Column

قومی اداروںکی نجکاری:قومی اثاثوںکی عالمی سرمائے میں منتقلی!

تحریر : اسرار ایوبی
حال ہی میں موجودہ حکومت نے پبلک سیکٹر کے25 اداروں اور قیمتی سرکاری اثاثہ جات کی حتمی طور پر نجکاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اگرچہ حکومت کے اس فیصلہ پر مختلف حلقوں میں بڑے پیمانے پر تنقید ہورہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود موجودہ حکومت قومی خدمات کے اداروں کی نجکاری کی پالیسی کے پیش نظر اس عمل کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہے۔ معاشی اصطلاح میں پبلک سیکٹر اداروں کی نجکاری (Privatisation)سے مراد کسی سرکاری، نیم سرکاری یا سرکاری اداروں کے زیر انتظام قائم پبلک سیکٹر اداروں کو نجی ملکیت میں دینا ہے۔ حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے(IMF)کو بھی بیمار اور خسارے میں چلنے والے پبلک سیکٹر اداروں اور اثاثوں کی جلد از جلد نجکاری کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
وزارت خزانہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت مختلف شعبوں میں قومی تحویل میں لئے گئے212 پبلک سیکٹر ادارے کام کر رہے ہیں جن میں سے 197ادارے نااہلی اور بدانتظامی کے باعث سخت خسارے کا شکار ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ2016ء میں ان پبلک سیکٹر اداروں کے مجموعی نقصانات ملک کی جی ڈی پی کا نصف فیصد تھے جو اب بڑھ کر آٹھ گنا ہو چکے ہیں۔ واضح رہے کہ ملک میں نصف صدی قبل ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں متعدد نجی بینکوں، انشورنس کمپنیز، صنعتوں اور دیگر اہم نجی اداروں کو قومی تحویل میں لے لیا گیا تھا ۔ جس کے نتیجہ میں ملک کی صنعتی اور معاشی ترقی بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ اسی طرح ماضی میں قومی اداروں پی ٹی سی ایل اور کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کی نجکاری کے نام پر بیرونی سرمایہ کاروں کو اونے پونے داموں اور ناقص شرائط پر فروخت کے نتیجہ میں ان پبلک یوٹیلیٹی اداروں کی جانب سے لاکھوں صارفین سے منافع خوری اور بدترین خدمات اور ناقص کارکردگی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ لیکن اس حقیقت کے باوجود ایک نکتہ نظر کے مطابق اب دنیا بھر میں صنعتی ، کاروباری اور دیگر تجارتی اداروں کو سرکاری سرپرستی میں چلانے کا تصور متروک ہوچکا ہے۔
ملک میں پبلک سیکٹر اداروں کی نجکاری کے لئے نجکاری کمیشن کا قیام 22جنوری 1991ء کو فنانس ڈویژن وزارت خزانہ، حکومت پاکستان کے ایک ماتحت ادارہ کی حیثیت سے عمل میں آیا تھا۔ تاکہ حکومت کے زیر نگرانی مختلف پبلک سیکٹر اداروں اور قومی اثاثوں کے نجکاری کے منصوبوں پر عملدرآمد کیا جاسکے۔ بعد ازاں 28ستمبر 2000ء کو دی پرائیوٹائزیشن کمیشن آرڈیننس جاری کرکے کمیشن کو حکومت کی نجکاری پالیسی کے نفاذ اور اس کی قانونی اتھارٹی مضبوط کرنے کے لئے اسے ایک کارپوریٹ ادارہ کی شکل دی گئی تھی۔ موجودہ حکومت نے برسراقتدار میں آنے کے بعد معروف کاروباری شخصیت عبدالعلیم خان کو وزیر برائے نجکاری مقرر کیا ہے ۔ نجکاری کمیشن کا بورڈ اس کے چیئرمین وفاقی وزیر عبدالعلیم خان، وزارت کے سیکرٹری اور چھ ارکان پر مشتمل ہے۔ نجکاری کمیشن کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ سرکاری اثاثوں ،بینکوں، صنعتی یونٹوں، پبلک یوٹیلیٹیز تیل، بجلی، گیس کے اداروں اور ٹرانسپورٹ کمپنی کے حصص اور انفراسٹرکچر خدمات کی نجکاری ایک کھلے اور شفاف انداز میں کی جائے۔
لیکن بیمار اور خسارہ کا شکار پبلک سیکٹر اداروں کی نجکاری کے معاملہ پر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو قومی اثاثوں کی اہمیت کے حامل ان پبلک سیکٹر اداروں کی نجکاری ملک کی معیشت کے لئے سراسر ایک گھاٹے کا سودا معلوم ہوتا ہے اور یہ فیصلہ حکمرانوں کی جانب سے قومی مفادات کے یکسر خلاف اور بدعنوانی کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ جبکہ دفاعی اہمیت کے حامل قومی اداروں کی نجکاری تو خودکشی کے مترادف ہے کیونکہ ایسا عمل کرنے والے حکمران بدعنوان ہی نہیں بلکہ غداری کے زمرہ میں آتے ہیں۔ بیمار اور غیر منافع بخش پبلک سیکٹر اداروںکی ناکامی کی بنیادی وجوہات ان اداروں میں بڑے پیمانے پر بدانتظامی ، نااہلیت اور سیاسی بھرتیوں کے نتیجہ میں بے تحاشہ اخراجات ، کم آمدنی اور ناقص کارکردگی ہیں۔
معروف دانشور اور عالمی سرمایہ داری نظام پر گہری نظر رکھنے والے سینئر صحافی نجم الحسن عطاء کی نجکاری کے شعبہ میں عمیق تحقیق کے مطابق حکومت کی جانب سے ان قومی پبلک سیکٹر اداروں کی نجکاری کا پس پردہ مقصد ان قومی اثاثوں کی عالمی سرمایہ میں منتقلی ہے۔ وہ ایک مضمون میں رقمطراز ہیں کہ عصر حاضر میں نجکاری سامراجی کنٹرول (Imperial control)کے تحت کی جاتی ہے جس کے نتیجہ میں بین الاقوامی بینک ، اسٹاک مارکیٹ اور مقامی حکمران ٹولہ اور نوکر شاہی اس عمل سے مالی فوائد حاصل کرتے ہیں ۔ جن کا حتمی مقصد یہ ہوتا ہے کہ آلودگی اور بڑھتی ہوئی آبادی کے کرپشن زدہ بے ہنگم انتظامی شہروں میں ہر قسم کی کرنسی کی یلغار سے کسینو معیشت (Casino Economy)کو تقویت دی جائے اس عمل سے عالمی سرمایہ کے مردہ ڈالروں کی گلوبلائزیشن میں جان پڑجاتی ہے اور چھاپے گئے منجمند پڑے ہوئے کھربوں ڈالر متحرک ہوکر غریب دنیاکو صارف منڈی(Consumer Market) بناکر قرضوں میں جکڑ دیتے ہیں ۔ نجکاری کے پروگرام کو ترتیب دینے کے لئے سامراجی فنڈ وصول کرنے والے مشیر ،معاشی دہشت گرد اور حکومتیں یہ کام بخوشی سر انجام دیتی ہیں اورقیمتوں کا تعین کرنے کے علاوہ یہ بااثر افراد کو متوجہ کرتی ہیں جو ’’پروکسی‘‘بھی ہوسکتا ہے۔ نجکاری کا دائرہ عمل یا احاطہ کار، فریم ورک کا تعین معاشی طاقتوں کی ایما پر عالمی مالیاتی ادارے طے کرتے ہیں ۔ اس دوران گلوبلائزیشن کا استحصال متحرک ہوجاتا ہے اور امریکی کاروباری ارب پتی جارج سورس (George Soros)جیسے سٹہ باز جگہ جگہ اپنی دولت’’ پارک‘‘ کرکے اسٹاک مارکیٹوں میں جوا کھیل کر اناڑیوں کو لوٹ لیتے ہیں ۔ چنانچہ عوام کی کمائی پر جمع ہونے والے ٹیکسوں کی آمدنی اور ان سے قائم کئے گئے قیمتی اور اہم قومی اثاثے عالمی سرمایہ داروں کو منتقل ہوجاتے ہیں جن کی واپسی کسی طور ممکن نہیں۔
