ابراہیم رئیسی الوداع

تحریر : سیدہ عنبرین
ایران کے صدر جناب ابراہیم رئیسی ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہوگئے ہیں، یہ حادثہ ہمسایہ ملک کے ساتھ سرحد کے قریب پیش آیا جہاں انہوں نے ایک ڈیم کا افتتاح کیا۔ اس سفر میں ان کے ہمراہ اہم حکومتی شخصیات بھی تھیں، سب کا یہ سفر، سفر آخرت بن گیا، مختلف اہم شخصیات تین ہیلی کاپٹروں میں سوار تھیں۔ صدر ایران ابراہیم رئیسی کا ہیلی کاپٹر 45برس پرانا تھا۔ ایران کئی دہائیوں سے عالمی پابندیوں کی زد میں ہے لیکن اس نے پابندیوں میں جینے کے علاوہ اپنے وسائل پر زندہ رہنے کے ساتھ ساتھ ترقی کرنا بھی سیکھ لیا ہے، ایران میں سرکاری سطح پر ایک، ایک پیسہ سوچ سمجھ کر خرچ کیا جاتا ہے، سادگی ترجیح اول ہے، ورنہ وہ نئے ہیلی کاپٹر، نئے جہاز، نئی نئی چمچماتی گاڑیاں خرید سکتے ہیں، ان کے اتحادیوں میں روس جیسے ممالک شامل ہیں، جو امریکہ کی کسی پابندی کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس المناک حادثے پر ایران میں 5روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا ہے، حکومت پاکستان نے بھی اس موقع پر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور اظہار یکجہتی کے اظہار کیلئے ملک میں سوگ کا اعلان کیا۔ صدر مملکت جناب آصف علی زرداری، وزیر اعظم پاکستان جناب شہباز شریف اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے تعزیت کیلئے ایران جانے کا فیصلہ کیا جو قابل تحسین ہے ۔ خوشی اور غم کے موقعوں پر صاف خاندانوں میں نہیں بلکہ ممالک کے مابین ایسے موقعوں پر شریک ہونا قربتیں بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اہلیان پاکستان اور پاکستان کی سیاسی قیادت کی طرف سے مثبت جذبات کے اظہار سے دونوں ملکوں کو قریب آنے میں مدد ملے گی، طویل عرصہ تک امریکی زیر اثر حکومتوں کے سبب پاکستان اور ایران کچھ فاصلے پر نظر آئے، اس میں ایران نے ہر موقع پر فاصلوں کو کم کرنے کی کوشش کی لیکن ہماری مجبوریوں نے ہمیں آگے بڑھنے سی روکے رکھا، ہم کبھی ایک قدم آگے تو دو قدم پیچھے ہٹتے نظر آئے۔
گزشتہ ہفتوں میں صدر ایران جناب ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان پر آئے تو امکانات پیدا ہوئے کہ اب پاک ایران تعلقات میں ایک نئے باب کا اضافہ ہو گا۔ ایران میں انقلاب کے بعد شخصیات نظر سے ہٹ جانے کے بعد بھی ان کی پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آتی۔ ایرانی بحیثیت قوم اور ایرانی قیادت اپنے دوستوں اور دشمنوں میں تمیز کر چکے ہیں، اس حوالے سے عوام اور قیادت ہمنوا ہے، کہیں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں، وہاں بھی اس قسم کی اپوزیشن موجود ہے جیسی ہر ملک میں ہوتی ہے۔ ایران اور ان کی پالیسیاں امریکہ اور یورپ کو کھٹکتی ہیں، وہ باتیں تو پرامن دنیا کی کرتے ہیں لیکن امریکہ کے ساتھ اہم اور ذمہ دار یورپی ملکوں کی پالیسی نے دنیا کے امن کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، جبکہ ایران اس بات پر ہمیشہ سے زور دیتا آیا ہے کہ کسی ملک کو دوسرے ملک کے اندرونی معاملات، طرز حکومت اور پالیسیوں میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں۔ ہر ملک اپنے مفادات کے تحت دیگر ممالک سے اسی انداز میں تعلقات استوار کرنے کا حق رکھتا ہے جس طرح امریکہ اور یورپ کے دیگر ممالک اپنے لئے بہتر سمجھتے ہیں۔
ویٹو کا حق رکھنے والے ممالک میں نصف سے زائد دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتے ہیں، ان کی خواہش ہے کہ ان ممالک میں طرز حکومت کا فیصلہ وہ کریں، کون کسی سے تعلقات رکھے اور کن سے نہ رکھے یہ فیصلے بھی وہی کریں اور ہر ملک امریکہ اور ان کے اتحادی ممالک کیلئے اپنے دروازے کھلے رکھے، انہیں اپنے وسائل کو لوٹ مار کی اجازت دے اور امریکہ اور اس کے اتحادی جب چاہیں مختلف بہانے بنا کر اس ملک کے وسائل پر قبضے کیلئے اس طرح چڑھ دوڑیں جس طرح انہوں نے کویت، عراق، لیبیا پر قبضہ کیا اور اب جس طرح وہ افغانستان، مصر، شام، سوڈان اور فلسطین کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہے۔ ایران نے امریکہ کیلئے دنیا میں ’’بزرگ شیطان‘‘ کا نام رکھا جبکہ امریکہ نے اپنے طرز عمل سے ثابت کیا کہ وہ اس ٹائٹل کے معنوں پر پورا اترتا ہے۔ امریکہ کی بڑی خواہش تھی کہ ایران اسلامی انقلاب کے بعد بھی اس کا ہمنوا رہے، لیکن ایرانی قیادت نے سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا کہ ہزاروں میل دور امریکہ سے تعلقات کی قیمت پر وہ ہمسایوں سے تعلق نہیں بگاڑ سکتا۔ مزید برآں ایرانی قیادت امریکی پالیسیوں اور بالخصوص امریکہ کی مسلمانوں کے بارے میں پالیسیوں سوڈان، کشمیر، فلسطین کے حوالے سے طرز عمل سے گوارا نہ کرتی تھے کہ وہ ان مسلم کش دشمنوں کے حامی بن کر خاموش رہیں، پس فیصلہ ہوا کہ وہ امریکہ کے ہمنوا نہیں بن سکتے۔ انہوں نے امریکہ کے مقابلے میں روس اور چین سے تعلقات بڑھانے کو ترجیح دی، جس کے نتیجے میں ان پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ امریکہ، ایران کو روس کے خلاف استعمال کرنا چاہتا تھا، اس اقدام سے وہ چین کو کمزور کرنا چاہتا تھا لیکن ایرانی قیادت کے بروقت جرأت مندانہ فیصلے نے امریکہ کے تمام منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ امریکہ ہر معاملے کی طرح جوہری توانائی پر بھی اپنا تسلط قائم رکھنا چاہتا ہے، اس نے ایران پر ہر قسم کا دبائو ڈالا تاکہ اسے ایٹمی صلاحیت سے محروم رکھا جا سکے۔ ایران نے تمام خطرات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے واضح طور پر اعلان کیا وہ کسی بڑی طاقت کے زیر اثر آ کر اپنی خود مختاری کا سودا نہیں کرے گا اور یورنیم کی افزودگی جاری رکھے گا جو ایران پرامن مقاصد کیلئے استعمال کرے گا۔ یہ پالیسی تسلسل سے آگے بڑھتی رہی ہے، امریکہ نے ایران میں جوابی جمہوری اور امریکی انقلاب کیلئے عرصہ دراز سے اپنی کوششیں جاری رکھی ہیں، وہ اس حوالے سے براہ راست اور بالواسطہ ایک خطیر رقم خرچ کرتا ہے لیکن اسے اپنے مقاصد میں کامیابی نہیں ملی۔ اسلامی حکومت کا تختہ الٹنے، ایران کو انتشار کا شکار کرنے کے تمام منصوبے آشکار ہوئے اور ناکام بنا دیئے گئے۔ یہ عوام کا اپنی قیادت پر غیر متزلزل اعتماد تھا۔
امریکہ ایران کو تنہا کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے لیکن ایران خود کفالت کی منزل حاصل کر چکا ہے اس کے پاس وافر اناج پیدا کرنے کے وسائل موجود ہیں، اس کے تیل کا بڑا خریدار ایک نہیں ایک سے زیادہ ہیں، جنہیں امریکہ کسی طور بھی پابند نہیں کر سکا، اسے پابندیوں سے مشکلات کا سامنا ضرور ہے لیکن وہ ایرانی عوام اور ایرانی قیادت کے آہنی عزم کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکا۔
جناب ابراہیم رئیسی کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ہر طرف لاکھوں کی تعداد میں سیاہ پوش امڈے چلے آتے ہیں، لاکھوں منظم خواتین و حضرات اپنے قائدین کی میتوں کے ساتھ چل رہے تھے، کوئی ٹریفک جام، کوئی ہڑبونگ، کوئی دھکم پیل کہیں نظر نہ آئی۔ جنازے میں اتنی خلقت عرصہ دراز بعد نظر آئی، عرصہ قبل آیت اللہ روح اللہ خمینی کا جنازہ بھی اسی شان سے رخصت ہوا تھا۔ جناب ابراہیم رئیسی اور ان کے رفقا کی نماز جنازہ، آیت اللہ علی خامنہ ای نے پڑھائی جو اس سے قبل حکومت ایران کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز رہ چکے۔ ماضی میں انہوں نے صدر ایران کی حیثیت سے پاکستان کا دورہ کیا تو صرف ایک بات پر زور دیا کہ پاکستان دوستوں کا تعاون ضرور حاصل کرے لیکن اغیار پر آنکھیں بند بھروسہ کرنے کی بجائے اپنے پائوں پر کھڑا ہونا سیکھے۔ انہوں نے کئی دہائیوں قبل مسلمانوں کو خبردار کیا تھا کہ امریکہ کسی مسلمان ملک کا دوست نہیں، وہ ان کے وسائل پر قبضے کیلئے صرف مناسب وقت کا انتظار کرتا ہے، پھر حملہ آور ہو جاتا ہے۔ ابراہیم رئیسی ہمت جرأت و کردار کا بہترین نمونہ تھے، اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے الوداع ابراہیم رئیسی الوداع۔





