Column

عالمی عدالت انصاف کا رفح آپریشن فوری روکنے کا حکم

فلسطین پچھلے 7ماہ سے زائد عرصے سے لہو لہو ہے۔ ناجائز ریاست اسرائیل کی جانب سے وہاں آتش و آہن برسانے کا سلسلہ متواتر جاری ہے۔ جنگی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مسلسل بے دردی کے ساتھ حملے ہورہے ہیں۔ فلسطینی مسلمانوں کی بدترین نسل کشی جاری ہے۔ 35ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کیا جاچکا ہے۔ ان میں بہت بڑی تعداد میں معصوم بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ ناجائز ریاست نے ظلم و ستم میں ہلاکو اور چنگیز خان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ فلسطین پر فضائی، زمینی اور بحری حملے جاری ہیں۔ غزہ کا انفرا سٹرکچر تباہ و برباد کیا جاچکا ہے۔ تمام تر عمارتیں ملبوں کے ڈھیروں میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ ان کے نیچے نہ جانے کتنے فلسطینی جام شہادت نوش کر چکے اور کتنے زندہ ہیں، کوئی شمار نہیں۔ فلسطین میں ہر سُو سسکتی انسانیت کے نوحے سنائی دیتے ہیں۔ کہیں اولادیں اپنے ماں، باپ کی رحلت پر غم سے نڈھال ہیں تو کہیں والدین معصوم اور جوان بچوں کی موت پر دُکھ کی شدّت سے ہلکان دِکھائی دیتے ہیں۔ اسرائیل نے جب فلسطین پر حملوں پر آغاز کیا تو بعض نام نہاد مہذب ممالک اُس کو مظلوم اور فلسطینیوں کو ظالم قرار دیتے نہیں تھکتے تھے۔ ہزاروں زندگیاں نگل لینے والی ڈریکولین ریاست کو مظلوم کہنے والوں کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ان کا شمار بھی بدترین ظالموں میں ہوگا۔ اسرائیل کے بے دردی سے کیے جانے والے حملوں پر پوری انسانیت تڑپ اُٹھی۔ دُنیا بھر کے ممالک نے اسرائیل سے حملے روکنے کے مطالبات کیے۔ اقوام متحدہ بھی بارہا حملے روکنے کے مطالبات کرتے دِکھائی دی۔ عالمی عدالت انصاف نے گزشتہ مہینوں اسرائیل کو فلسطین پر حملے روکنے کا حکم دیا تھا، لیکن سرپھرا اسرائیل کسی کے مطالبے کو خاطر میں نہیں لایا اور رواں ماہ اس نے رفح میں فوجی آپریشن کا آغاز کردیا۔ اس آپریشن کے دوران اس نے وہ اُدھم چوکڑی مچائی کی دُنیا کے ظالم و جابر ترین کہلائے جانے والے ہلاکو اور چنگیز خان کی روحیں بھی کانپ اُٹھیں۔ اب پھر عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کو رفح میں فوجی آپریشن فوری روکنے کا حکم دیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کو رفح میں فوجی آپریشن فوری روکنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل ایک ماہ میں اس حکم کے تحت کیے گئے اقدامات سے آگاہ کرے۔ عالمی عدالت انصاف نے غزہ میں جنگ بندی کی جنوبی افریقہ کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے اسرائیل کو جینوسائیڈ کنونشن کے مطابق رفح میں فوجی آپریشن روکنے کا حکم جاری کیا۔ نیدرلینڈز کے دارالحکومت ہیگ میں عالمی عدالت انصاف میں دنیا کے 14مختلف ملکوں کے ججوں کے ساتھ اسرائیل کا ایک ایڈہاک جج بھی بطور فریق موجود تھا۔ دوران سماعت عالمی عدالت انصاف کے صدر نواف سلام نے فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ عالمی عدالت انصاف نے کہا کہ فلسطینیوں کو خوراک، ادویہ اور ضروریات زندگی سے محروم رکھا گیا، 6 مئی کو 1لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو رفح سے نکالا گیا، اقوام متحدہ کے مطابق اب تک 8لاکھ فلسطینیوں کو نکالا
