لوٹ مار کی نئی داستان

تحریر : امتیاز عاصی
بیرون ملک پاکستانیوں کی جائیدادوں بارے خبر کوئی نئی بات نہیں ۔ ملک سے باہر جائیدادیں بنانے والوں کے خلاف انکوائریوں کے کئی کئی والیم بننے کے باوجود ان کا کوئی بال بیگا نہیں کر سکا۔ اب دبئی میں سیاست دانوں اور سرکاری اداروں کے اعلیٰ افسران کی بڑی بڑی جائیدادوں کے تفصیل اخبارات میں آچکی ہیں۔ ملک سے باہر جائیدادیں خریدنا کوئی جرم نہیں البتہ جن پیسوں سے بیرون ملک جائیدادیں خریدی گئی ہوں ان کے ذرائع آمدن اور ٹیکس کی ادائیگی کے علاوہ ترسیلات زر کے قانونی راستے استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس سے قبل ایون فیلڈ میں پاکستانیوں کی پراپرٹی عالمی سطح پر شہرت پا چکی ہے۔ سوال ہے جن سرکاری اداروں کے اعلیٰ افسران کی دوبئی میں پراپرٹی کی تفصیلات آئی ہیں کیا وہ اپنی تنخواہ سے رقم بچا کر بیرون ملک جائیداد خریدنے کے حامل ہو سکتے تھے؟۔ بدقسمتی سے برطانیہ اور دوبئی کے قوانین ایسے ہیں پاکستان کی حکومت غیرقانونی ذرائع سے حاصل کی جانے والی پراپرٹی کو سرکاری تحویل میں نہیں لے سکتی۔ ان ملکوں کو ایسے قوانین بنانے کی ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ ان کے ہاں خواہ ناجائز ذرائع سے رقوم کیوں نہ آتی ہوں ان کی معیشت مستحکم ہونے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ پاکستان سے جن سیاسی لوگوں اور سرکاری افسران نے برطانیہ اور دبئی میں جائیدادیں خریدیں ہیں کچھ سوچ سمجھ کر حاصل کی ہیں انہیں اس بات کا علم ہے حکومت ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ۔ دوسری بڑی وجہ یہ اس حمام میں سب ننگے ہیں لہذا کون کسی کے خلاف قانونی کارروائی کا سوچ سکتا ہے۔ ایک دوسری اہم وجہ بیرون ملک اثاثے بنانے کی یہ بھی ہے سرمایہ کاری کرنے والے جہاں اپنے سرمائے کو محفوظ سمجھتے ہیں لہذا وہ اسی جگہ اپنا سرمایہ منتقل کریں گے۔ بیرون ملک جائیدادیں بنانے والوں میں بھارت کا دوسرا نمبر ہے حالانکہ بھارت ہم سے زیادہ محفوظ ملک ہے لیکن وہاں کے لوگوں نے دوبئی میں جائیدادیں بنا رکھی ہیں۔ دبئی میں جائیدادیں بنانے والوں کی تفصیلات عالمی سطح کے ایک پروجیکٹ کے ذریعے سامنے آئی ہیں۔ ملک میں ناجائز دولت بنانے والوں کے خلاف کارروائی ہوتی اور کرپشن سے جمع کی ہوئی دولت کمانے والوں ک جیلوں میں ڈالا جاتا تو پاکستانیوں کی اتنی بڑی تعداد بیرون ملک پراپرٹی نہیں خرید سکتی تھی۔ احتساب کے اداروں کو سیاسی طور پر استعمال نہ کیا جاتا کرپشن کرنے والوں اور ناجائز دولت سے جائیدادیں بنانے والوں کے خلاف بلاتفریق قانون حرکت میں آتا تو ملک کی یہ حالت نہیں ہوتی۔ کرپشن کی دولت سے بیرون ملکوں میں جائیدادیں بنانے والوں کے ہاتھ اتنے لمبے ہیں نیب ، اینٹی کرپشن اور ایف آئی اے ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ قومی احتساب بیورو کے قوانین میں کچھ سختی تھی جو پی ڈی ایم دور میں کرپشن میں مبینہ ملوث سیاست دانوں نے تبدیلیاں کر کے ناجائز دولت کو قانونی شکل دے دی۔ ملک تماشا بن چکا ہے کوئی حکومت کسی سیاست دان یا سرکاری افسر کے خلاف کرپشن کا مقدمہ درج کرتی ہے تو اول تو اسی حکومت کے دور میں مقدمات داخل دفتر ہو جاتے ہیں ورنہ نئی آنے والی حکومت مقدمات کو ختم کر دیتی ہے۔ عجیب تماشا ہے کرپشن کے خلاف مقدمات درج کرنے والے ادارے جن لوگوں کے خلاف ناجائز دولت کا مقدمہ قائم کرتے ہیں وہی عدالتوں میں جا کر ملزمان کو بے گناہ قرار دے دیتے ہیں۔ بیرون ملک بڑی بڑی جائیدادیں بنانے کی ایک دوسری بڑی وجہ یہ ہے لوگ ٹیکس دینے کے عادی نہیں ہے ہر سرمایہ دار کی یہ خواہش ہوتی ہے اسے ٹیکس ادا نہ کرنا پڑے بس ایک غریب عوام رہ گئے جن پر ٹیکسوں کی ادائیگی کا بوجھ رہتا ہے۔ ملک میں رشوت کا دور دورہ ہے ٹیکس وصول کرنے والے ٹیکس دینے کی طرف عوام کو راغب نہ کریں تو کون ٹیکس ادا کرے گا۔ حیرت ہے اندرون اور بیرون ملک بڑی بڑی جائیدادیں بنانے والوں سے آمدن کے ذرائع پوچھنے والا کوئی نہیں ۔ سرکاری ملازمین بے چارے تو اپنی تنخواہوں سے واجب الادا ٹیکس کی کٹوتی کرانے کے پابند ہیں ان کی تنخواہوں سے ان کا محکمہ از خود مطلوبہ ٹیکس کاٹ لیتا ہے۔ ملک میں ٹیکس اصلاحات کی اشد ضرورت ہے کچھ اس طرح کے قوانین لائے جائیں کاروباری طبقہ ٹیکس دینے سے کسی طور بچ نہ سکے اس کے ساتھ اس مقصد کے لئے ٹیکس وصول کرنے والوں کا راست باز ہونا بہت ضروری ہے۔ اخبارات میں جن جن حضرات کی دوبئی میں جائیدادوں کی تفصیلات اخبارات میں آئی ہیں ان میں بہت سوں نے بیرون ملک اپنے اثاثوں کو ٹیکس رٹیرن میں ظاہر کر رکھا ہے۔ اگرچہ ان لوگوں نے ٹیکس رٹیرن میں اثاثوں کو ظاہر کیا ہے تاہم ٹیکس حکام کی یہ ذمہ داری ہے ان سے آمدن کے ذرائع او ر ان سے ہونے والی بچت کی معلومات حاصل کریں جن سے انہوں نے دوبئی میں جائیدادیں بنائی ہیں۔ ہم دوسرے ملکوں کا اپنے ملک سے موازنہ کریں تو ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں صدارت جیسے اعلیٰ منصب پر بیٹھنے والوں کو کسی قسم کی باز پرس سے استثنیٰ حاصل ہے۔ بھلا ایک اسلامی ریاست میں کیا ایسا ممکن ہے۔ رسالت مآبؐ سے صحابہ کرام ؓ کے ادوار پر نظر ڈالیں تو ان کے اثاثوں سے اسلامی ریاست کا ہر فرد واقف تھا جب کہ پاکستان جو اسلام کے نام پر قائم ہوا یہاں بڑے بڑے لوگوں کو خواہ وہ کتنی کرپشن کیوں نہ کر لیں استثنیٰ حاصل ہے۔ حکومت کو آزاد کشمیر کے عوام کی اپنے حقوق کے لئے چلائے جانی والی تحریک سے سبق سیکھنا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو یہاں کے لوگ بھی کرپشن کے دولت سے اثاثے بنانے والوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ پاکستان کے عوام کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے وہ مہنگائی کے ہاتھوں بے زار ہیں۔ حکومت کو چاہیے جن لوگوں کے نام دبئی لیکس میں آئے ہیں ان سے بیرون ملک اثاثے بنانے کے ذرائع آمدن بارے پوچھ گچھ کرے ۔ ملک میں جس روز بلا تفریق احتساب کا عمل شروع ہو گا اس دن سے ہمارا ملک بہتری کی طرف گامزن ہونا شروع ہو جائے گا اگر یہ نہیں ہو سکا تو ہماری داستان بھی نہ رہے گی داستانوں میں۔





