
تحریر : سی ایم رضوان
دنیا کے زیادہ تر ممالک میں اس وقت جمہوری نظام حکومت رائج ہے۔ آج کی دنیا کے لئے بہترین قرار پانے والے اس نظام حکومت کو خاص طور پر پچھلے ایک عشرے سے پاپولزم کی سیاست کے ذریعے آلودہ کیا جا رہا ہے جس کے تحت امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ، پاکستان میں 2018ء سے عمران خان اور ایک عشرہ ہوا بھارت میں نریندرا مودی کامیاب ہوگئے۔ اس طرح دنیا کی طاقت کے مرکز امریکہ، دنیا کی نمایاں مسلم ایٹمی طاقت پاکستان اور دنیا میں ایک بڑی اور مختلف مذاہب کی حامل آبادی میں قائم شدہ جمہوری نظام حکومت میں ایسے لوگ حکمران بن گئے جو کام کی بجائے نعرے اور تعمیر کی بجائے تخریب کو بھی اپنے حق میں معاون قرار دیئے جانے کا وہ جادو رکھتے ہیں جسے پاپولزم کہتے ہیں۔ ایسے لیڈرز گو کہ اکثریت کے پسندیدہ ہوتے ہیں مگر جن ملکوں پر یہ حاکم ہو جائیں وہاں ترقی تو دور کی بات مثبت کام ہونا بھی مشکل ہوتے ہیں۔ امریکہ، پاکستان اور بھارت کے سنجیدہ مزاج عوام اس پاپولزم کی قباحتوں کا مزہ ابھی بھی چکھ رہے ہیں اور ان کو واضح طور پر محسوس ہو رہا ہے کہ کس طرح ان ممالک کی ترقی اور اصل شناخت اس قباحت نے خطرات سے دوچار کی ہی مگر اب حالات نے خود ہی اس عفریت کو ان تینوں ممالک میں مشکل سے دو چار کر دیا ہے۔ ایک طرف امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک مقدمہ میں تاریخی فیصلے میں مجرم قرار دیئے جانے کے بعد اب دنیا بھر میں غیر یقینی کے عالم میں یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا اب وہ صدارتی انتخاب لڑ پائیں گے؟ کیونکہ نیویارک کی ایک عدالت نے اس تاریخی فیصلے میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ہش منی کیس میں مجرم قرار دیا ہے۔ یہ سزا 11جولائی کو باقاعدہ طور پر سنائی جائے گی۔ تاہم ٹرمپ نے اس فیصلے کو شرمناک اور دھاندلی والا قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اسے اس فیصلے کے خلاف اپیل کا حق حاصل ہے اور یہ فیصلہ اپیل میں اڑ جائے گا۔ امریکی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی موجودہ یا سابق پاپولر صدر کے خلاف فوجداری مقدمہ چلایا گیا اور اسے سزا سنائی گئی۔ ادھر امریکی صدر جو بائیڈن کی انتخابی مہم چلانے والی ٹیم نے اس فیصلے کو یہ کہہ کر درست قرار دیا ہے کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ ریپبلکن پارٹی کی طرف سے امریکی صدارتی امیدوار ہیں۔ سزا سنائے جانے کے بعد ٹرمپ کی انتخابی مہم کی ٹیم نے انہیں سیاسی قیدی کے طور پر پیش کیا اور دعویٰ کیا ہے کہ اس کے بعد بڑی تعداد میں لوگوں نے چندہ دیا۔ بائیڈن حکمران جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار ہیں۔ ان کی مہم چلانے والی ٹیم نے کہا ہے کہ ٹرمپ کو ابھی بھی بیلٹ سے شکست دینا باقی ہے۔ ٹرمپ کو2016ء کے صدارتی انتخابات سے قبل پورن سٹار اسٹارمی ڈینئلز کو خاموش رہنے کے بدلے رقم کی ادائیگی ( ہش منی) چھپانے اور اپنے کاروباری ریکارڈ میں ہیر پھیر کرنے سے متعلق 34الزامات کا سامنا ہے۔ البتہ ٹرمپ نے اپنے خلاف دستاویزات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے تمام الزامات کی تردید کی ہے۔ انہوں نے اسٹورمی ڈینیئلز کے ساتھ جنسی تعلق سے بھی انکار کیا ہے۔ سزا پانے کے باوجود ٹرمپ رواں برس نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں امیدوار رہ سکتے ہیں کیونکہ امریکی آئین میں صدارتی امیدوار کے لئے نسبتاً کم سے کم اہلیت کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے کہ کم از کم 35سال کی عمر، ریاست ہائے متحدہ کا تاحیات شہری ہونا اور کم از کم 14سال سے ریاست ہائے متحدہ میں رہنا۔ یاد رہے کہ مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والوں کو بھی الیکشن لڑنے سے روکنے کا کوئی قانون نہیں ہے یہاں تک کہ جیل میں بند شخص بھی صدارتی انتخاب لڑ سکتا ہے تاہم ٹرمپ کے ایک اخلاقی جرم میں مجرم قرار دیئے جانے کو اکثر مبصرین ان کی شکست قرار دے رہے ہیں۔
