Column

اصول، انقلاب اور انتشار

تحریر : سی ایم رضوان
اصول اور انقلاب کبھی جدا جدا نہیں ہوتے۔ ماہرین عمرانیات کہتے ہیں کہ سیاسی جدوجہد اگر اصول کے بغیر ہو تو وہ انقلاب نہیں انتشار ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے آج کل پاکستان کو بھی ایک عدد انتشاری انقلاب کا سامنا ہے۔ ماضی بعید میں پاکستان میں سیاستدانوں اور ریاستی اداروں کے درمیان محاذ آرائی اس مسئلہ پر ہوتی تھی کہ ریاستی ادارے سیاست میں دخیل نہ ہوں لیکن موجودہ دور میں جس انتشاری انقلاب کو پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی چند انصافی اور صحافتی طاقتوں نے سر پہ اٹھا رکھا ہے اس کا نصب العین ہی ریاستی اداروں کا سیاست و حکومت میں اثر و نفوذ قائم کرنا ہے۔ اس سلسلے میں گزشتہ کچھ عرصہ میں ہونے والے واقعات اور چند سیاستدانوں کی جانب سے حقائق کی حامل پریس کانفرنسز پر عدلیہ کے نوٹس لئے جانے سے ایسا دکھائی دینے لگا ہے کہ اب سیاستدانوں اور عدلیہ یا یوں کہہ لیجیے کہ عدلیہ کے چند عناصر اور ملکی مفاد کی حامی اسٹیبلشمینٹ کے درمیان محاذ آرائی فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ یہ تاثر بھی اگر درست مان لیا جائے کہ عدلیہ پر تنقید کرنے والے سیاستدان ملک کی اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر ایسا کر رہی ہیں تو قیامت نہیں آ جائے گی اور اگر یہ بھی کہہ دیا جائے کہ مداخلت اور دبائو کا واویلا چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرنے جیسی کوشش ہے تو بھی درست ہو گا کیونکہ یہ تاثر بہرحال ایک ایسی جماعت کے لئے پیدا کیا جا رہا ہے جو اس دور میں ملک میں انقلاب کے نام پر انتشار برپا کرنا چاہتی ہے۔ اس پارٹی کے حق میں ان مخصوص ججوں کے اندھا دھند فیصلے بھی اس امر کی مضبوط دلیل ہیں۔
سینیٹر فیصل وواڈا نے بدھ کے روز ایک پریس کانفرنس کے دوران نہ صرف عدلیہ کے ان چند ججز پر تنقید کی بلکہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار کا نام لے کر ان کو بھی براہ راست آئینہ دکھایا۔ پریس کانفرنس کے دوران فیصل واوڈا نے کہا کہ جسٹس اطہر من اللہ میرا گمان ہے کہ وہ نہیں ہیں جو شہ سرخیوں کے لئے، میڈیا کی زینت بننے کے لئے فیصلے کرتے ہوں۔ میرا گمان ہے جسٹس من اللہ بزدل آدمی نہیں ہیں، میرا گمان ہے کہ جسٹس من اللہ کسی قسم کے گمان میں نہیں آتے، میرا گمان ہے کہ جسٹس اطہر من اللہ رات کے اندھیرے میں کسی سے نہیں ملتے، میرا گمان ہے کہ کسی پرانے خاص سے جسٹس من اللہ کا کوئی تعلق نہیں، میرا گمان ہے کہ جسٹس اطہر من اللہ کسی سیاسی جماعت کے میسنجر سے نہیں ملتے۔ فیصل واوڈا نے تنقید کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ سیاست دان اگر دوہری شہریت نہیں رکھ سکتا تو جج کیسے دوہری شہریت کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ فیصل واوڈا کی اس پریس کانفرنس پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لے لیا۔ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ میں جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس نعیم اختر افغان یعنی پاکستانی افغان شامل تھے۔ اس سماعت میں بھی فیصل واوڈا کے خلاف سخت ریمارکس دیئے گئے اور جس آزادی اظہار کی عام طور پر ایک جماعت کے حق میں بات کی جاتی ہے، فیصل واوڈا کے ضمن میں اس بات کو بھی یکسر فراموش کر دیا گیا اور کہا گیا کہ واوڈا کو ایسے نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ویسے نہیں کرنا چاہیے تھا۔ پریس کانفرنس کی بجائے پارلیمنٹ میں بات کرنی چاہئے تھی۔
