محاصرہ

تحریر : محمد مبشر انوار (ریاض )
غزہ کی صورتحال دن بدن کشیدہ ہورہی ہے بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ایک طرف اسرائیل ، امریکی آشیرباد اور اسلحہ کی بدولت غزہ کے مسلمانوں کو چند دنوں/مہینوں میں نیست و نابود کرنے کی طرف گامزن ہے تو دوسری طرف دنیا کی ایک چوتھائی آبادی اپنے نہتے مسلم بہن بھائیوں کے قتل عام پر عملا کچھ بھی کرنے سے قاصر دکھائی دے رہی ہے۔ مسلم حکمرانوں کو اندازہ ہی نہیں یا وہ کبوتر کی طرح ریت میں سر دئیے بیٹھے ہیں کہ یہ عذاب اسرائیل فقط غزہ کے مسلمانوں تک ہی محدود رہے گا، صرف گفتار کے غازی بنے دکھائی دیتے ہیں یا اپنی ریاستوں میں غزہ کی حمایت میں نکلنے والے جلسوں ،جلوسوں کو روکنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں بالعموم ایسے کسی احتجاج کی اجازت ہی نہیں اور حکمران براہ راست ان معاملات سے نپٹنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ وہ مسلم ممالک جہاں جمہوری طرز حکومت ہے، وہاں کی صورتحال بھی انتہائی مخدوش دکھائی دیتی ہے اور عوام کو ایسے احتجاج کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی، جبکہ کسی زمانے میں ایسے ظلم و ناانصافی پر ریاستی سطح پر احتجاج کیا جاتا رہا ہے۔ اس کے برعکس غیر مسلم لیکن جمہوری معاشروں کی صورتحال کلیتا مختلف ہے اور وہاں نہ صرف طلباء و تارکین بلکہ مقامی آبادی بھی اسرائیل کی بربریت کے خلاف مظاہرے کرتی دکھائی دیتی ہے تاہم امریکہ کے صدارتی امیدوار ٹرمپ نے یہ اعلان ضرور کیا ہے کہ اگر وہ برسراقتدار آ گئے تو ایسے مظاہروں کو کچلنے میں کسی تامل کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔ اس کے باوجود تاحال امریکی سرزمین پر اسرائیلی بربریت کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے لیکن حکومت وقت کے کانوں پر کسی قسم کی جوں تک نہیں رینگ رہی بلکہ وہ اسرائیل کی حمایت میں خم ٹھونک کر کھڑی دکھائی دیتی ہے۔ بظاہر عالمی رائے عامہ اور مسلم حکمرانوںکے مطالبے پر دورے ضرور جاری ہیں، گفت و شنید بھی جاری ہے لیکن غزہ میں نہتے مسلمانوں کا قتل عام اور نسل کشی میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نظر نہیں آ رہی حتی کہ عالمی عدالت جرائم و انصاف کی جانب سے واضح احکامات کے باوجود نہ تو اسرائیل غزہ میں امدادی کارروائیوں کی اجازت دے رہا ہے اور نہ ہی بربریت سے رک رہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ شدید دباؤ کے باعث، امدادی سامان لے جانے والے ٹرکوں کو براہ راست رفح کراسنگ سے غزہ میں داخلے کی اجازت تک نہیں دی بلکہ انہیں کیرم شیلون، جو اسرائیل کے تحت راستہ ہے، وہاں سے ان ٹرکوں کو نگرانی میں گزارا گیا لیکن اس امداد کو غزہ کے متاثرین تک نہیں پہنچنے دیا گیا بلکہ راستے میں اس امداد کو ہڑپ لیا گیا۔ اسرائیل کو بخوبی علم ہے کہ عالمی اداروں میں بیٹھے ہوئے اہلکاروں کی حیثیت اتنی نہیں کہ وہ اسرائیل کے ظلم و ستم پر اس سے بازپرس کر سکیں کجا اس کے ہاتھ روک پائیں، لہذا اسرائیل بغیر کسی مشکل و پریشانی کے اپنے تمام تر منصوبوں کو مطمئن انداز سے پایہ تکمیل تک پہنچا رہا ہے۔ اسرائیل کو یہ بھی علم ہے کہ جب اس کے ہاتھ، عالمی ادارے جو امن عالم کے بظاہر ضامن بنے بیٹھے ہیں، وہ نہیں روک سکتے تو مسلم دنیا جو درون خانہ خوف کا شکار ہے یا اس کے ہاتھ بھی عالمی طاقت نے باندھ رکھے ہیں یا اپنے اقتدار کے عوض اپنی حمیت و غیرت گروی رکھ چکے ہیں، جن کا دفاع غیر مسلموں کے ہاتھ ہے، کیسے اور کس طرح اسرائیل کا مقابلہ میدان میں کر سکیں گے؟ یہی وجہ ہے کہ جنگ بندی کے حوالے سے جو معاہدہ یا پیشرفت بھی ہوتی ہے، اسرائیل اسے حقارت سے روندتا ہوا، درخور اعتنا نہیں سمجھتا اور مسلسل غزہ کو نیست و نابود کرتا جا رہا ہے، ابھی حال ہی میں اس نے جو بم غزہ میں استعمال کیا ہے، اس کی تباہ کاری سے کتنی انسانی جانیں کیسے نگلی ہیں، دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے لیکن اس کے باوجود مسلم دنیا عملا کچھ بھی کرنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے۔گمان یہی تھا کہ اسرائیل صرف غزہ تک محدود نہیں رہے گا بلکہ وہ دیگر اسلامی ممالک کو بھی للکار کر، اکسا کر اس جنگ میں گھسیٹے گا تا کہ کسی نہ کسی طرح حتمی طور پر مسلم ممالک کی کمر توڑ دے گو کہ تنہا اسرائیل اس قدر بہادر نہ تھا اور نہ ہے تاہم امریکی پشت پناہی نے اسے اتنی جرآت دے رکھی ہے کہ وہ نشے میں دھت چوہے کی طرح، اپنے پڑوس میں ہر کسی کو للکار رہا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سعودی عرب، قطر اور مصر توانا آواز بھی پیش منظر سے غائب دکھائی دے رہی ہے کہ اسرائیل کو جو معاہدہ بھی دیا گیا ہے، اسرائیل اس پر قائل ہونے کے لئے قطعی تیار نہیں گو کہ سعودی عرب کا لائحہ عمل اس حوالے سے تبدیل دکھائی دے رہا ہے اور وہ امریکہ سے دفاعی معاہدے کے عوض غزہ میں جنگ بندی کا متمنی ہے لیکن بدقسمتی سے امریکی بدنیتی اس نسل کشی کو روکنے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتی۔ اگر امریکہ آج نیک نیتی سے غزہ میں جاری نسل کشی کو رکوانے پر قائل ہو جائے تو یہ ممکن نہیں کہ اسرائیل کے ہاتھ نہ روک سکے لیکن درپردہ امریکہ یہ چاہتا ہی نہیں اور اس کی خواہش بھی یہی دکھائی دیتی ہے کہ جنگ کی یہ آگ مسلسل بھڑکتی رہے اور امریکی اسلحہ سازی کی صنعت کو فروغ ملتا رہے وگرنہ عالمی عدالت جرائم کا فیصلہ بروئے کار آ جاتا یا سیکورٹی کونسل کی قراردادوں کے مطابق اسرائیل کی گو شمالی کے لئے امریکہ و حلیف برسرپیکار دکھائی دیتے بعینہ جیسے عراق و افغانستان میں نظر آئے۔ عراق و افغانستان میں اترنے والی امریکی و حلیف افواج، ان امریکی شہریوں کے لئے میدان جنگ میں نظر آئی کہ جو امریکہ کے بقول مسلم دہشت گردوں کے حملے کی نذر ہوئے اور کرہ ارض پر ایک امریکی شہری کی قیمت ہزاروں /لاکھوں مسلمانوں کے خون سے بھی پوری نہیں ہو سکتی جبکہ غزہ میں یہی کام امریکی بغل بچہ اسرائیل بخوبی سرانجام دے رہا ہے تو امریکہ اس کا ہاتھ کیوں روکے؟ حد تو یہ ہے کہ جنگی آگ کے شعلے اب مصر کی سرحدوں تک پھیل رہے ہیں کہ اسرائیلی منصوبے کے برعکس مسلم ممالک اس جنگ میں کودنے سے گریزاں ہے گو کہ اسرائیل نے اپنے تئیں ہر ممکن کوشش کر ڈالی کہ کسی طرح ایران کو براہ راست انگیخت کر کے اس میدان میں لایا جائے اور میدان جنگ کو غزہ /اسرائیل سے باہر لے جایا جائے لیکن ایران نے قدرے تحمل کا مظاہرہ کیا اور ابھی تک براہ راست اس جنگ میں شامل نہیں ہوا۔ تاہم اگر مسلم ممالک کی طرف سے عملی کوششوں کو دیکھا جائے تو اس وقت صرف ایران ہی وہ واحد اسلامی ملک ہے جو بالواسطہ اسرائیل کے ساتھ معرکہ آرا ہے کہ خواہ لبنان میں حزب اللہ کے توسط سے ہو یا پھر یمن میں حوثیوں کی صورت میں اسرائیل کو مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو، اس کے پیچھے ایران ہی تصور ہوتا ہے۔ اس کی قیمت بھی ایران نے بخوبی چکائی ہے کہ ایک طرف شام میں اس کے سفارتخانے کو نشانہ بنایا گیا ہے تو دوسری طرف اپنے دعوے کے عین مطابق، اس کے صدر ابراہیم رئیسی کو بھی نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ ایران ایک مرتبہ پھر، انتہائی قیمت چکانے کے باوجود، تحمل و برداشت کے ساتھ مناسب وقت کا منتظر دکھائی دیتا ہے کہ ایسی کارروائیوں کے لئے اندھا دھند اقدام بالعموم نقصان دہ ثابت ہوتا ہے، اس کی دوسری وجہ بھی واضح ہے کہ کوئی بھی دوسرا اسلامی ملک اس وقت اس جنگ میں اترنے کے لئے تیار دکھائی نہیں دیتا۔حد تو یہ ہے کہ اسرائیل کے بالکل پڑوس میں مصر، جو بڑی فوجی قوت ہے، وہ بھی براہ راست اس جنگ میں اترنے کے لئے تیار نہیں گو کہ اس کے پس پردہ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اس معاملے کو فی الوقت خوش اسلوبی سے نپٹانا ہے تمام سٹیک ہولڈرز کا مطمع نظر ہے لیکن معاملات اب اس نہج سے کہیں آگے جاتے دکھائی دیتے ہیں کہ اسرائیل ہر صورت دیگر اسلامی ممالک کو اس جنگ میں کھینچنے کی شعور ی کوششوں میں ہے۔ رفح کراسنگ سے متصل فلاڈیلفی کوریڈور، جو غزہ اور مصر کے درمیان مسلمہ بفر زون ہے، اسرائیل اس پر قابض ہو چکا ہے، علاوہ ازیں مصری فوج کے ساتھ باقاعدہ جھڑپوں کی اطلاعات میں، مصری فوجیوں کی شہادت بھی منظر عام پر آچکی ہے، اس کے باوجود مصر کی جانب سے ماسوائے احتجاج اور اسرائیل کو وارننگ دئیے جانے، ہنوز کوئی عملی کارروائی دکھائی نہیں دی۔ گو کہ اسرائیل کے فلاڈیلفی کوریڈور پر قابض ہونے سے بظاہر اسرائیل افواج ازخود ایک شکنجے میں پھنسی دکھائی دیتی ہیں لیکن درحقیقت اسرائیل نے غزہ کا کامیاب محاصرہ کیا ہے کہ اسے علم ہے کہ مصر کی طرف سے اسے فوری کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا ،بالفرض خطرے کی صورت میں اسرائیلی منصوبہ ہی کامیاب ہو گا کہ وہ فوری طور پر مصر کو جنگ میں گھسیٹنے میں کامیاب ہو جائے گا بصورت دیگر غزہ کو محاصر ے میں لے کر نسل کشی کرنے میں کامیاب رہے گا، جبکہ دیگر کو بعد میں دیکھا جاسکتا ہے۔





