ColumnRoshan Lal

خوشحال پنجاب ، سرکاری ملازموں کے لیے بد حال کیوں؟

تحریر : روشن لعل

پنجاب کو دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ خوشحال کہا جاتا ہے، اسی خوشحال صوبے کے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی کی حکومت نے خزانہ خالی ہونے کا رونا رو کر پینشن اور لیو انکیشمنٹ رولز میں ایسی ترامیم کیںجن کی وجہ سے سرکاری ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے وقت اور اس کے بعد پینشن کی مد میں ملنے واجبات میں نمایاں کمی ہو گئی ۔ واضح رہے کہ جس پنجاب کو دیگر صوبوں کی نسبت خوشحال کہا جاتا ہے وہاں تو سرکاری ملازموں کو ریٹائرمنٹ کے وقت اور بعد ازاں ملنے والے مالی سہولتوں میں نمایاں کمی کردی گئی لیکن پنجاب کی نسبت بدحال کہے جانے والے صوبوں کے سرکاری ملازم اب بھی ان مالی فوائد کے حقدار ہیں جو انہیں پہلے بھی حاصل تھے۔ پنجاب کی نگران حکومت نے اپنے سرکاری ملازمین کے ساتھ جو ہاتھ کیا اس کے بعد صوبے کے مختلف محکموں کے سرکاری ملازموں نے آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس ( اگیگا) بنا کر بھر پور احتجاج کرتے ہوئے صوبائی حکومت لاہور کی سڑکوں کو بلاک کر دیاتھا۔
نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی ،اگیگا کے تحت ہونے والا مذکورہ احتجاج ، سرکاری مشینری کا ہر ممکن استعمال کرنے کے باوجود بھی روک نہ سکے مگر مریم نواز نے اس وقت کوئی حکومتی عہدہ نہ ہونے کے باوجود اگیگا کے احتجاجی مظاہرے ختم کروا دیئے تھے۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ اس وقت کی انتظامیہ نے اکتوبر 2023میں اگیگا کے رہنمائوں کی مریم نواز کے ساتھ ملاقات کروائی۔ اگیگا کے رہنمائوں نے مریم نواز سے ملنے کے بعد نہ صرف ہڑتال اور احتجاج ختم کر دیا بلکہ اخباروں میں ان کی مریم سے ملاقات کی تصویروں کے ساتھ یہ خبر بھی شائع ہوئی کہ مسلم لیگ ن عام انتخابات کے بعد جب پنجاب میں اپنی حکومت بنائے گی تو اس کا سب سے پہلا کام سرکاری ملازموں کی پینشن اور گریجویٹی میں کی گئی کمی اور متعلقہ رولز میں کی گئی ترامیم کا خاتمہ ہوگا۔ انتخابات کے بعد مریم نواز ، فروری 2024میں، وزیر اعلیٰ پنجاب کی کرسی پر براجمان ہوئیں۔ مریم نواز کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے چار ماہ ہو چکے مگر انہوں پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہوتے ہی جو کچھ کرنے کا وعدہ اگیگا کے ساتھ کیا تھا وہ ابھی تک وفا نہیں ہو سکا۔ مریم نواز کا اپنا ہی کیا ہوا وعدہ وفا نہ ہونے کی وجہ سے پنجاب کے سرکاری ملازمین 28مئی کو ایٹمی دھماکوں کی سالگرہ منائے جانے کے عین ایک دن بعد 29مئی کو سڑکوں پر احتجاج کرتے ہوئے نظر آئے۔
ملک کے مبینہ خوشحال صوبے پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نوازنے اپنا منصب سنبھالنے کے چار ماہ بعد بھی اگر سرکاری ملازموں سے کیا گیا وعدہ وفا نہیں کیا تو ان کے رویے کے متعلق کہا جارہا ہے کہ جب انہوں نے وعدہ کیا اس وقت بھی اپنا قول نبھانے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ جب مریم نے پنجاب کے سرکاری ملازموں کے ساتھ وعدہ کیا اس وقت انتخابات سر پر تھے۔ اس وقت وہ ہر صورت سرکاری ملازمین اور ان کے خاندان کے لوگوں کے ووٹ حاصل کرنا چاہتی تھیں لہذا انہوں نے ایسا وعدہ کر لیا جسے پورا کرنے میں وہ ابھیتک سنجیدہ نظر نہیں آرہی ہیں۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز اگر اپنا وعدہ نبھانے میں غیر سنجیدہ ہیں تو اپنی غیر سنجیدگی کا ان پاس اس کے علاوہ اور کوئی جواز نہیں ہوسکتا کہ ان کے خوشحال صوبے کا خزانہ اتنا بھرا ہوا نہیں ہے کہ وہ سرکاری ملازموں کی بدحالی ان کی خواہشوں کے مطابق کم کر سکیں۔
