Abdul Hanan Raja.Column

فیک نیوز سے وابستہ ، روزگار

تحریر : عبد الحنان راجہ
ابلاغیات و سماجیات کے ماہرین تو یہ کہتے ہیں کہ جھوٹی خبروں کا کاروبار وہاں زیادہ کہ جہاں عوام کے پاس خبر کی تصدیق کے ذرائع نہ ہوں یا کم، مگر میری دانست میں ’’ فیک نیوز کا پھیلائو سر زمین بے آئین میں زیادہ ہوتا ہے کہ وہاں شعبہ صحافت سے وابستہ افراد ہوں یا عوام، کسی کو جھوٹ کہنے، سننے اور اس کے ابلاغ میں کوئی شرمندگی نہیں ہوتی اور نہ ہی قانون میں اتنی سکت کہ وہ انکی اس جسارت پر گرفت کر سکے‘‘۔ چند روز قبل کشمیر میں ہونے والے احتجاج میں علیحدگی پسندانہ اور بھارت نواز گفتگو جوبن پر رہی اور کتنے مظاہرین کے قتل عام کی خبریں سوشل میڈیا کی زینت بنیں۔ بعد ازاں بشکیک میں طلبہ پر ہونے پر پرتشدد حملوں کی رپورٹنگ کو ہی دیکھ لیجیے۔ ایک نامور پاکستانی یوٹیوبر جو آج کل کینیڈا میں ہیں، نے حملوں میں 13طلبہ کے جاں بحق ہونے اور پاکستانی سفارت خانہ کی عدم دلچسپی پر اسے خوب رگیدا۔ پھر پاکستان میں ایک طبقہ نے اس کے پھیلائو میں حصہ ڈالا تو عام شہری بھی اس پر یقین پہ مجبور ہو گیا جبکہ حقیقت بالکل اس سے برعکس تھی۔ مزہ تو اس وقت آیا کہ جب ہمارے کئی ’ معزز یوٹیوبرز‘ کہ جن کی آمدنی کا انحصار ہی جھوٹ، بہتان اور ہیجان انگیز وی لاگز پر، نے تو رو رو کر کئی طلبا کو سفر آخرت پر روانہ بھی کر دیا۔ یہ تو بھلا ہو طیاروں کا کہ بروقت پہنچ گئے اور طلبہ اگلے کی بجائے واپس پاکستان کی طرف عازم سفر ہو گئے۔
چند روز قبل چاغی کے مقام سے تابکاری کے اخراج کی پوسٹ زیر گردش رہی۔ یہ سب گزشتہ چند روز کے واقعات، مگر ذمہ دار اداروں نے جاگنا تھا نہ جاگے۔ بطور مسلمان ہم نے کبھی سوچا کہ ہمارے دین میں جھوٹ کے ابلاغ، بہتان اور الزام تراشی بارے کیا احکامات ہیں۔ آئین پاکستان بھی اس پر واضح مگر اس طبقہ کا کیا کریں کہ جن کے فالورز لاکھوں مگر انہیں اسلامی اقدار کا حیا ہے اور نہ اخلاقیات کا۔ رہا آئین، وہ تو ہے ہی پامال ہونے والی شے۔ جھوٹ کے ابلاغ میں معاشرے کے کم و بیش تمام طبقات ہی ملوث مگر جب سے نوجوان نسل کو یہ پلیٹ فارم میسر ہوا تو گویا، بندر کے ہاتھ استرے کے مصداق اس کو اس بے رحمی سے استعمال میں لایا جانے لگا کہ الاماں الحفیظ۔ اسی شور شرابے میں ہی حدود و قیود، صحافتی آداب اور اخلاقیات سے بے بہرہ تیسری جنس یو ٹیوبرز اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹس نے جنم لیا۔ جن کے روزگار کا انحصار ہی فتنہ انگیزی، نفرت اور جھوٹ پر ہے۔ ( اس میں معلوماتی اور علمی اور حقیقت بر مبنی ابلاغ والے شامل نہیں)۔ برطانیہ سمیت دنیا بھر کے مہذب ممالک میں فیک نیوز پر بھاری جرمانے اور اداروں کی بندش جیسے قوانین موجود، کئی پاکستانی چینلز اور صحافیوں کو جرمانے ہوئے مگر کسی صحافتی تنظیم کی طرف سے کوئی شور و غوغا نہ ہوا کہ قانون تھا اور قانون ہوتا ہی عمل درآمد کے لیے۔ روس میں انٹرنیٹ کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے ایپس موجود اور وہاں کسی کو جھوٹی خبر کی اشاعت کی جرات نہیں۔ ایران میں بھی اس بارے سخت قوانین، مگر ہمارے ہاں گنگا ہی الٹی بہتی ہے۔ فیک نیوز کے خلاف بل پیش کرنے والی وزیر اعلیٰ پی ٹی آئی دور میں اس کی مخالف اور آج وہی بدلہ حزب اختلاف اتار رہی ہے۔ حیرت تو ان دانشواران اور صحافت کے مہامنتریوں پر ہوتی ہے کہ جو اسے آزادی اظہار رائے پر قدغن سے جوڑتے ہیں۔ چین کی مثال ہمارے لیے قابل تقلید، کہ وہاں کبھی بھی ذرائع ابلاغ کو مادر پدر آزادی نہیں رہی۔ فیس بک اور اس طرح کی کئی دیگر ایپلیکیشنز ان کی اپنی اور ہر سطح پر نگرانی کا موثر نظام۔ اتنی بڑی آبادی میں لغویات کا پھیلائو نہ ہونے کے برابر کہ وہاں قوانین پر صرف عمل درآمد ہوتا ہے اور وہ بھی بلا تفریق۔ مزے کی بات یہ کہ سخت ترین قوانین کبھی ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے۔
میری نظر میں فیک نیوز بل کی مخالفت کی ایک ہی معقول وجہ، کہ اس بل پر عمل درآمد ( اگر ہوا) سے ہمارے سیکڑوں ہزاروں سوشل میڈیا ایکٹوسٹس، یو ٹیوبرز، مستقبل کے احوال جاننے والے صحافی اور کئی سیاست دان و دانشوران کہ جن کے علم کا بنیادی مآخذ ہی سوشل میڈیا اور جو فیک نیوز سے روشنی لیتے ہیں بے روزگار ہو جائیں گے۔ ہمارے ہاں تو اظہار رائے کی مادر پدر آزادی اس حد تک کہ جھوٹی خبروں کا پھیلائو، مخالفین کی عزتیں پامال کرنا، قومی سلامتی دائو پر لگانا، حتی کہ ملک اور اداروں کیخلاف بولنا عام سی بات ہو چکی۔
خیر سوشل میڈیا کی کارستانیاں تو ابھی شروع ہوئیں مگر پاکستان میں ائین کی دھجیاں بکھیرنے کی تاریخ کم و بیش اتنی ہی پرانی ہے جتنی اس کے قیام کی۔ لگتا ہوں ہے کہ لاقانونیت ہماری سیاست، حکومت اور نظام کا جزولانفیک ہے کہ بڑے سے بڑے سانحات، مذہب و سیاست کے نام پر پرتشدد مظاہرے، کھلم کھلا قتل و غارت گری اور سر عام ظلم، مگر کسی بھی واقعہ کے ملزمان کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا گیا۔ مظلوموں کے لواحقین کی عمریں انصاف کے حصول میں گزر جاتی ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹائون کو ہی دیکھ لیجیے ایک دہائی گزری، کئی حکومتیں بدلیں مگر قاتل آج بھی زندہ و طاقتور۔ قانون کے عدم اطلاق اور سزا و جزا کے عدم تصور نے ہی دراصل سیاسی مظاہرین کو 9مئی جیسے سانحہ پر اکسایا۔ ریاست کی کمزور پالیسیوں نے ہی اس کے بعد سے لیکر اب تک سوشل میڈیا و دیگر پلیٹ فارمز پر ملک اور قومی سلامتی کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والوں کو چھوٹ دے رکھی ہے۔ یاد رکھیے کہ قانون کی من پسند تشریح، پسند و ناپسند کی بنیاد پر فیصلے اور طاقتور و کمزور کے لیے الگ الگ قوانین معاشرے، ملک، قوم اور ملت کی تباہی کا راستہ ہیں۔ ناسور تو ہر معاشرے اور ہر دور میں موجود رہے ان کا تعین قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ان کی بیخ کنی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ بدقسمتی یہ رہی کہ کوئی کماحقہ اپنی ذمہ داری سے عہدہ برا نہ ہو سکا۔ مگر اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مصلحتوں کو بالائے طاق اور مجبوریوں کو پس پشت ڈال کر ملکی ترقی و استحکام کے لیے دین، ملک، عوام اور اخلاق دشمنوں کے خلاف قانون پوری قوت سے حرکت میں آئے اسی میں ہماری عزت بھی ہے اور بقا بھی۔

جواب دیں

Back to top button