جدید ملائشیا کے بانی، مدبر اور دوبار وزیر اعظم کے منصب پر رہنے والے رہنما مہاتیر بن محمد کے الفاظ میں کہ ’’ نجکاری اندرونی قدر میں نہ تو اضافہ کرتی ہے اور نہ ہی روزگار کو بڑھاتی ہے بلکہ اسے گھٹاتی ہے‘‘۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ نجکاری کے عمل سے مقامی سرمایہ کاری میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے نتیجہ میں پیداواری قوتیں توانا ہوتی ہیں اور نا ہی اس سے عوام الناس کو کوئی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
’’ سامراجی قوتوں‘‘ کے مراکز میں نجکاری کی حکمت عمل اس طرح طے کی جاتی ہے کہ ارتکاز دولت ہو تاکہ عالمی سرمایہ کے بہائو میں کوئی رکاوٹ یا سرحد حائل نہ ہوسکے ۔
نجکاری کے معنی یہ نہیں کہ کہ صرف کسی ایک ادارہ کو ہی ’’ ٹیک اوور‘‘ کرنا ہے بلکہ اس کا بنیادی مقصد چن چن کر کسی بھی ملک کے ایسے پیداواری سٹرکچر کو ختم کرنا مقصود ہوتا ہے جو عالمی مسلط کردہ سامراجی کنٹرول یا عالمی سرمایہ کے لئے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہو۔ ایک مرتبہ ان پبلک سیکٹر اداروں کی نجکاری ہوجائے تو ازخود ہی اس کا ثمر عالمی ساہوکار کھائیں گے۔ اس عمل میں سوشلزم اور نیشنل ازم کے خوف کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، کنٹرولڈ جمہوریت یا ملٹری حکومتوں سے یہ کام پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر ہی کرایا جاتا ہے اس لئے اس قسم کی جمہوریت عوام الناس کے لئے بے معنی ہوجاتی ہے۔ اس سارے تناظر میں اجتماعی جدوجہد سماجی انصاف کا حصول اور تبدیلی کا عمل ابہام کا شکار ہوکر دم توڑ دیتا ہے اور نتیجہ میں قومی ریاست کا تشخص عالمی تجارتی تنظیم کے تابع ہوجاتا ہے۔ بھاری صنعتوں کی نجکاری سی حاصل ہونے والی رقوم سے قرضہ چکایا جاتا ہے اور اس طرح نجی ملکیت میں آنے والے اداروں کے منافع کی رقوم عالمی سرمایہ میں ضم ہوجاتی ہیں۔ ماضی میں نجکاری کئے گئے بینکوں اور پی ٹی سی ایل کو ہونے والا منافع قانونی شکل میں ڈالروں میں بیرون ملک چلاجاتا ہے۔
1951ء میں قائم ہونے والی ملک کی اولین فضائی کمپنی اورینٹ ایئرویز سے سفر طے کرتے ہوئے پی آئی اے جیسی عظیم فضائی کمپنی نے اپنی فنی اور پیشہ ورانہ معاونت کے ذریعہ متحدہ عرب امارات کی فضائی کمپنی اور اتحاد ایئرلائن تشکیل دی تھی جو آج اپنی بہترین گورننس اور اعلیٰ پیشہ ورانہ خدمات کے نتیجہ میں دنیا کی مایہ ناز فضائی کمپنیوں میں شمار ہوتی ہے۔ پی آئی اے 1975ء تک دنیا میں اپنے اعلیٰ معیار اور پیشہ ورانہ خدمات کے لحاظ سے ایک نامور فضائی کمپنی کا درجہ رکھتی تھی۔ لیکن حکومتوں کی نا اہلیت ، بد انتظامیوں اور سیاسی بھرتیوں کی باعث رفتہ رفتہ یہ عظیم فضائی کمپنی زوال پذیر ہوگئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کارپوریٹ کے شعبہ میں انگریزی زبان کے تین ایم(M) مین ، منی اور میٹریل بہت ضروری ہوتے ہیں۔ جس کی بنیاد اور معیاری پیمانے پر کاروباری ادارے مستحکم ہوتے ہیں۔