ادھر بھارتی سیاسی جماعت کانگریس کے صدر ملکارجن کھڑگے نے دعویٰ کیا ہے کہ حالیہ چار مرحلوں کے لوک سبھا انتخابات کے بعد مودی کے خلاف انڈیا اتحاد مضبوط پوزیشن میں ہے۔ واضح ہو رہا ہے کہ عوام نے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کو الوداع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق ملکارجن کھڑگے نے لکھنو میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا الائنس 4جون کو نئی حکومت بنائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پورے ملک کا جو انتخابی ماحول ہے اس کو دیکھتے ہوئے ہم یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ اگلی حکومت ہماری ہے۔ یہ جمہوریت اور آئین کو بچانے اور ایک نظریے کا الیکشن ہے جس میں ایک جانب غریبوں کے حقوق کی محافظ ٹیمیں متحد ہو کر الیکشن لڑ رہی ہیں اور دوسری جانب وہ ٹولہ ہے جو اندھی عقیدت اور مذہب کی بنیاد یعنی پاپولزم کی بنیاد پر الیکشن لڑ رہا ہے۔ کھڑگے نے کہا کہ ہمیں اطلاعات ملی ہیں کہ انڈیا اتحاد آگے اور بی جے پی پیچھے ہے۔ بی جے پی لیڈر آئین کو بدلنے کی بات کرتے ہیں لیکن مودی خاموش ہیں۔ ایسے لوگوں کو پارٹی سے کیوں نہیں نکالا جاتا؟ مودی اپنی تقریر میں مٹن، چکن، منگل سوتر کی بات کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ ووٹ لینا چاہتے ہیں تو اپنے کام پر ووٹ حاصل کیجیے۔ کھڑگے نے مزید کہا انڈیا اتحاد بیروزگاری اور مہنگائی کے خلاف لڑ رہا ہے۔ ہم سب کو جمہوریت کو بچانے کے لئے کام کرنا چاہیے، ورنہ ہم غلامی میں چلے جائیں گے۔ سب کو ووٹ دینے کا حق ہے۔ اگر جمہوریت نہیں ہوگی اور آمریت ہوگی تو آپ ووٹ کیسے کریں گے۔ بی جے پی پر بڑا الزام لگاتے ہوئے کانگریسی صدر کھڑگے نے کہا کہ جہاں بی جے پی والے مضبوط ہیں وہاں اپوزیشن کے لوگوں کو کاغذات نامزدگی داخل کرنے سے بھی روکا جا رہا ہے۔ الیکشن ایجنٹوں کو ڈرایا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں شفاف اور آزادانہ انتخابات نہیں ہو سکتے۔ دوسرے لفظوں میں اگر بھارتی الیکشن میں دھاندلی نہ ہو تو وہاں نریندرا مودی مشکلات سے دوچار ہے۔
اسی طرح پاکستان میں چند روز قبل بانی پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکائونٹس پر ایک ویڈیو پوسٹ کی گئی جس میں کہا گیا کہ ’’ ہر پاکستانی کو حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کا مطالعہ کرنا اور یہ جاننا چاہیے کہ اصل غدار تھا کون، جنرل یحییٰ خان یا شیخ مجیب الرحمان‘‘۔ ساتھ ہی آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی تصویر بھی لگائی گئی ہے اس ویڈیو پر اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی حلقوں کی جانب سی سامنے آنے والے حتمی قسم کے سخت ردعمل کے بعد اب پی ٹی آئی کے رہنمائوں کی طرف سے مختلف تردیدی بیانات دیئے جا رہے ہیں۔ عمران خان کی عدم موجودگی میں تحریک انصاف کے چیئرمین کے عہدے پر فائز بیرسٹر گوہر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کا اس ویڈیو سے کوئی تعلق نہیں اور وہ خود اس اکائونٹ کو آپریٹ نہیں کرتے۔ پی ٹی آئی کے ترجمان رئوف حسن نے کہا ہے کہ عمران خان کے سوشل میڈیا اکائونٹ بیرون ملک سے چلائے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی پچھلے 10ماہ سے جیل میں ہیں اور ان کے پاس کوئی فون نہیں ہے۔ اس لئے ان کو نہیں پتہ کہ ان کے سوشل میڈیا اکائونٹ کیسے آپریٹ ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک بات طے ہے کہ یہ اکائونٹ بیرون ملک موجود سوشل میڈیا رضاکار چلا رہے ہیں اور اس کا عمران خان کو علم ہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف کے ملتان سے ایم این اے اور پارٹی کے وائس چیئرمین کے بیٹے زین قریشی کا کہنا ہے کہ عمران خان کے اکائونٹس سے کی جانے والی پوسٹس کی ان سے باقاعدہ منظوری لی جاتی ہے۔ موجودہ فوجی کمان کی واضح نیوٹرل پالیسی کے باوجود بانی پی ٹی آئی اور ان کی پارٹی قیادت ہر روز اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں کوئی نہ کوئی نئی بات کرتے ہیں جبکہ اب مقتدرہ کو حمود الرحمان کمیشن اور مجیب الرحمان والی بات پر بہت غصہ ہے اور ان کے اور بانی پی ٹی آئی کے درمیان اب بہت زیادہ کشیدگی ہے۔ جس کی بناء پر اب یہ کہنا مشکل نہیں کہ بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت کی سیاست اب پاکستان میں مزید چلنے والی نہیں ہے۔





