یکم جون۔۔۔ والدین کا عالمی دن

تحریر :ضیاء الحق سرحدی
ہر سال یکم جون کو دنیا بھر میںوالدین کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔اس دن کا مقصد والدین کو خراج تحسین پیش کرنا ہے۔ بلاشبہ ماں باپ قدرت کی عظیم نعمت ہیں۔وہ بچے کو پیدائش سے لے کر اُس کی تعلیم وتربیت اور معاشرے میں زندہ رہنے کے قابل بنانے تک اہم کردار ادا کرتے ہیں،اُس کی ہرہر قدم پر رہنمائی کرتے ہیں،اُس کو زمانے کے ہر سردوگرم سے بچاتے ہیں ،گویا اُس کے لیے اپنی زندگیوں کو وقف کر دیتے ہیں،لیکن انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جب وہی اولاد بڑی ہو جاتی ہے تو ماں باپ کو اکیلا چھوڑ دیتی ہے۔حالاں کہ اُس وقت اُن کو اُس کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ایسی کتنی ہی مثالیں ہمارے معاشرے میں بھری پڑی ہیں کہ اولاد نے بڑھاپے میںماں باپ کو گھروں سے نکال دیا،بے سہارا چھوڑ دیا،اُن کے ساتھ ناروا سلوک کیا،اولڈ ہائوسز میں داخل کرادیا۔کیا یہ سچ نہیں کہ بچے جب بڑے ہو جاتے ہیں تو اپنے ماں باپ سے انتہائی بدتمیزی سے بات کرتے ہیں،اُن کی نافرمانی کو وتیرہ بنالیتے ہیں،اولاد کے پاس اپنے والدین کے لیے وقت نہیں ہوتا۔وہ دُنیاوی مشاغل میں اس قدر مصروف ہوتے ہیں کہ ماں باپ کے پاس دوگھڑی بیٹھنا اُن کے لیے دُشوار ہو جا تا ہے۔والدین بوجھ لگنے لگتے ہیں۔انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نافرمان اولاد کے قصے کہانیاں زبان زدعام ہیں۔ ان تلخ داستانوں میں کتنی صداقت ہے،اس کا ادراک ملک بھر میں تیزی کے ساتھ بننے والے اولڈ ہومز کی تعداد سے ہوتا ہے جو بڑھ کر27کے لگ بھگ پہنچ چکی ہے۔اولڈ ہومز کی ابتدا یورپ سے ہوئی ۔اہل مغرب اپنے بوڑھے والدین کو ان میں داخل کراکر اپنی ذمے داریوں سے سکبدوش ہو جاتے ہیں۔افسوس یہ رجحان اب پاکستان میں بھی تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ایک باپ اپنے تمام بچوں کی بہترین پرورش وکفالت کرتا ہے جب کہ اولاد نافرمان ہو تو سب مل کر بھی بوڑھے باپ کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتے۔جبکہ سابق صدر مملکت عارف علوی نے آرٹیکل 89کے تحت تحفظ والدین آرڈیننس2021جاری کردیا ہے، آرڈیننس کا مقصد اولاد کی طرف سے والدین کو زبردستی گھروںسے نکالنے پرتحفظ دینا ہے۔ آرڈیننس کے تحت والدین کو گھروں سے نکالنا قابل سزا جرم ہوگا، والدین کو گھروں سے نکالنے پر ایک سال تک قید و جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ دی جاسکیں گی۔گھر اولاد کی ملکیت ہونے یا کرائے پرہونے پر بھی والدین کو نہیں نکالا جا سکے گا جبکہ گھر والدین کی ملکیت ہونے کی صورت والدین کو اولاد کو گھر سے نکالنے کا اختیار ہوگا۔والدین کے بچوں کو تحریری نوٹس دینے کی صورت میں گھر خالی کرنا لازمی ہوگا، وقت پر گھر خالی نہ کرنے کی صورت میں 30دن تک جیل اور جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوں گی۔بچوں کی جانب سے گھر نہ چھوڑنے کی صورت ضلعی ڈپٹی کمشنر کو کارروائی کا اختیار ہوگا، ضلعی ڈپٹی کمشنر والدین کی جانب سے شکایت پر کارروائی کا مجاز ہوگا۔اس کے علاوہ والدین کی شکایت موصول ہونے پر پولیس کو بغیر وارنٹ گرفتاری کا اختیار حاصل ہوگا، آرڈیننس کے تحت گرفتار افراد کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا، آرڈیننس کے تحت والدین اور بچوں کو اپیل کا حق حاصل ہوگا۔کچھ عرصہ پہلے اپنے گھر کے نزدیک میں نے ایک بزرگ کو دیکھا،وہ صبح سے شام تک ایک گھر کے باہر نیم بے ہوشی کی حالت میں زمین پر لیٹے رہے۔مذکورہ بزرگ پھٹے پرانے لباس میں تھے۔ اہل محلہ سمجھے کہ یہ کوئی نشہ کرنے والا ہے۔آتے جاتے لوگ اُسے پیسی دیتے اور کہتے کہ وہ اس جگہ سے کہیں اور چلا جائے۔تحقیق کرنے پر پتا چلا کہ وہ بزرگ سخت بیمار تھے،نیز وہ نشئی ہر گز نہیں تھے بلکہ نا فرمان اولاد کے ظلم وستم کے سبب دردر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور تھے۔