عالمی مالیاتی اداروں کی نظریں اس وقت سے ہی اس بہترین قومی اثاثہ پر گڑی ہوئی تھیں اور سامراجی قوتوں نے اسے زوال پذیر کرنے کی تیاری بھی کرلی تھی۔ اس مقصد کے لئے 1996ء میں عالمی بینک نے مقروض ملک پاکستان کو ملازمین کو سبز باغ دکھاکر ملازمت سے فارغ کرنے کے لئے سنہری مصافحہ(Golden Handshake) کے نام پر ایک خطیر رقم فراہم کی تھی۔ چنانچہ اس طے شدہ منصوبہ بندی کے نتیجہ میں پی آئی اے کے بہترین تکنیکی ماہرین، انجینئرز اور ہوابازوں کو ادارہ سے باہر کر دیا گیا تھا۔ لیکن ان فنی اور پیشہ ور ماہرین کی طلب ساری دنیا میں تھی تو سب سے پہلے قطر ایئر لائن نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا تھا ۔ بعد ازاں خطہ کی دیگر فضائی کمپنیوں نے بھی پی آئی اے کے اس تجربہ کار عملہ کی خدمات حاصل کر لیں اور پھر دنیا نے دیکھا کہ پی آئی اے سے فارغ کئے گئے تربیت یافتہ اور تجربہ کار عملہ کی کھیپ نے اپنی فنی اور پیشہ ورانہ مہارت اور تجربہ کی بدولت ان چھوٹی چھوٹی فضائی کمپنیوں کو بام عروج پر پہنچا دیا۔
اس وقت مجموعی طور پر ملک کے25 اہم پبلک سیکٹر ادارے نجکاری کی فعال فہرست میں شامل ہیں ۔ جن ریئل اسٹیٹ کے شعبہ میں سروسز انٹر نیشنل ہوٹل لاہور ، جناح کنونشن سنٹر اسلام آباد، پی آئی اے روز ویلٹ ہوٹل نیویارک امریکہ، وفاقی حکومت کی ملکیت/ کنٹرول کی املاک ، ہوابازی کے شعبہ میں قومی فضائی کمپنی پی آئی اے، مالیاتی شعبہ میں پاکستان ری انشورنس کمپنی، اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن آف پاکستان، ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن ، فرسٹ ویمن بینک لمیٹڈ ، صنعتی شعبہ میں سندھ انجنیئرنگ لمیٹڈ کراچی اور پاکستان انجینئرنگ کمپنی(PECO) لاہور، توانائی کے شعبہ میں ملک کے مختلف شہروں میں قائم بجلی کی تیاری اور تقسیم کنندگان ادارے 1223 میگاواٹ کا بلوکی پاور پلانٹ،1230 میگاواٹ کا حویلی بہادر پاور پلانٹ 747میگاواٹ کا گدو پاور پلانٹ،425 میگاواٹ کا نندی پور پاور پلانٹ ،فیصل آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی لمیٹڈ، اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی لمیٹڈ، لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی لمیٹڈ،گوجرانوالہ الیکٹرک سپلائی کمپنی لمیٹڈ، ملتان الیکٹرک سپلائی کمپنی لمیٹڈ، پشاورالیکٹرک سپلائی کمپنی لمیٹڈ، حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی لمیٹڈ، کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی لمیٹڈ، سکھر الیکٹرک پاور کمپنی اور ٹرائبل الیکٹرک سپلائی کمپنی شامل ہیں۔ لہٰذا ماضی میں کی گئی پبلک سیکٹر اداروں کی نجکاری کے منطقی نتائج ثابت کرتے ہیں کہ قومی پبلک سیکٹر اداروں اور قیمتی اثاثوں کی نجکاری ایک خطرناک عالمی سامراجی معاشی منصوبہ معلوم ہوتا ہے جو ملک کی معیشت کے لئے سم قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button