
تحریر : محمد مبشر انوار (ریاض)
پاکستان کو معرض وجود میں آئے سات دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن یہاں کے حالات بدلنے کا نام نہیں لے رہے بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان میں تنزلی واضح دکھائی دے رہی ہے۔ریاست کے چار بنیادی ستون مقننہ،انتظامیہ ،عدلیہ اور میڈیا میں سے بظاہر ایک ستون بھی اپنے آئینی دائرہ اختیار میں کام کرتا دکھائی نہیں دے رہا بلکہ ہر ستون دوسرے کی آزادی کے درپے ہے کہ نہ خود اپنے دائرہ کار میں رہنے کو تیار ہے اور نہ ہی دوسرے کو اس کے دائرہ اختیار میں رہنے کی اجازت دیتا ہے۔ مقننہ قوانین بناتے وقت معاشرے کی بجائے مخصوص افراد یا گروہ کے مفادات کو مد نظر رکھتی ہے تو انتظامیہ کی طرف سے محکموں میں بے جا مداخلت کی شکایات ہیں، عدلیہ کے متعلق یہ گمان راشخ ہو چکا ہے کہ وہ مراعات یافتہ طبقے کو ہی انصاف فراہم کرتی ہے تاہم حالیہ لہر اس تاثر کوزائل کرتی دکھائی دے رہی ہے ،رہی بات میڈیا کی تو بالعموم اس کے متعلق بھی ایسی ہی شکایات ہیں کہ رپورٹنگ کے دوران حقائق کے برعکس یا ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر اپنے فرائض انجام دیتا نظر آتا ہے۔ تاہم میڈیا کے حوالے سے یہ باتیں اب قصہ ماضی بن چکا ہے کہ ماضی میں ایک صحافی اپنے ادارے کی پالیسی کے تابع رہتا تھا اور اس معاہدے کے مطابق اسے حدودوقیود کا سامنا رہتا تھا لیکن آج صورتحال اس کے برعکس ہے کہ ایک جید صحافی کے لئے اب بے شمار مواقع موجود ہیں اور اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کے لئے اسے دیگر پلیٹ فارم میسر ہیں،اس لئے وہ صحافی کھل کر حقائق بیان کررہے ہیں۔اپنے فرائض کی انجام دہی میں ان صحافیوں کے لئے کتنی مشکلات ہیں،اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس دشت میں انتہائی قابل قدر صحافی شہید ارشد شریف اپنی جان قربان کر چکا ہے تو عمران ریاض خان گذشتہ دو برسوں میں کئی مہینوں تک پابند سلاسل رہا ہے،ایک منخنی سا شاعر،ادیب اور صحافی فقط اپنی ایک نظم کے باعث آج بھی مغوی ہے،جس کا مقدمہ اسلام آباد ہائیکورٹ سن رہی ہے اور امید واثق ہے کہ کل بروز جمعہ اس کی بازیابی ممکن ہے،جس کی یقین دہانی اٹارنی جنرل نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں کروارکھی ہے۔ قوانین بنائے جاتی ہیں،مبینہ طور پر ایک ہی جرم کے لئے محکموں کی تعداد بے شمار ہو چکی ہے لیکن جرائم کی شرح میں دن دگنی رات چوگنی ترقی دکھائی دیتی ہے،ان محکموں میں بیٹھے ہوئے اہلکاروں کی قابلیت و اہلیت ایک سوالیہ نشان بنتی جا رہی ہے ،مقدمہ بناتے وقت بڑے بلند و بانگ دعوے کئے جاتے ہیں مگر دوران تفتیش معاملات الٹ ہونا شروع ہو جاتے ہیں،گنگا الٹی بہنا شروع ہو جاتی ہے،البتہ تفتیشی کے مراسم بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ کاروباری مراسم استوار ہو جاتے ہیں اور مجرم کے خلاف ثبوت و شواہد عدالت تک پہنچ نہیں پاتے اور یوں وہ باعزت بری ہو جاتا ہے یا حکم امتناعی پر اپنی زندگی گزارتا ہے۔