گیا۔ عدالت کے مطابق رفح میں اسرائیلی آپریشن سے نیا بحران پیدا ہوگیا، 26جنوری 2024ء کے فیصلے کے بعد انسانی بحران شدید ہوگیا۔ عالمی عدالت انصاف کے مطابق عدالت نے 28مارچ کو حکم میں کہا تھا کہ غزہ میں صورت حال انتہائی خراب ہے، اسرائیل نے 7مئی کو رفح میں فوجی آپریشن شروع کیا، غزہ میں انسانی صورت حال 28مارچ کے بعد مزید ابتر ہو چکی ہے۔ اسرائیل نے اقوام متحدہ کے خدشات کو دور نہیں کیا، اسرائیل نے لوگوں کے انخلا سے متعلق معلومات فراہم نہیں کیں۔ عدالت نے کہا کہ اسرائیل غزہ میں فوری فوجی آپریشن روکے، رفح کراسنگ کو بلارکاوٹ کھولا جائے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ جینوسائیڈ کنونشن کے مندرجات کے مطابق اسرائیل رفح میں نسل کشی کا مرتکب ہورہا ہے، اسرائیل فوری رفح میں فوجی آپریشن روک دے اور کوئی بھی ایسا آپریشن بھی روک دے جس سے غزہ میں رہنے والوں کی مشکلات میں اضافہ ہو۔ عالمی عدالت انصاف نے فیصلہ 2۔13کی اکثریت سے سنایا۔ عالمی عدالت انصاف کے ججوں نے کہا کہ اسرائیل کو جب 28مارچ کو غزہ میں انسانی بحران کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات کرنے کا حکم دیا تھا، اس کے بعد غزہ کی صورتحال مزید ابتر ہوگئی ہے۔ نواف سلام نے کہا کہ عدالت کی جانب سے مارچ میں عارضی اقدامات کا جو حکم دیا گیا تھا، لیکن وہ اب صورت حال کرنے سے قاصر ہیں۔ فیصلے میں مزید حکم دیا گیا کہ زیر محاصرہ غزہ کی پٹی تک اسرائیل تفتیش کاروں کو رسائی دے جو اس سلسلے میں پیش رفت پر ایک ماہ بعد رپورٹ کریںگے۔ دوسری طرف جنوبی افریقہ نے عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کیا جبکہ حماس اور فلسطینی اتھارٹی نے بھی فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے فیصلے پر عملدرآمد کرانے پر زور دیا ہے۔ عالمی عدالت انصاف کی جانب سے اسرائیل کو رفح میں فوجی آپریشن روکنے کا حکم بڑا فیصلہ ہے، لیکن ہٹ دھرم ریاست نے اس سے انکار کرکے بھرپور ڈھٹائی دِکھائی ہے، امریکا بھی اس کا ہمنوا دِکھائی دیتا ہے۔ اسرائیل امریکی آشیرواد سے غل مچارہا ہے اور کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ اسرائیل کو لگام نہ دی گئی تو دُنیا کا امن تہہ و بالا ہوکر رہ جائے گا۔ بہتری اسی میں ہے کہ اسرائیل ناصرف اس فیصلے کو من و عن تسلیم کرے، بلکہ عالمی عدالت انصاف کی جانب سے دئیے گئے تمام تر احکامات کی پاسداری بھی یقینی بنانی چاہیے۔ پچھلے مہینوں عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کو فلسطین پر حملے روکنے کا حکم دیا تھا۔ اس حکم کی بھی پاسداری کی جائے۔ اگر اسرائیل ایسا نہیں کرتا تو اس کے خلاف سخت سے سخت اقدامات یقینی بنائے جائیں۔ امریکا کو اس کی ہمنوائی سے پیچھے ہٹتے ہوئے مظلوموں کا ساتھ دینے کی روش اختیار کرنی چاہیے کہ ظالموں کے ہمنوائوں کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی اور مکافات عمل اُن کے لیے کڑے امتحان کا موجب بن جاتا ہے۔ ظالم کو آخر ایک روز اپنے ظلم سمیت مٹ جانا ہے۔ یہ دُنیا کا دستور ہے۔ اسرائیل بھی ان شاء اللہ جلد مٹ جائے گا۔ فلسطین سے اسرائیلی تسلط کے خاتمے کے دن نزدیک ہیں۔ پاکستان سمیت دُنیا کے بیشتر ممالک کا آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کا مطالبہ زوروں پر ہے اور فلسطین کو بہ حیثیت ریاست تسلیم کرنے کے سلسلے کا آغاز بھی ہوچکا ہے۔ پچھلے دنوں اسپین، آئرلینڈ، یورپی یونین کے ممالک کی جانب سے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کیا گیا ہے۔ ان شاء اللہ آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کا خواب جلد شرمندہ تعبیر ہوگا۔ خدا کی مدد اور نصرت آن پہنچی ہے کہ مظلوموں کی پکار کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔
