پیسہ

تحریر: علیشبا بگٹی
کہتے ہیں پرانے وقتوں میں ایک بادشاہ شکار کو نکلا۔ ایک کسان کو اپنے کھیت میں ہل چلاتے دیکھا تو بادشاہ نے اس سے پوچھا ’’ اے کسان ، دن میں کتنے پیسے کما لیتے ہو‘‘۔ کسان نے جواب دیا ’’ جناب! چار روپے‘‘۔ بادشاہ نے پوچھا’’ خرچ کیسے کرتے ہو؟‘‘۔ اس نے جواب دیا ’’ سبھی خرچ کر دیتا ہوں۔ ایک روپیہ خود پر خرچ کرتا ہوں۔ ایک روپیہ قرض دیتا ہوں ۔ ایک روپے کا قرض اتارتا ہوں اور ایک روپیہ دریا میں بہا دیتا ہوں‘۔ بادشاہ جواب سن کر حیران ہوا اور پوچھا’’ کسان! تمہاری بات سمجھ نہیں آئی ہے‘‘۔ کسان نے جواب دیا ’’ بادشاہ سلامت! بڑی آسان بات ہے۔ میں سمجھاتا ہوں آپ کو ۔۔۔ ایک روپیہ خود پر اور اپنی بیوی پر خرچ کرتا ہوں۔ ایک روپیہ اپنی اولاد پر، یعنی قرض دیتا ہوں تاکہ بڑھاپے میں وہ مجھے لوٹا سکیں۔ ایک روپیہ والدین پر خرچ کرکے اپنا قرض اتارتا ہوں۔ جو انہوں نے مجھ پر خرچ کیا تھا۔ ایک روپیہ غریب کو دیتا ہوں یعنی دریا میں بہا دیتا ہوں۔ اس کا اجر مجھے اس دنیا میں نہیں چاہیے‘‘۔ بادشاہ جواب سن کر حیران ہوا اور کہا’’ کسان! بڑی دانائی کی بات کی ہے۔ تم واقعی بہت امیر شخص ہو۔ میں تو تمہارے مقابلے میں غریب ہوں‘‘۔
اصل کمائی وہ ہے جو دوسروں پر خرچ کی جائے۔ پرانے زمانے میں سوچ کچھ ایسی تھی۔ اب دوسروں پر خرچ کرنے والوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ تین چیزیں ایسی ہیں جو قبر میں ساتھ جانی ہیں جن کا اجر مر کر ہی ملے گا۔ پہلی نیک اعمال، دوسری تعلیم جو دوسروں کو دی اور تیسری صدقہ خیرات جو اپنے ہاتھ سے کیا۔ بات سمجھ کی ہے۔ اللہ جس کو اس راہ پر لگا دے۔ انسان کو مرنے کے بعد جس چیز کا سب سے زیادہ پچھتاوہ ہو گا وہ ہے۔۔ صدقہ خیرات۔
سچ بھی یہی ہے کہ پیسہ انسان کو اوپر تو لے کر جا سکتا ہے۔ مگر انسان پیسے کو اوپر نہیں لے کر جا سکتا،
الیگزینڈر بادشاہ بھی یہ کہہ گیا کہ مرنے کے بعد میرے ہاتھ کفن سے باہر رکھنا تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ اتنا دھن دولت بھی میرے کسی کام نہ آیا اور میں خالی ہاتھ لئے قبر میں جا رہا ہوں ۔
قارون ، فرعون ، شداد اور اسی طرح کے دیگر افراد دولت کے نشہ میں ہی چور تھے لیکن آخر تھے تو انسان ہی ۔۔ مرنے کے بعد نہ دولت کام آئی نہ ہی روپیہ پیسہ۔۔
کہتے ہیں کہ ’’ ٔدُنیا پیسے سے چلتی ہے‘‘، اور یہ بات ایک حد تک صحیح بھی ہے۔ کیونکہ ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے لیے پیسوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ لیکن پیسوں سے سب کچھ حاصل نہیں کِیا جا سکتا۔ ملک ناروے کے شاعر ارنے گائبرک نے کہا کہ پیسوں سے ’’ ہم کھانا خرید سکتے ہیں لیکن کھانے کا شوق نہیں، دوائی خرید سکتے ہیں لیکن صحت نہیں، نرم بستر خرید سکتے ہیں لیکن نیند نہیں، علم خرید سکتے ہیں لیکن دانش مندی نہیں، ظاہری خوبصورتی خرید سکتے ہیں لیکن باطنی خوبصورتی نہیں، تفریح خرید سکتے ہیں لیکن خوشی نہیں، واقف کار خرید سکتے ہیں لیکن دوست نہیں، نوکر خرید سکتے ہیں لیکن وفاداری نہیں‘‘۔
برٹرنڈ رسل کتاب ’’ شادمانی مسرت‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔ ’’ امریکہ میں پیسہ ذہانت کا قبول شدہ پیمانہ ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جو آدمی بہت زیادہ پیسہ کماتا ہے وہ ایک ہوشیار آدمی ہی ہو گا۔ اور ایک آدمی چاہے وہ جتنا مرضی ذہین ہو اگر اس کے پاس پیسہ نہیں تو اسے کج فہم ہی سمجھا جائے گا۔ میرے نزدیک جو دولت کا مقصد ہے وہ صرف اتنا ہے کہ مجھے پیسہ چاہیے تا کہ میں سکیورٹی کے ساتھ فراغت حاصل کر سکوں۔ لیکن عام انسان پیسے کا ڈھیر صرف اس لئے لگانا چاہتا ہے کہ وہ اس سے دکھاوے، شان و شوکت اور نمائش کا کام لے، اور ان لوگوں سے جو اب تک اس کے برابر رہے ہیں، خود کو برتر سمجھے‘‘۔