ایسی کئی ایک مثالیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جس کے باعث معاشرے میں جرم مسلسل بڑھ رہا ہے کہ جرائم پیشہ افراد کے لئے قانون ایک مکڑی کے جالے سے زیادہ اہمیت ہی نہیں رکھتا اور وہ اسے بآسانی،اہلکاروں کی مدد سے اپنے گھر کی لونڈی بنانے میں کامیاب رہتے ہیں ۔ یوں یہ ریاستی مشینری ،ریاست کی بجائے ان مجرمان کی زرخرید غلام بنی دکھائی دیتی ہے ،مجرمان کو یہی اہلکار دوران تفتیش سقم بتاتے ہیں تا کہ انہیں اس سے نکلنے میں آسانی میسر ہو جبکہ دوسری طرف غریب ،بے بس اور چھوٹے جرائم پیشہ کی مشکیں ایسے کسی جاتی ہیں کہ الامان الحفیظ تاآنکہ ان کی تربیت صحیح خطوط پر کرکے انہیں دوبارہ معاشرے میں نہ بھیج دیا جائے۔یہ پاکستانی عوام کی حقیقی بدقسمتی کی داستان ہے کہ سیاسی حوالوں سے تعیناتیاں ،ترقی و تبادلوں نے ریاستی مشینری کو مفلوج کر رکھا ہے ،جس کا نتیجہ یہ ہے کہ عام آدمی کے لئے مواقع محدود تر ہوتے جا رہے ہیںاور اس کی جمع پونجی لوٹنے والوں کی چاندی اور پاکستان جنت سے کم نہیں ۔
حالیہ عام انتخابات کے ن نتیجہ میں قائم ہونے والی حکومت کے لئے سب سے بڑا مسئلہ اس وقت میڈیا اور صحافی حضرات بنے ہوئے ہیں کہ وہ مسلسل مختلف ذرائع سے اس حکومت کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھا رہے ہیں کہ یہ حکومت دھونس دھاندلی ،زور و جبر کی بدولت قائم ہوئی ہے ۔ اس کی سہولت کاری میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانبداری عیاں ہے جو ہنوز مختلف حیلوں بہانوں اور ہتھکنڈوں سے جاری ہے،انتخاب ہارے ہوئے امیدواران کو خاص منصوبے کے تحت،کامیاب کروایا گیا ہے اورمتاثرین کی دادرسی میں بھی بے جا تاخیر کی جارہی ہے تاہم اسلام آباد کے الیکشن ٹربیونل کے قیام کے بعد،متاثرین کی شنوائی شروع ہو چکی ہے اور الیکشن کمیشن کے لئے اپنی مجرمانہ جانبداری کا تحفظ کرنا مشکل ہو رہا ہے۔الیکشن ٹربیونل کی سماعت سے یہ دکھائی دے رہا ہے کہ الیکشن کمیشن کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ سجنے جا رہا ہے،مجھے یقین ہے کہ میرے یہ الفاظ بہرطور ’’ ہتک الیکشن کمیشن‘‘ کے زمرے میں نہیں آئیں گے،کہ یہ تجزیہ کرتے ہوئے میرے سامنے عدالتی کارروائی ہے اور ممکنہ منطقی نتیجہ یہی بنتا ہے۔ ویسے سوال یہ ہے کہ اگر الیکشن کمیشن نے ایسی جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے تو پھر ایسا تجزیہ توہین/ہتک کے زمرے
میں کیونکر آ سکتا ہے کہ بطور الیکشن کمیشن جب محکمہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں جانبداری کا مرتکب ہوتا ہے، کیا اس وقت یہ محکمہ کی ’’ توہین/ہتک‘‘ نہیں ہوتی؟بعینہ یہی سوال دیگر اداروں اور محکموں سے بھی ہے کہ اگر وہ اپنے دائرہ اختیار سے باہر نکلتے ہوئے ریاستی امور میں مداخلت کرتے ہیں یا اپنے فرائض کی انجام دہی میں کسی جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہیں ،تو کیا وہ بذات خود اپنے ادارے/محکمہ کی ’’ توہین/ہتک‘‘ کے مرتکب نہیں ہوتے؟ اس پر انہیں کیا سزا تجویز ہوتی ہے یا کیا وہ اس کی سزا بھگتتے ہیں یا سزائوں کا یہ عذاب صرف ان لوگوں کے لئے ہے، جنہیں یہ کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں؟