کرغزستان سے طلبہ کی واپسی
کا آپریشن مکمل
گزشتہ ہفتے کرغزستان میں شرپسند عناصر کی جانب سے پاکستان اور دیگر ملکوں کے طلبہ و طالبات پر حملے کیے گئے تھے۔ تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ایک طالب علم کو اسپتال میں داخل بھی ہونا پڑا۔ اس حوالے سے جھوٹی اطلاعات بھی متواتر سامنے آتی رہیں۔ پاکستانی طلبہ کے جاں بحق ہونے کی خبریں متواتر نظروں سے گزرتی رہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ ان اطلاعات کا سامنے آنا تھا کہ اس کے بعد پورے ملک میں بے چینی پھیل گئی تھی۔ کرغزستان میں زیر تعلیم طلبہ کے والدین اور اہل خانہ ذہنی اذیت کا شکار تھے، اُنہیں اپنی اولادوں کی فکر دامن گیر تھی۔ اس ضمن میں حکومت پاکستان کا کردار انتہائی قابلِ تعریف رہا۔ کرغزستان کے سفیر کو طلب کرکے وہاں پاکستانی طلبہ و طالبات کو ہر طرح سے تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ حکومت نے طلبہ و طالبات کی فوری واپسی کا بندوبست کیا۔ پہلے ہی روز سیکڑوں طلبہ کی وطن واپسی ہوئی۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاً طلبہ و طالبات کی بحفاظت وطن واپسی کا سلسلہ جاری رہا اور اب قریباً تمام طلبہ و طالبات بحفاظت وطن واپس آچکے ہیں۔اس حوالے سے میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستانی طلبہ کو کرغزستان سے وطن واپس لانے کا آپریشن مکمل ہوگیا۔ طلبہ کی واپسی کے آپریشن میں ساڑھے 4 ہزار طلبہ وطن واپس آئے، جس کے اخراجات حکومتِ پاکستان نے برداشت کیے۔ ترجمان دفترِ خارجہ کے مطابق فیک نیوز نے پاکستانی طلبہ اور ان کے خاندانوں کو پریشان کیا، طلبہ کی درخواست پر انہیں وطن واپس لایا گیا۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ کرغزستان واپس جانے کا فیصلہ طلبہ کا اپنا ہوگا، وہاں صورت حال معمول پر آچکی ہے، چاہتے ہیں کہ آن لائن یا دیگر طریقوں سے طلبہ اپنی تعلیم جاری رکھیں۔ ذرائع کے مطابق کرغزستان سے صرف پاکستانی طلبہ واپس آئے جب کہ بھارت کے 19ہزار سے زائد طلبہ اب بھی کرغزستان میں موجود ہیں۔ دریں اثناء پاکستان میں متعین کرغزستان کے سفیر اولان بیگ نے کہا ہے کہ بشکیک میں پاکستانی طلبہ پر حملے سوشل میڈیا پر جعلی مہم کا نتیجہ تھے۔ کچھ شرپسند عناصر نے صرف پاکستانی طلبہ ہی کو نشانہ بنایا، ان شرپسند عناصر کو گرفتار کرکے تحقیقات شروع کی گئی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ کرغز اور مصری طلبہ کے درمیان ہونے والے تنازع کے بعد جھوٹی خبروں نے پریشانیوں میں بے پناہ اضافہ کیا۔ اس تناظر میں ملک میں فیک نیوز کی روک تھام کے لیے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت شدّت سے محسوس ہوتی ہے۔ اب جب کہ تمام طلبہ واپس آچکے ہیں، اُنہیں کسی طور اپنے تعلیمی سلسلے کو منقطع نہیں کرنا چاہیے۔ اس کو وہیں سے جاری رکھنا چاہیے جہاں سے یہ انقطاع کا شکار ہوئی تھی۔ اس کے لیے آن لائن تعلیم ایک بہترین ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے۔ دوسری جانب حالات معمول پر آچکے ہیں تو طلبہ پر منحصر ہے کہ وہ واپس جانا چاہتے ہیں یا نہیں۔ اس حوالے سے بھی اُنہیں جلد از جلد کوئی فیصلہ کرنا چاہیے۔

جواب دیں

Back to top button