اور یونیورسٹیوں کے زیادہ سے زیادہ مشاعرے حاصل کرنے کی ہوس میں مشاعرہ بازوں نے نوجوانوں کے جذبات ابھارنے کے لیے ہیجان انگیز موضوعات پر شاعری کر کے داد بٹورنے کو شہرت کی کلید جان لیا۔ ادب خصوصاًشاعری معاشروں کی تشکیل اور تربیت میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے آج ہمارے معاشرتی رویے اس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ ہمارا ادیب رجحان ساز بننے کی بجائے سامعین کے مزاج کا پابند ہو گیا ہے اور اس کی واحد وجہ مشاعرے کا معاوضہ اور داد کی حصولیابی کی ہوس ہے۔ سرکاری ادبی اداروں میں بھی اسی باعث لابنگ کرنے والے نا اہلوں نے پنجے گاڑ رکھے ہیں جو مستحق اور حق دار ادیبوں کا خون نچوڑ کر اپنی دکان داریاں جمائے بیٹھے ہیں۔ انہی کے باعث سرکاری اعزازات کی بندر بانٹ نے ان اعزازات کی وقعت و اہمیت کو بے توقیر کر دیا ہے۔ سرکاری سطح پر سرکاری و نیم سرکاری اداروں کے تحت ہونے والے مشاعروں اور کانفرنسوں میں کئی کئی سالوں سے چند ایک چہرے اپنی لابنگ کے بل پر تسلط جما کر بیٹھے ہیں۔
صاحبانِ حیثیت، بیوروکریٹ اور صاحبانِ اختیار ان مشاعروں کے بھاری بھرکم اعزازیے وصول کرتے ہوئے شرمندگی تک محسوس نہیں کرتے کہ وہ مستحق شاعروں اور ادیبوں کے حق پر ڈاکہ زن ہو رہے ہیں۔ جینوئن شاعر ادیب اگرچہ اس ساری صورتحال سے بے نیاز اپنا کام جاری رکھ کر اپنا فریضہ ادا کر رہا ہے لیکن اس کی آواز مسخروں کے شور میں دب کر نظر انداز ہو رہی ہے۔ صاحبانِ ادراک اس صورتحال کی نزاکت سے بخوبی آگاہ ضرور ہیں لیکن با اثر ادبی گروہوں کی گرفت اور ان کے شر کے باعث مصلحت پسندی سے کام لینے پر مجبور ہیں۔ کوئی اس خطرے سے آگاہ نہیں ہونا چاہ رہا کہ یہ فکری دھاندلی قوم کی مسلسل گرتی اخلاقی اقدار اور شعوری تنزلی میں تباہ کن حد تک اضافہ کا باعث بن رہی ہے۔ سرکاری عہدوں پر اپنے تعلقات کی بناء پر قابض نام نہاد لوگ ان سرکاری اداروں کی وقعت و اہمیت اور ساکھ کا بیڑا غرق کرنے کے ساتھ ساتھ کسی تخلیقی کام کی راہ میں پتھر بنے بیٹھے ہیں۔ سرکاری اداروں کی گورننگ باڈیز میں شامل رہ کر اپنے ذاتی ایجنڈوں، اپنے پرائیویٹ اداروں کی ترقی اور اپنی معاشی ہوس کے اسیر بن کر گمراہ کن کردار ادا کرنے والے ادب کے اس اہم ترین شعبے کو اجاڑ نے کے درپے ہو چکے ہیں۔ یہ جی حضوری کے عادی لوگ کسی احمد فرہاد یا کسی لکھاری کے حق میں آواز بلند کرنے سے صرف اس لیے ڈرتے ہیں کہ ان کے مقرر کردہ وظیفوں میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ یہ فنی اناتک کو بیچ چکے ہیں۔ فکری تربیت کی بجائے لایعنیت اور ہیجان انگیز شاعری کو پرموٹ کرنے میں ایسے عناصر بنیادی طور پر مجرم ہیں جو فکری بالغ نظری کو فروغ دینے میں بوجوہ رکاوٹ بنے بیٹھے ہیں، کیونکہ ان کی دکان داریاں اسی کے باعث چل رہی ہیں۔ اس تنزلی پر بروقت غور و فکر نہ کیا گیا تو ادبی مذاق کی تباہی، سطحی اور عامیانہ سوچ کی پیدائش کے علاوہ اور کوئی کارنامہ سرانجام نہ دے پائے گی۔ منافقت اور ذاتی مفادات کے اسیر ایسے لوگوں کا راستہ روکنا اور اہل لوگوں کو سامنے لانے کے لیے راستے ہموار کرنا اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن چکی ہے۔ ورنہ ادب کو کاروبار سمجھ کر چلانے والے یہ نا عاقبت اندیش فکری طور پر قوم کا دیوالیہ ہوتا دیکھنا چاہتی ہیں ان کی سازشوں کو روکنے جینوئن، حق دار اور اہل لوگوں کی حوصلہ افزائی کے لیے سب ادیبوں کو ہم آواز اور مصلحتوں سے بے نیاز ہونا پڑے گا۔

جواب دیں

Back to top button