کیا عزت لاٹھی،گولی سے مل سکتی ہے ؟اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے فرائض منصبی ادا کرتے ہوئے،کسی عہدیدار کو خواہ عہدہ کوئی بھی ہو،عوام عزت بخش سکتی ہے؟دوسری طرف اولیاء کرام کی زندگی دیکھیں،عدل و انصاف و توازن قائم رکھنے والے کسی سربراہ خاندان کو دیکھیں کہ اس کے حلقہ اثر میں رہنے والے،اس کی تکریم کس طرح کرتے ہیں،کیا انہیں اپنی عزت کے لئے کسی کو کہنا پڑتا ہے؟آپ کا عمل بذات خود، دوسروں کو آپ کی تکریم و عزت کے لئے آمادہ کرتا ہے ،آپ کا قول و فعل ہے،جس کی بنیاد پر آپ کی عزت کی جاتی ہے، آپ کی غیر جانبداری ہے، جو آپ کو قابل عزت بناتی ہے،کسی سے کہنا نہیں پڑتا کہ اس کی عزت کی جائے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان اگر غیر جانبدارانہ طریقہ سے بروئے کار آیا ہوتا تو یقینی طور پر کسی بھی فریق کی جانب سے نہ الزام لگتا اور نہ ہی الیکشن کمیشن کو ’’ توہین الیکشن کمیشن ‘‘میں کسی شخص یا پارٹی کو مقدمہ میں الجھانا پڑتا ،عزت حاصل کرنے کے لئے قابل عزت کام کرنا ہی بنیادی شرط ہے۔
الیکشن کمیشن کی اس مجرمانہ جانبداری کا پردہ اسلام آباد میں چاک ہو رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ احمد فرہاد کی بازیابی کے لئے مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے اور اس سماعت کے دوران عدالت نے جو ریمارکس دئیے،ان کی رپورٹنگ پر پیمرا نے انوکھی پابندی لگائی ہے کہ دوران سماعت عدالتی ریمارکس کی رپورٹنگ نہیں کی جا سکتی۔اس قدر بے تکی پابندی کے متعلق پاکستان جیسی ریاست میں ہی تصور کیا جا سکتا ہے کہ ایک طرف چیف جسٹس آف پاکستان عدالتی نظام کو شفاف دکھانے کے لئے اس کی براہ راست نشریات کروا رہے ہیں اور دوسری طرف پیمرا ،چند طاقتوروں کی سرزنش والے ریمارکس کی رپورٹنگ پر پابندی عائد کر رہی ہے،چہ معنی دارد،گو کہ امید ہے کہ اس پابندی کو پہلی سماعت پر ہی ختم کر دیا جائیگا لیکن ایسی حرکتوں پر اگر کوئی ’’ عزت‘‘ کا مطالبہ کرے،تو عوام کیسے عزت افزائی کرے گی،اس میں کوئی مبالغہ باقی نہیں رہنا چاہئے۔ یہی صورتحال پنجاب حکومت کی ہے جس نے میڈیا قابو کرنے کے لئے نیا قانون متعارف کروانے کا ارادہ باندھا ہے بعینہ جیسے چچا نے پی ڈی ایم سربراہ حکومت کے طور پر نیب ترامیم کروائی تھی اور نیب سے اپنے اور خاندان کے مقدمات ختم کروائے تھے، ویسے ہی وزیراعلیٰ بھتیجی، آئے روز صحافیوں کی ’’ شبانہ روز‘‘ محنت و تحقیق سے سامنے لانے والے سکینڈلز کو ’’ ہتک عزت‘‘ قانون میں دبانے کی متمنی دکھائی دیتی ہے۔ میڈیا، دور جدید میں ،ریاست کا چوتھا ستون ہے، جس کا فرض ہے کہ و ہ حکومت یا ریاستی مشینری کے کرتوت عوام کے سامنے لائے،حکومت کو اپنی حدود میں رکھے، ایسے قوانین کے اجراء سے حکومت کی عزت نہیں ہو سکتی کہ ’’ عزت پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملتی بلکہ اپنے کردار سے کمانی پڑتی ہے‘‘ جو ہتک عزت کے قوانین لانے سے نہیں بلکہ نیک نیتی سے عوامی خدمت کے طفیل نصیب ہوتی ہے، جس کا امکان موجودہ حکومت، اس کے پشت پناہوں کو نصیب ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔





