نواز شریف مسلم لیگ کی عظمت رفتہ بحال کر سکیں گے؟

تحریر : امتیاز عاصی
نواز شریف نے مسلم لیگ نون کی سربراہی ایک ایسے وقت دوبارہ سنبھالی ہے جب قوم یوم تکبیر کے حوالے سے خوشیاں منا رہی تھی۔ مسلم لیگ پر شریف خاندان کی اجارہ داری سے یہ بات یقینی تھی نواز شریف بلا مقابلہ اپنی جماعت کے صدر منتخب ہو جائیں گے۔ نواز شریف کی سیاسی زندگی پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے جب کبھی مشکل وقت آیا وہ مختلف حیلے بہانوں سے وطن چھوڑ گئے ۔ عقل انسانی کا تقاضا ہے کسی ادارے یا پارٹی کا سربراہ اپنے ورکرز کو چھوڑ کر وطن سے دور جا بیٹھے تو اس کی جماعت سے وابستہ کارکنوں کے حوصلے پست ہو جاتے ہیں جس سے ایسی جماعت عوام سے دور ہو جاتی ہے۔ مشرف نے نواز شریف کی حکومت پر شب خون مارا تو سعودی خاندان سے تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جدہ میں سرور پیلس کو مسکن بنا لیا۔یہ علیحدہ بات ہے سعودی عرب میں قیام کے دوران ان کے بعض حاشیہ بردار صحافیوں نے مختلف اوقات میں ان کے انٹرویو کرکے سیاست میں انہیں زندہ رکھا لیکن ملک سے دوری نے انہیں عوام سے کوسوں دور کر دیا۔سعودی عرب میں قیام کے دوران انہوں نے جدہ مکہ مکرمہ شاہراہ کے قریب سعودی اشتراک سے سٹیل مل لگاکرکاروبار جاری رکھا۔عمران خان کا دور آیا تو چند ماہ جیل رہنے کے بعد علالت کے بہانے لندن میں ایون فیلڈ میں سکونت اختیار کر لی۔اس دوران انہیں پاکستانی کمیونٹی کے ردعمل کا بھی سامنا کرنا پڑا تاہم وہ شورغوغا کرنے والوں کو جل دے کر نکل جانے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔نواز شریف گویا اس لحاظ سے قسمت کے دھنی ہیں اتنے نشیب وفراز دیکھنے کے باوجود تین مرتبہ ملک کے وزیراعظم رہے۔شریف خاندان کی خوبی یہ ہے وہ ظاہری طور پر طاقت ور حلقوں سے پنجہ آزمائی کرنے میں مشہور ہیں در پردہ مقتدر حلقوں سے راہ و رسم کے حوالے سے ان کا نیٹ ورک بڑا مضبوط ہے۔عمران خان کے دور میں شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ قائم ہوا اقتدار میں رہتے ہوئے عمران خان ان کے خلاف فردجرم عائد نہیں کرا سکے جو اس امر کا غماز ہے طاقت ور حلقوں کے ساتھ عدلیہ میں بھی ان کا خاصا اثرورسوخ ہے۔پی ڈی ایم کے دور میں شہبا ز شریف نے ا وزارت عظمیٰ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نیب قوانین میں من پسند ترامیم کرکے مبینہ کرپشن میں ملوث سیاست دانوں اور اپنی مقدمات سے جان بخشی کرا لی لیکن یہ ترامیم سپریم کورٹ میں چیلنج ہو چکی ہیں۔ پنجاب کے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ نون کی پی ٹی آئی کے مقابلے میں شکست پنجاب کو مسلم لیگ نون کا قلعہ سمجھنے والوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی تھی۔ عام انتخابات میں جو کچھ ہوا اسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے اقتدار ملنے کے باوجود مسلم لیگ نون کی عوام میں جڑیں بہت کمزور ہیں۔ ایٹمی دھماکوں کی بات ہو تو نواز شریف پورا پورا کریڈٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ان کے پس پردہ جناب مجید نظامی کی آشیر باد حاصل نہ ہوتی تو نواز شریف کبھی ایٹمی دھماکے نہیں کرتے۔ مجید نظامی نے نواز شریف سے برملا کہا تھا آپ نے ایٹمی دھماکے نہ کئے تو قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی نواز شریف کو بات سمجھ آگئی اور وہ دھماکے کرنے پر رضامند ہو گئے۔ یہ اور بات ہے ایٹمی دھماکوں کے بعد ملک کو امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا لوگوں کے فارن کرنسی اکائونٹ منجمد کرنا پڑے تاکہ ملک کو معاشی طور پر دیوالیہ ہونے سے بچایا جا سکے۔ اس موقع پر ہمیں تارکین وطن کی خدمات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے جنہوں نے ملک کو ریکارڈ زرمبادلہ بھیج کر دیوالیہ ہونے سے بچایا۔ایک طرف تارکین وطن مشکل وقت میں ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا رہے تھے دوسری طرف میاں صاحب نے بنکوں کے ذریعے زرمبادلہ بھیجنے والوں پر ودہولڈنگ ٹیکس لگا دیا جسے عمران خان نے آکر ختم کیا۔ سابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد ایٹمی دھماکوںکا کریڈٹ ڈاکٹر قدیر مرحوم کے علاوہ گوہر ایوب اور راجا ظفرالحق کو دیتے ہیں ۔ان کا کہنا ہے طاقت ور حلقوں کے ساتھ ایٹمی دھماکوں کے سلسلے میں ہونے والی مشاورت کے لئے وزیر اعظم نواز شریف انہیں بھی ہمراہ لے گئے تھے۔ میاں شہباز شریف پی ڈی ایم دور میں وزیراعظم رہنے کے باوجود عوام کو مہنگائی کے چنگل سے نجات دلانے میں ناکام رہے۔ فارم 47کے نتیجہ میں وہ عام انتخابات میں ایک مرتبہ پھر وزیراعظم اور نواز شریف کی ہونہار بیٹی صوبے کی وزیراعلیٰ بن گئیں۔ شہباز شریف پی ڈی ایم دور کے مقابلے میں ملک کی معاشی صورت حال کی بہتری کے لئے خاصے متحرک ہیں جس کا کریڈٹ مقتدر حلقوں کو جاتا ہے جو ملک کی سرحدوں کی حفاظت اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ معاشی صورت حال کو بہتر کرنے میں بہت زیادہ سرگرم ہیں اللہ کرے حکومت اور مقتدر حلقے ملک کی معاشی کشتی کو بھنور سے نکالنے میں کامیاب ہو سکیں (آمین) جہاں تک نواز شریف کا اپنی جماعت کی کھوئی ہوئی عظمت رفتہ کی بحالی کی بات ہے اس مقصد کے لئے انہیں ان تھک محنت کرنا ہوگی۔ درحقیقت عمران خان نے نوجوان نسل کو کرپشن کرنے والوں سے آشنا کرکے عوام کو باشعور کر دیا ہے جس کا سیاسی جماعتوں خصوصا پی ایم ایل نون پر برے اثرات مرتب ہوئے ہیں لہذا محض ملک گیر دوروں سے مسلم لیگ نون کی گری ہوئی ساکھ کی بحالی ممکن نہیں انہیں یہ ثابت کرنا ہوگا کرپشن کے مقدمات بے بنیاد اور جھوٹے تھے۔ ویسے بھی مشہور کہاوت ہے گرا ہوا گھوڑا اور عوام کا اعتماد کھونے والا اخبار دوبارہ زندہ نہیں ہوتا۔ افسوسناک بات یہ ہے ملک کو ترقی یافتہ بنانے کے لئے جن سیاسی رہنمائوں کی ضرورت تھی وہ ناپید ہو چکے ہیں ۔ آج کے سیاست دانوں کا مطمع نظر اندرون اور بیرون ملک بڑی بڑی جائیدادیں بنانے کے سوا کچھ نہیں۔ نواز شریف کو مسلم لیگ نون کی سربراہی تو مل گئی ہے مگر عمران خان نے کرپشن کے خلاف جس جدوجہد کی بنیاد رکھی ہے اس کے پیش نظر وہ اپنی جماعت کی کھوئی ہوئی عظمت رفتہ اتنی جلدی بحال کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔





