Column

ہائے ری قسمت !

تحریر : سیدہ عنبرین
یوم تکبیر پر ملک بھر میں عام تعطیل کا اعلان کیا گیا اور تمام اہم ترین اداروں کو اطلاعاتی خط ارسال کر کے اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ کہیں کوئی غلطی سے اپنا دفتر کھول کر نہ بیٹھ جائے۔ کئی یوم تکبیر ایسے گزر گئے جب تعطیل کی ضرورت محسوس نہ کی گئی، نظریہ ضرورت کے تحت قوم کو ایک روز کی چھٹی ایسے زمانے میں دی گئی ہے جب اس مفلوک الحال ملک کے بسنے والوں کو دن میں 8گھنٹے کام کرنے کی بجائے 16گھنٹے دیانتداری سے کام کرنا چاہئے۔وزارت عظمیٰ ہاتھ سے نکلنے کے بعد پارٹی صدارت کیلئے نااہل قرار دینے والوں کو کالی بھیڑوں کا نام دیا گیا ہے۔ یاد رہے بھیڑوں کے گلے میں سب کالی بھیڑیں نہیں ہوتیں، سفید بھیڑوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، کالی بھیڑیں تو دوچار فیصد ہوتی ہیں، سفید بھیڑوں کا ذکر نہ کرنا ناانصافی ہے، پارٹی کی صدارت حاصل کرنے کے بعد 25برس پرانی تقریر دل روز آواز میں کی گئی، یہ داستان غم سناتے ہوئے سنانے والے خود آبدیدہ ہو جاتے ہیں، سننے والوں کی آنکھوں میں آنسو نہیں آتے کیونکہ یہ سکرپٹ پہلی مرتبہ تو ٹریجیڈی تاثر قائم کرنے میں کامیاب رہا لیکن اب یہ سیاسی کامیڈی کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ سامعین وہی ہیں جو 25برس سے یہ تقریر سن رہے ہیں اور سر دھن رہے ہیں، اس موقع پر جو جتنا جھومتا ہے وہ پارٹی اور حکومت اتنا ہی بلند مرتبہ پاتا ہے۔
پارٹی صدارت حاصل کرنا نئے منتخب صدر کیلئے کسی بھی زمانے میں کوئی مسئلہ نہیں رہا، سو یہی کیفیت اس مرتبہ بھی تھی، ان کی کامیابی کا اعلان ہوتے ہی سیاسی وراثت کے حصول میں کامیابی حاصل کرنے والی دختر اپنی نشست سے اٹھیں، انہوں نے آنکھوں میں عقیدت کے آنسو لا کر مبارک پیش کی، تمام ووٹرز بھی نشستیں چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہونے پر مجبور ہوئے، جو شاید بیٹھے بیٹھے اور کچھ تو سوتے سوتے ہی مبارک دینا چاہتے تھے۔ بعد ازاں برادر خورد نے بڑھ کر بلائیں لیں، پھر مبارک سلامت کا سلسلہ شروع ہوا، پوری سیاسی جماعت میں پارٹی کی صدارت کا کوئی اہل موجود نہ تھا، اس لئے شاید پارٹی صدارت اپنے ہی گھر میں رکھنے کا فیصلہ ہوا ہے، قومی انتخابات کی طرح اس الیکشن نما سلیکشن کا نتیجہ بھی قوم کو پہلے ہی معلوم تھا لیکن یہ جان کر بہت افسوس ہوا کہ مٹھائی بیچنے والوں کے پاس اس خوشی کے موقع پر خصوصی آرڈر بک نہ کرائے گئے۔
یہ انتخاب اس روز رکھا گیا جس روز پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے تھے۔ ایٹمی دھماکے کرنے سے گریزاں قیادت پارٹی صدارت حاصل کرنے کے بعد کوئی سیاسی دھماکہ کر پائے گی یا نہیں اس سوال کا جواب عوام سے پوچھا گیا تو جواب نفی میں آیا، ایٹمی دھماکہ کابینہ کے اہم وزراء آن ریکارڈ متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ ان کی حکومت دھماکہ کرنے کیلئے تیار نہ تھی، پھر یہ دھماکے انہوں نے ہی کرائی جنہوں نے ایٹم بم بنوایا تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر اپنے ایک انٹرویو میں بتا گئے کہ یہ لوگ تو پٹاخہ پھوڑنے کی ہمت نہ رکھتے تھے لیکن اس کے باوجود تاریخ کو مسخ کرنے کی اجتماعی کوششیں جاری ہے اور ہر سال اس کا کریڈٹ لینے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر کہتے ہیں اس پراجیکٹ کے نکتہ آغاز سے انجام تک وہ اس کے ساتھ وابستہ رہے لیکن انہیں اس تقریب میں شرکت کیلئے کوئی دعوت نامہ نہ ملا حتیٰ کہ ’’ دھماکہ دن‘‘ سر پر آن پہنچا تو انہوں نے ایک اہم شخصیت سے فون پر بات کی اور انہیں صورتحال سے مطلع کیا، جس پر انہوں نے ایک جہاز بھیجا جو انہیں لے کر بلوچستان پہنچا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر بتاتے تھے کہ جب وہ دھماکوں کی سائٹ پر پہنچے تو کئی اکابرین حکومت ان کے ساتھ ایک دوسرے کی شکل حیرانی سے دیکھنے لگے۔
