رونا ایسا کہ سوتیلی ماں بھی تڑپ اٹھے۔۔۔۔

تحریر : قاضی سمیع اللہ
ہم روتے ہیں اور اتنا روتے ہیں کہ جی ہلکا ہوجاتا ہے اس طرح ہم کسی بھی قسم کے غم کو شکست دے دیتے ہیں۔ رونا ہر ایک کو آتا ہے اور آنسو بھی نکلتے ہیں لیکن رونا مختلف طرح کا ہوتا ہے کچھ رونے ایسے ہوتے ہیں کہ اس سے غم کو شکست تو کیا بلکہ الٹا دل بھی بھاری ہوجاتا ہے۔ پاکستانی قوم بھی آخرالذکر رونا زیادہ رویا کرتی ہے۔ مہنگائی کا رونا ہو یا پھر بیروزگاری کا رونا ہو دونوں صورتوں میں ہچکی بندھنے کی بجائے چیخیں نکل کر رہ جاتی ہیں۔ معاملہ کچھ یوں ہے کہ پاکستانی عوام کو ہر ایک بات پر رونا پڑتا ہے لیکن ان کے رونے میں وہ بلکنا پن نہیں کہ ریاست کے حکمران ٹرپ سے جائیں۔ کہا جاتا ہے کہ بغیر روئے تو ماں بھی دودھ نہیں پلاتی۔۔۔
یہ تو ریاست ہے اور اس کے حکمران ایسے بدمعاش ہیں کہ وہ رونے والے کو اور رولاتے ہیں اور ان کے آنسوئوں کے موتی سے ایک ایسا ہار بناتے ہیں جس سے کسی کا بھی گلا گھونٹا جاسکتا ہے اور یوں پاکستانی عوام اپنے مسائل کا رونا روتے روتے اپنا ہی گلا گھونٹ بیٹھتی ہے۔
پاکستانی سماج کا المیہ یہ ہے کہ یہاں مسائل کے انبار ہیں اور المیہ پر المیہ یہ ہے کہ ان مسائل کے حل کے لیے کسی بھی سیاسی جماعت بمعہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس کوئی پروگرام یا ایجنڈا نہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ پاکستانی سماج میں ایک الگ سی ہی لڑائی لڑی جارہی ہے، جس میں عوام کو فریق بناکر پیش تو کیا جارہا ہے لیکن ان کے مسائل کے حل کے لیے کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا جارہا، عوام بس چیخ چیخ کر نعرے لگا رہے اور اپنا ہی گلا چھیل رہے ہیں جبکہ سیاستدان اور ان کی جماعتیں اپنی اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں، الغرض یہ کہ سیاسی قوتیں اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد کے حصول کے لیے اپنے ماتھے پر مقرب خاص کا ٹائٹل سجائے گھوم رہے ہیں۔
اس وقت سیاست سے لیکر معیشت تک ہر ایک شعبہ عدم استحکام یا پھر بحران کا شکار ہے۔ یہ عدم استحکام یا بحران حقیقی ہیں یا پھر خود سے تراشے گئے ہیں یہ ایک الگ بحث ہے لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی بھی ریاست خود کو اس طرح کے بحرانوں سے نکلنے کی کوشش نہ کرتی ہو. یقیناً کرتی ہیں لیکن ایسی ریاستیں جہاں حکم اور ہدایت ( ڈائریکشن) کا راستہ ایک ہی ہو، یہاں المیہ یہ ہے کہ بظاہر حکمران کوئی اور ہے تو حقیقی حکمران کوئی اور عوام کو درپیش مسائل کا مطالعہ کیا جاتا ہے یا نہیں، ادراک تو پھر آگے کی بات ہے، رہی بات مسائل کے حل کی تو وہ تو اسباب اور سدباب کی مشق کے بغیر ممکن نہیں۔
اب ایسے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستانی سماج اپنے مسائل سے باہر نکل سکے ؟
اس سوال کے جواب میں تاریخ کی بڑی بڑی انقلابی تحریکوں اور مہمات کا ذکر کیا جاسکتا ہے لیکن یہاں اس کی گنجائش نہیں اور پھر ایسی قوم کے سامنے ایسی انقلابی تحریکوں کے ذکر کا کوئی فائدہ بھی نہیں جو مسائل پر روتی تو ہے لیکن اپنے رونے میں ایسی ٹرپ نہیں رکھتی جو حکومتی ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیں۔ پاکستانی عوام اگر اپنے رونے میں انقلابی تڑکا لگالے تو وہ بھی ترقی یافتہ سماج کی فہرست میں شامل ہوسکتی ہے، بس یہ کہ قوم اپنے رونے کی نوعیت اور ہیت میں ایسا بلک پن لے آئے کہ ماں تو ماں سوتیلی ماں بھی تڑپ اٹھے۔