بعد ازاں وہ بزرگ اُس جگہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے مقام کی جانب چل پڑے۔اُن کے دل پر کیا بیتی ہو گی، جنھیں زندگی کے آخر ی ایام میں اپنے گھر کی چار دیواری ،سکون اور بچوں کا ساتھ نصیب نہیں ۔اولڈ ہومز میں رہائش پذیر بزرگ مرد اور خواتین کو دیکھیں، سب کی نگاہیں الم ناک داستانیں بیان کرتی دکھائی دیتی ہیں۔یہ بزرگ افراد اپنے بچوں کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب رہتے ہیں۔احسان فراموش اولاد ہیں کہ عیدکے دن بھی اپنے والدین کی خیریت دریافت کرنے اولڈ ہومز کا رخ نہیں کرتے۔یہ اولڈ ہومز ہی اب اُن بزرگوں کی محفوظ پناہ گاہ اور غمگسار سب کچھ ہیں۔اسلام میں تو عزیز اقارب اور ہمسایوں کے بے شمار حقوق وفرائض ادا کرنے کا حکم ہے۔سوچتا ہوں جو بدنصیب نا فرمان لوگ اپنے والدین کو گھر سے نکال دیتے ہیں،اپنے حقوق ،فرائض اور ذمے داریوں سے دانستہ راہ فرار اختیار کر لیتے ہیں۔روز قیامت اُن کا کیا انجام ہوگا۔یہ دورِ جدید کی خرابیاں ہیں،ماضی میں ایسا بالکل نہیں تھا۔اُس سُنہری دور میں اولاد والدین کی ناصرف عزت کرتی تھی،بلکہ اُن کی خدمت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھتی تھی،نافرمانی کا تو تصور ہی نہیں تھا،ماں باپ نے جو کہہ دیا،اولاد اُس کی حکم عدولی ہر گز نہیں کرتی تھیں،مشترکہ خاندانی نظام کی جڑیں خاصی مظبوط تھیں۔بزرگوں کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا،اولادیں ماں باپ کو اکیلا چھوڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھیں،لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا،مادیت پرستی غالب آتی گئی،مشترکہ خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا چلا گیا،رفتہ رفتہ ہم اپنی سنہری اقدار سے دُور ہوتے چلے گئے اور آج ناصرف اخلاقی پستی کا شکار ہیں بلکہ ہر طرح کی برائیاں ہمارے سماج میں تیزی سے پنپ اور پروان چڑھ رہی ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ اپنی معدوم ہوتی سنہری اقدار کو پھر سے مضبوطی فراہم کرنے کے لیے معاشرے کا ہر فرد کردار ادا کرے، تاکہ سماج میں بڑھتی خرابیوں کو روکا جا سکے۔ دوسری طرف اولادوں سے گزارش ہے کہ وہ والدین کی قدر کریں۔ کل کو آپ کو بھی بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھنا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی اولاد بھی آپ سے ایسا ہی سلوک کریں، جیسا آپ نے کیا، لہٰذا بڑھاپے میں والدین کا اُسی طرح سہارا بنیں، جیسے بچپن میں وہ آپ کے لیے دن رات ایک کیے رہتے تھے، اُن سے شفقت اور محبت سے پیش آئیں، کیوں کہ اسی میں دُنیا و آخرت کی فلاح اور کامرانی پوشیدہ ہے۔ جس گھر میں والدین ہوں وہ گھر رحمت خداوندی کا آشیانہ ہوتا ہے۔ ماں باپ کی دعائوں سے بلائیں ٹلتی ہیں۔ مسلمان کا ہر لمحہ ماں باپ کے لئے وقف کیا گیا ہے حتی کہ عمر بھر کی عبادت و ریاضت اور نیکیاں والدین کی رضا سے مشروط ہیں۔
ارشاد باری ہے : ’’ اور تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو، اگر ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اُف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور ان سے ادب کے ساتھ بات کرنا اور عجز و نیاز سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ اے پروردگار جیسا انہوں نے میری بچپن میں ( شفقت سے) پرورش کی تو بھی ان پر رحمت فرما۔
یاد رکھئے آج جیسا سلوک آپ اپنے والدین کے ساتھ کریں گے آنے والے وقت میں آپ کی اولاد بھی آپ کے ساتھ وہی سلوک کرے گی اس لئے ابھی سے سنبھل جائیے اور اپنے والدین کا احترام کریں ان کی خدمت کریں تاکہ انکے دل سے ہمیشہ آپ کے لئے دعائیں نکلے۔ والدین کی خدمت سے ہم دین ودنیا میں سرخرو ہو سکتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے اور آپ کے ہاتھ سوائے پچھتاوے کے کچھ نہ آئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے والدین کی فرمانبرداری کرنے والابنائے اور ہماری اولاد کو بھی ان حقوق کی ادائیگی کرنے والا بنائے۔ ( آمین)