پارٹی کے صدر، وزیراعظم پاکستان، ڈپٹی وزیراعظم اور نصف پاکستان یعنی صوبہ پنجاب کی وزیراعلیٰ سب کا تعلق ایک ہی گھر سے ہے، پارٹی کی صدارت ہی نہیں دیگر اہم عہدوں کیلئے بھی پورے پاکستان میں پھیلی ہوئی سیاسی جماعت میں کوئی اس قابل نہ ملا جسے کوئی بھی عہدہ دیا جا سکتا، یہ جمہوریت کا حسن نہیں ہمارے یہاں رائج جمہوریت کا مکروہ چہرہ ہے، جس کی دنیا میں دو ٹکے کی عزت نہیں، جب اس نظام کوئی عزت و توقیر نہیں تو اس نظام کے کل پرزوں کو دنیا کہاں لکھتی ہے تحریر کرنے کی ضرورت نہیں، ہمارے اہم ترین ملکی عہدے رکھنے والے جب کسی ملک کے دورے پر جاتے ہیں وہاں ایک بورڈ لگا دیا جاتا ہے ’’ ادھار مانگ کر شرمندہ نہ کریں‘‘، مگر ہم پھر بھی دوسروں کو شرمندہ کرنے کیلئے خود شرمندہ نہیں ہوتے بلکہ میزبان کو یاد کراتے ہیں کہ ان کے بزرگوں نے، بڑوں نے ہمیشہ ہماری مدد کی ہے، آپ کا فرض ہے کہ آپ بھی ہماری مدد کریں، کیونکہ ہم آپ سے بحیثیت مسلمان بہت محبت کرتے ہیں، اس پر ہمیں جواب ملتا ہے کہ ’’ ادھار محبت کی قینچی ہے‘‘، ہم پھر بھی نہیں سمجھتے اور اصرار کرتے ہیں کہ چلیئے کوئی جھوٹ موٹ کا اعلان ہی کر دیں، تاکہ ہم دنیا کو بتا سکیں دنیا ہمارے ساتھ ہے۔ درحقیقت کوئی اب ہمارے ساتھ نہیں، ہماری لوٹ مار اور دھوکہ دینے کی داستانیں آئی ایم ایف کو دیئے گئے جعلی اعداد و شمار سے شروع ہوتی ہے اور متعدد مرتبہ سی پیک شروع کرنے اس پر کام کی رفتار سست کرنے بلکہ اس پر کام بند کرنے اور ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کی تعمیر کیلئے دیئے گئے فنڈز کھا جانے تک جاتی ہیں۔ یہ فنڈز ایران سے اپنے حصے کی لائن تعمیر کرنے کے بعد ہماری طرف سے تعمیر میں فنڈز میں کمی کا بہانہ بنانے پر دیئے تھے جو مکمل ہضم ہو چکے ہیں، کہاں لگائے گئے کوئی نہیں جانتا۔
یوم تکبیر کی تقریبات کا حال اور سیاسی جماعت کی صدارت حاصل کرنے کے بعد کی گئی تقریر میں کالی بھیڑوں کا مفصل ذکر تو میڈیا گھر گھر پہنچا چکا ہے لیکن قوم اسی زبان سے سفید بھیڑوں کا ذکر بھی سننا چاہتی تھی جن کا کبھی کوئی کسی موقع پر ذکر نہیں کرتا۔ ایک سفید بھیڑ ایسی تھی جو ایک انتہائی نازک موقع پر متحرک ہوئی اس وقت عدالت پر حملہ ہو چکا تھا اور حالت نزع آچکی تھی، سفید بھیڑ ایک چارٹر جہاز میں بیٹھ کر بلوچستان گئی اور نجات کا پروانہ لے کر آئی۔ ایک اور سفید بھیڑ نے ہاتھ سے جا چکی حکومت کو بحال کیا، جس پر اسے چارے کی جگہ کراچی میں ایک مہنگے پوش علاقے میں بیش قیمت پلاٹ الاٹ کیا گیا۔
ایک اور سفید بھیڑ کی آڈیو لیک ہوئی جس میں سفید بھیڑ کو بتایا جا رہا تھا کہ وڈے پا جی آپ سے ناراض ہیں آپ نے ان کے مخالف سیاستدان کو بہت کم سزا سنائی ہے جس پر بھیڑ جواب دیتی ہے آپ بتائیں اسے کتنی سزا چاہتے ہیں، پھر بھیڑ کہتی ہے کوئی بات نہیں میں اور آپ مل کر پا جی کو منا لیں گے۔ پا جی کو ابھی شکوہ ہے انہیں پانچ مرتبہ اقتدار تو ملا لیکن اقتدار دینے والوں کی سچی محبت نہیں ملی۔ ہائے ری قسمت !

جواب دیں

Back to top button