نہ صرف یہ بلکہ دوسری طرف گزشتہ روز سپریم کورٹ میں نیب ترامیم سے متعلق انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت کرنے والے پانچ رکنی بینچ میں شامل جسٹس اطہر من اللہ نے انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت ملتوی ہونے پر کسی کا نام لئے بغیر اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ ہمیں پراکسیز کے ذریعے دھمکا رہے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہمیں کہا جا رہا ہے کہ پگڑیوں کو فٹ بال بنائیں گے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نہ ایسا ہو رہا ہے اور نہ ہی ایسا ہونا چاہیے۔ دوسری جانب جمعرات کے روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار آفس نے فیصل واوڈا کے اس خط کا جواب بھی دیا جو انہوں نے عدالت کو 30اپریل کو لکھا تھا۔ واضح رہے کہ اس خط میں فیصل واوڈا نے جسٹس بابر ستار کی تعیناتی سے قبل ان کے گرین کارڈ ہولڈر ہونے کی انفارمیشن فراہم کرنے کا ریکارڈ مانگا تھا۔ ہائیکورٹ کے جواب کے مطابق پاکستان کے آئین میں جج بننے کے لئے کسی اور ملک کی شہریت یا رہائش رکھنا نااہلیت نہیں اور کسی بھی وکیل سے ہائیکورٹ کا جج بنتے وقت اس سے دہری شہریت کی معلومات نہیں مانگی جاتیں۔ جواب میں یہ بھی کہا گیا کہ جسٹس اطہر من اللہ نے چھ ججز کے خط پر از خود کیس کی کارروائی میں اس بات کو واضح کیا اور بتایا کہ جسٹس بابر ستار کے گرین کارڈ کا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر بحث آیا اور اس کے بعد ہی بابر ستار کو بطور جج مقرر کرنے کی منظوری دی گئی۔ یہ بھی یاد رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز نے 25مارچ کو سپریم جوڈیشل کونسل کو اپنے ایک خط میں عدالتی امور میں آئی ایس آئی اور دیگر انٹیلی جنس اداروں کی طرف سے مبینہ مداخلت اور ججوں کو ہراساں کرنے کے الزامات عائد کیے تھے، جنہیں موجودہ سیاسی تناظر میں غیر معمولی سمجھا جا رہا ہے۔ ’’ آپ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر یہ کہہ دیتے ہیں کہ ادارے کون ہوتے ہیں مداخلت کرنے والے‘‘۔ اس ساری صورتحال میں گزشتہ روز دو دیگر پریس کانفرنسز بھی ہوئیں، جس میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما مصطفیٰ کمال نے بھی عدلیہ کو کمال تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ملک میں جعلی ڈگریوں، دہری شہریت پر ایم این ایز، سینیٹرز کو گھر جاتے دیکھا، عدلیہ جیسے ادارے میں قول و فعل میں تضاد آ رہا ہے، کیا دہری شہریت والے کسی شخص کو عدالت کا جج ہونا چاہیے؟۔ انہوں نے کہا کہ اگر دہری شہریت پر کوئی شخص رکن قومی اسمبلی نہیں بن سکتا تو کیا تمام اداروں میں دہری شہریت کے قوانین لاگو نہیں ہونے چاہئیں؟ ایک جج دہری شہریت پر عوامی نمائندے کو گھر بھیج سکتا ہے تو خود اس کے لئے یہ پابندی کیوں نہیں؟۔ مصطفیٰ کمال نے یہ بھی کمال کہا کہ اب لگ یوں رہا ہے کہ عدلیہ اور فوج کے درمیان کوئی جنگ چل رہی ہے اور صرف فوج ہی نہیں بلکہ سکیورٹی اداروں کو بھی اس میں گھسیٹا جا رہا ہے۔ ادھر استحکامِ پاکستان پارٹی کے رہنما عون چودھری نے بھی جمعرات کے روز ہی اسلام آباد کے پریس کلب میں پریس کانفرنس میں بات کرتے ہوئے کہا کہ بڑے آرام سے آپ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر یہ کہہ دیتے ہیں کہ ادارے کون ہوتے ہیں مداخلت کرنے والے کبھی آپ نے یہ سوچا ہے کہ اگر یہ ادارے نہ ہوں تو ہمیں باہر سے لوگ آ کر نقصان پہنچا کر آرام سے واپس چلے جائیں، اگر یہ ادارے اس مُلک میں نہ ہوں تو یہاں قانون نام کی کوئی چیز نہ ہو۔ عون چودھری کا کہنا تھا کہ رات میں عدالتیں کُھل سکتی ہیں اور فیصلے سُنائے جا سکتے ہیں تو جب کسی ادارے پر اُنگلی اُٹھائی جاتی ہے تو تب بھی آپ ویسے ہی ایکشن لیں اور ویسے ہی فیصلہ کریں۔ یہاں انصاف اور قانون کا نظام ایسا ہونا چاہیے کہ کوئی اس مُلک کے کسی ادارے پر اُنگلی نہ اُٹھائے۔ یہاں ہمارے مُلک کے ہر شہری کی عزت ہے اور یہاں سب کے لئے قانون برابر ہونا چاہیے۔ اگر یہ محاذ آرائی برقرار رہی تو ملک میں مارشل لا لگا دیا جائے گا، مکالمے اور آزادی اظہار رائے کے اصولوں کے مطابق تو مندرجہ بالا بیانات میں ایسا کچھ بھی نہیں کہ جس پر افسوس یا حیرانگی کا اظہار کیا جائے یا سو موٹو لے لیا جائے لیکن یہ بھی اندھیر نگری چوپٹ راج والا معاملہ ہے کہ مخصوص مقاصد کے تحت حالیہ مذکورہ واقعات اور پریس کانفرنسز کو بنیاد بنا کر مقدمات بنا کر عدلیہ اور اسٹیبلشمینٹ کے درمیان تصادم کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ فیصل عرب کا کہنا تھا کہ اگر ججز کی جانب سے کسی ادارے کے اہلکاروں کی طرف سے عدالتی امور میں مداخلت کا الزام عائد کیا گیا ہے تو اس کا سدباب ہونا چاہیے نہ کہ ان ججز کے خلاف سیاست دانوں سے پریس کانفرنسز کروا کر ان ججز کی عزت اچھالی جائے۔ انہوں نے کہا کہ جو شخص کسی ادارے کا بینیفشری ہوتا ہے اس کے خلاف نہ کوئی بات کرتا ہے اور نہ ہی اس کے خلاف کوئی بات سننا پسند کرتا ہے۔ بدقسمتی سے ادارے اپنی آئینی حدود میں نہیں رہتے اور حدود کا تعین آئین نہیں بلکہ آئین پر چلنے والے افراد کرتے ہیں۔ حالانکہ موصوف ان افراد کے خلاف بات بھی کر رہے ہیں جن کے متعلق یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی بات نہیں کر سکتا۔ فیصل عرب یہ بتانا بھی بھول گئے کہ کون کون سے ادارے آئینی حدود کو پامال کر رہے ہیں اور یہ بھی بھول گئے کہ ماشاء اللہ سے پاک عدلیہ کا دنیا میں عدل فراہم کرنے میں کون سا درجہ ہے۔ اسی طرح پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین امجد شاہ ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان محاذ آرائی ملک کے لئے نقصان دہ ہے اور اگر یہ محاذ آرائی برقرار رہی تو اس بات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ ملک میں مارشل لا لگا دیا جائے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ یہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ عدلیہ نے کھل کر عدالتی معاملات میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا نام لیا ہے جبکہ پاکستانی عدلیہ کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جن میں عدلیہ نے فوجی آمروں کا ساتھ دیا اور اس پر شرمندگی کا اظہار بھی نہیں کیا۔ معاملے کی سمجھ لگ رہی ہے کہ ماضی میں جب اسٹیبلشمنٹ آمریت چاہتی تھی تو یہ عدلیہ اس کے ساتھ ہوتی تھی اب اگر اسٹیبلشمنٹ نے آمریت اور خلاف جمہوریت اقدامات سے ہاتھ اٹھا لیا ہے تو اسی عدلیہ کے بعض عناصر اس کے خلاف کام کر رہے ہیں مطلب یہ کہ عدلیہ میں موجود بعض عناصر ملک میں سیاسی انصاف فراہم کرنے سے گریزاں رہے تھے اور اب بھی ہیں۔ امجد شاہ ایڈووکیٹ نے عدلیہ کے ان عناصر کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ اب اگر عدلیہ نے اپنے پائوں جما لئے تو یہ ملک میں اداروں کی مضبوطی کی جانب ایک اہم قدم ہو گا۔ یعنی ان کے بقول یہ محاذ آرائی بند نہیں ہونی چاہئے اور انقلاب کے نام پر انتشار برپا رہنا چاہیے۔

جواب دیں

Back to top button