ایسا لگتا ہے کہ زیادہ پیسے کا مطلب زیادہ خوشی ہے۔ مگر سادہ سی بات یہ ہے کہ خوشی خریدنا اتنا آسان نہیں ہے۔ تاہم ایک بار جب بنیادی ضروریات پوری ہو جائیں تو چیزیں حیران کن طور پر بدل سکتی ہیں۔ آمدنی، قرض اور نقصان کے ساتھ ہمارا جذباتی تعلق پیچیدہ اور اہمیت کا حامل ہے۔
یقیناً اس میں کوئی شک نہیں کہ پیسہ بڑی طاقت رکھتا ہے۔ جب پیسہ بولتا ہے۔ تو بہرہ بھی سننے لگتا ہے۔ اور لوگوں کے فیصلوں اور طرز عمل پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ اور یہ کہ یہ مسائل کو حل کرنے کا ایک موثر طریقہ ہے، خاص طور پر بحران کے وقت میں یہ بہت مددگار ثابت ہوتا ہے۔
پیسہ ہماری ضرورت ہے کیوں کہ اس کے بغیر زندگی کا پہیہ نہیں چلتا روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، صحت، زندگی کی آسائشیں جن میں موبائل فون، گاڑی، بجلی، گیس غرضیکہ ہم سب کچھ پیسے سے ہی خریدنا پڑتا ہے اور اس کے لئے پیسہ کمانا بہت ضروری ہے۔
اپنی بیماری کے علاج کے لئے یورپ امریکہ تک جاتے ہیں لیکن غریب گھریلو ملازم کو دس روپے کی دوائی لے کر دینے کے روادار نہیں۔ گائوں گلی محلے میں عالیشان کوٹھی تو بنا لیتے ہیں مگر گلی کے کیچڑ اور پانی کے نکاس کا نہیں سوچتے۔ خود اچھے عہدے پر چلے جائیں تو رشتے داروں اور حتیٰ کہ والدین کا تعارف کرواتے ہوئے بھی شرم محسوس کرتے ہیں۔ ساری زندگی دولت اکٹھی کرنے میں گزارتے ہیں آسائش اور سکون نام کی کسی چیز سے ساری زندگی میل نہیں ہوتا اور بچے بچپن والدین کی دولت میں عیاشی سے گزار کر جوانی میں محنت سے کتراتے ہیں۔
ماضی کی طرح آج بھی دن رات ہم پیسہ کے گرد ہی گھوم رہے ہیں۔ ہر طرف پیسے کی گردان ہی سنائی دیتی ہے۔ کہتے ہیں کہ پیسہ ہاتھ کا میل ہوتا ہے لیکن جدید دور میں یہ بھی غلط ثابت ہو گیا کیونکہ آج کل میل تو کیا پورے کا پورا کالا دھن اچھا لگتا ہے۔
امیر ترین طبقہ تو وہ ہے کہ جس کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ اسے یہ سمجھ نہیں آتی کہ اتنا روپیہ آخر خرچ کہاں کیا جائے۔ اور غریب حیران و پریشان ہے پیسہ لائے تو کہاں سے لائے ؟۔
سماج میں سٹیٹس اسی بنیاد پہ حاصل ہوتا ہے کہ آپ کی جیب میں کتنا پیسہ ہے یا آپ کتنا کمانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
زندگی کے اپنے تقاضے ہیں جو گرائونڈ رئیلٹیز سے جڑے ہیں، انہیں خواب خیال کی دنیا میں رہ کے پورا نہیں کیا جا سکتا۔ ان کو پورا کرنے کے لیے ریسورسز چاہئیں، ان ریسورسز کو حاصل کرنے کے لیے کوشش چاہیے، تب ہی انسان ڈھنگ سے جی سکتا ہے، ورنہ خیالی پلائو پکا کے کھانے سے تو پیٹ نہیں بھرتا۔
ابھی تو کرپٹو کرنسی کا زمانہ آگیا ہے۔ ابھی تو پرس میں پیسہ نہیں اے ٹی ایم کارڈ کا زمانہ آگیا ہے۔ اب تو سیکنڈوں میں آن لائن دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں فوری پیسہ بھیجنے کا زمانہ آگیا ہے۔
پیسہ ہونا چاہئے مگر انسان کو پیسوں کا لالچی نہیں ہونا چاہئے۔ بچپن میں پیسے نہیں تھے لیکن سکون بہت تھا ، پیسے تو خیر اب بھی نہیں ، لیکن سکون بھی چلا گیا۔