ویسے یہ بات اپنے طور پر حیرت انگیز ہے کہ خزانہ خالی ہونے کے باجود صوبہ پنجاب کو دیگر صوبوں کی نسبت کیسے زیادہ خوشحال کہا جاتاہے اور مبینہ خوشحالی کے باوجود پہلے نگران وزیر اعلیٰ اور اب مریم نواز کی حکومت صرف سرکاری ملازموں کو بدحال رکھنے پر کیوں مصر ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر سرکاری خزانہ خالی ہی تو اسے خالی کیا کس طرح گیا ہے۔ شریف فیملی کی یہ روایت رہی ہے کہ اس کی ہر حکومت نے عام سرکاری ملازموں کو کسی قسم کا مالی فائدہ دینے میں تو ہمیشہ ہاتھ کھینچا لیکن اعلیٰ سرکاری افسروں اور خاص طور پر بیوروکریسی کو مراعات دینے کے لیے آخری حد تک فراخدلی کا مظاہرہ کیا۔
پورے ملک میں تمام سرکاری ملازموں کو ان کے گریڈ کے مطابق ملنے والے الائونسز کی مدات تقریبا ً ایک جیسی ہوا کرتی تھیں لیکن شریف فیملی کے لوگوں نے پنجاب میں اپنی مختلف حکومتوں کے دوران اعلیٰ عہدوں پر فائز افسروں اور سیکرٹریٹ کے سٹاف کو خصوصی مالی مراعات دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے صرف سول سیکریٹریٹ کے افسروں اور ملازمین کو سیکریٹریٹ الائونس کے نام سے خصوصی مالی فائدہ پہنچایا گیا ۔ پنجاب میں حکومت کے دوران شہباز شریف نے بحیثیت وزیراعلی سب سے پہلے اعلی عہدوں پر فائز بیوروکریسی کو سپیرئیر ایگز الائونس دینے کا آغاز کیا۔ یہ سلسلہ چیف سیکریٹری پنجاب اور آئی جی پنجاب کو بالترتیب400000؍۔ روپے اور 375000؍۔ روپے، اضافی الائونس دے کر شروع کیا گیا۔ بعد ازاں نہ صرف اس لائونس کی رقم میں اضافہ ہوتا گیا بلکہ اس نام کے الائونس سے تمام تر بیوروکریسی کو مستفید ہونے کا موقع فراہم کر دیا گیا۔ اسی طرح شہباز شریف نے پنجاب میں 56ایسی کمپنیاں قائم کیں جن کے ذمہ لگائے گئے کام کرنے کے لیے یہاں پہلے سے سرکاری محکمے موجود تھے۔ ان کمپنیوں کے اعلیٰ افسران پر سرکاری خزانہ کس طرح لٹایا گیا اس کی ایک مثال یہ ہے کہ چیف ایگزیکٹو نیشنل تھرمل پاور کمپنی کی ماہانہ تنخواہ بیس لاکھ، نالج پارک کمپنی کے سی ای او کی تنخواہ چودہ لاکھ اور صاف پانی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو کا ماہانہ مشاہرہ تیرہ لاکھ پچاس ہزار روپے مقرر کیا گیا جبکہ ان افسروں کو دیئے جانے والے الائونسز کی ایک الگ لمبی فہرست ہے۔
اب اگر شریف خاندان کے لوگ اپنے حکمرانی کے دوران پہلے سے مراعات اور یافتہ اعلیٰ عہدوں پر فائز افسروں کو مزید مالی مراعات دے کر صوبے کا خزانہ لٹاتے رہے تو اس میں پنجاب کے گریڈ تھری اور فور کے ملازموں کا کیا قصور ہے کہ خالی خزانے کا رونا رو کر انہیں لیو انکیشمنٹ، گریجوایٹی جیسی دیگر مالی سہولتوں سے محروم کر دیا جائے ۔یہ بات پہلے بھی بتائی جا چکی ہے کہ نہ صرف وفاق بلکہ دیگر صوبوں کے ملازمین اب بھی پہلے کی طرح لیو انکیشمنٹ اور گریجویٹی جیسی دیگر سہولتیں اپنے حق کے طور پر وصول کر رہے ہیں۔
اکتوبر2023میں جب اگیگا کے تحت پنجاب کے سرکاری ملازمین نے اپنی لیو انکیشمنٹ اور گریجوایٹی کی مد میں ملنے والی رقم کم کرنے پر احتجاج کیا، اس وقت کسی اور نے نہیں خود مریم نواز نے اپنی حکومت قائم ہونے پر ان کے مطالبات تسلیم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ مریم نواز کی حکومت قائم ہو چکی مگر اگیگا کے لوگ اب بھی سراپا احتجاج ہیں۔ اگیگا کا جائز احتجاج ختم کروانے کے لیے مریم کو ان سے کیا ہوا ا پنا وعدہ وفا کرنا ہوگا ۔ اگر خزانہ خالی ہے بھی تو اس کا ازالہ پنجاب کے غیر مراعات یافتہ ملازمین کا حق چھین کر نہ کیا جائے بلکہ افسر شاہی کو سپیرئیر ایگزیکٹو الائونس جیسی جو اضافی مراعات دی جارہی ہیں سب سے پہلے ان کو ختم کیا جائے۔

جواب دیں

Back to top button