ColumnImtiaz Aasi

عدلیہ کی مثبت انگڑائی

تحریر : امتیاز عاصی
حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں اعلیٰ عدلیہ کو قانون کی عمل داری کے سلسلے میں مثبت انداز میں انگڑائی لینے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے ورنہ تو عدالتیں معمول کے مطابق کام کر رہی تھیں لہذا جب تک ملکی ادارے ایک لیگل فریم ورک کے تحت کسی کو جواب دہ نہیں ہوں گے ملک کے حالات ٹھیک نہیں ہوں گے۔ وقت آگیا ہے کہ تمام اداروں کو اپنی حدود وقیود کا تعین کرنا ہوگا۔ بعض اداروں کو ماروائے قانون رکھنے کا ریاست پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ ملک کے وجود میں آنے کے بعد ہر ادارے کی اپنی اپنی حدود کا تعین کر دیا جاتا اور وہ قانون کے سامنے جواب دہ ہوتے تو اس وقت جو بگاڑ پیدا ہو چکا ہے وہ نہ ہوتا۔ سات عشروں سے زیادہ وقت گزر چکا ہے سیاسی حکومتوں نے ماسوائے اپنے ذاتی مفادات کے ملک کے اداروں کو قانون کے ماتحت کرنے کے لئے کوئی کردار ادا نہیں کیا ہے اقتدار کی خاطر آئین اور قانون کو بالائے رکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ سیاست دانوں کی کارستیانوں کا نتیجہ ہے ہمارا ملک دنیا میں تماشا بنا ہوا ہے۔ کرپشن دیکھ لیں ہر حکومت نے اس کے خاتمے کے لئے ادارے قائم کئے جن پر اربوں خرچ کئے جاچکے ہیں کرپشن کے خاتمے کی بجائے روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ دراصل ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سیاست دانوں کا کیا دھرا ہے خواہ وہ مسلم لیگ نون ہو یا پیپلز پارٹی یا کوئی اور جماعت سب کے سب اس بگاڑ کے ذمہ دار ہیں۔ آئین اور قانون کی حکمرانی کے لئے سیاست دان یکسو ہوتے تو آج جیسے حالات کا سامنا نہیں ہو سکتا تھا۔ دنیا کے کسی ملک میں ہوا ہے کہ حکومت کے ماتحت کام کرنے والے بعض ادارے کسی کو جواب دہ نہ ہوں؟ ہم تو سمجھتے ہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں نے ملکی اداروں کو آئین اور قانون کے ماتحت کرنے کے لئے مثبت قدم اٹھایا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے وہ ڈٹ گئے ہیں۔ جس کے بعد لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب شہزاد احمد خان نے بعض اداروں کے ذمہ داروں کو طلب کر تے ہوئے لاپتہ افراد کے کیسز کی سماعت کو براہ راست نشر کرنے کا حکم دیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا ہے اگر کوئی عدالتوں کا احترام نہیں کرے گا تو عدلیہ سے بھی امید نہ رکھی جائے۔ چیف جسٹس نے جوڈیشل افسران کی پری ٹریننگ تقریب سے خطاب کرنے ہوئے بتایا اس وقت صوبے کی عدالتوں میں چودہ لاکھ مقدما ت زیر سماعت ہیں اور آٹھ سو جوڈیشل افسران کی کمی ہے۔ انہوں نے ججوں سے کہا وہ بلا خوف وخطر اپنے فرائض انجام دیں ہم سب اللہ تعالیٰ کو جواب دہ ہیں روز قیامت ہمارے ساتھ کوئی دوسرا نہیں ہوگا بلکہ ہر ایک نے اپنا حساب دینا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی تعریف کرتے ہوئے کہا وہ بانی پاکستان کے دیرینہ ساتھی قاضی محمد عیسیٰ کے فرزند ہیں جو آئین اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں۔ ہمارے ایک مہربان ہائی کورٹ کے راست باز جج رہ چکے ہیں انہوں نے ایک موقع پر کسی ادارے کے سربراہ کو نوٹس بھیجا تو انہیں بہاولپور بینچ میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ اگر عدالتوں کے احترام کی بجائے ان کا مذاق اڑایا جائے گا تو ہمارا ملک کبھی سدھر نہیں سکے گا۔ چیف جسٹس ہائیکورٹ کے خطاب سے یہ امید پیدا ہوئی ہے مستقبل قریب میں جج صاحبان کسی خوف کے بغیر اپنے فرائض کی انجام دہی کریں گے۔ ویسے بھی ہمیں رسالت مآب ٔ کے اس قول کو مدنظر رکھنا چاہیے جن اقوام میں انصاف نہیں ہوتا وہ تباہ برباد ہو جاتی ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے ہماری تباہی میں کون سی کسر باقی ہے ملک کا کوئی ادارہ درست سمت میں نہیں چل رہا ہے ہر طرف کرپشن کا دور دورہ ہے۔ حال ہی میں گندم اسکینڈل کا منظر عام پر آیا چند روز تک خبریں آنے کے بعد اس بات کا ابھی تک تعین نہیں ہو سکا ہے اسکینڈل کی انکوائری ایف آئی اے یا نیب کرے گا۔ دراصل گندم سکینڈل میں بڑے بڑے لوگ ملوث ہیں وہ جو کمزور اور بھاری سفارش نہیں رکھتے تھے انہیں ملازمت سے معطل کر دیا گیا ہے حالانکہ اسکینڈل میں ملوث لوگوں کو جیلوں میں ہونا چاہیے تھا۔ حکومت نے خراب گندم کی فروخت کے لئے اشتہار جاری کر دیا ہے۔ اس وقت ملک میں آئین اور قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے عدالتیں کسی کو ضمانت دیتی ہیں تو اسے رہائی کے وقت کسی اور مقدمہ میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ حکومت خواہ کسی کی ہو عدلیہ لوگوں کی آخری امید ہوتی ہے جہاں سے لوگوں کو انصاف کی توقع ہوتی ہے اگر انصاف کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں تو ملک کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں اور اداروں کو ملک میں قانون کی بالادستی میں عدلیہ کا بھرپور ساتھ دینا چاہیے اس میں کسی جیت ہے نہ کسی کی ہار ہے بلکہ اسی میں سب کی عزت ہے۔ وہ لوگ جو قانون توڑتے ہیں ملکی مفاد کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہوں انہیں ان کے انجام تک پہنچانا چاہیے۔ گندم سکینڈل کوئی معمولی بات نہیں قومی خزانے کے اربوں روپے کا معاملہ ہے اگر حکومت آئین اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے تو اسے اسکینڈل میں ملوث افراد کو نشانہ عبرت بنانا چاہیے۔ ہم عدلیہ کی بالادستی کی بات کر رہے تھے ملکی حالات کا تقاضا ہے کہ تمام ادارے اپنی حدود وقیود میں رہتے ہوئے فرائض کی انجام دہی کریں۔ ملک وقوم کے ساتھ گزشتہ سات عشروں سے زیادہ وقت میں بہت کچھ ہو چکا ہے۔ آئین اور قانون کی بالادستی میں ملک وقوم کی بہتری ہے۔ ہمیں آزاد کشمیر کے عوام کی مثال سامنے رکھنی چاہیے جو اپنے حقوق کے حصول کی خاطر جدوجہد کرنے کی مثال قائم کردی۔ ماروائے آئین اور قانون اقدمات نے ملک کو پہلے بہت نقصان پہنچایا ہے لہذا ریاست کو بچانے کے لئے تمام اداروں کو آئین اور قانون کے ماتحت کرنا بہت ضروری ہے۔ جب تک مبینہ کرپشن میں ملوث افراد کو ان کے انجام تک نہیں پہنچایا جاتا اور آئین اور قانون کے سامنے تمام اداروں کو جواب دہ نہیں بنایا جاتا ہمارا ملک ترقی سے محروم رہے گا۔

جواب دیں

Back to top button