Column

شمس الدین التمش

تحریر : علیشبا بگٹی
متحدہ ہندوستان نے کثیر سلاطین اور فرما نروان دیکھے جو تخت اقتدار کے وارث بنے اور گزرتے وقت کے ساتھ تاریخ کا حصہ بنتے رہے۔۔۔۔۔ ایک وقت یہ بھی تھا جب ملک کے بادشاہ کے اندر عبادت، پرہیز گاری اور دینی سمجھ بوجھ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہوتی تھی۔ آج کے اس گئے گزرے دور میں بندہ ان واقعات کو سنے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ چنانچہ حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ کی نمازِ جنازہ کا واقعہ بھی عقل کو حیران کر دینے والے واقعات میں سے ایک ہے۔۔۔۔۔ کہتے ہیں کہ جب حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ کی وفات ہوئی تو ہندوستان بھر میں کہرام مچ گیا۔ جنازہ تیار ہوا اور اسے ایک بڑے میدان میں نمازِ جنازہ ادا کرنے کیلئے لایا گیا۔ مخلوق مور و مگس کی طرح جنازہ پڑھنے کے لیے نکل پڑی تھی۔ انسانوں کا ایک سمندر تھا جو حدِ نگاہ تک نظر آتا تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ ایک بپھرے ہوئے دریا کی مانند یہ مجمع ہے۔ جب نمازِ جنازہ پڑھانے کا وقت قریب آیا تو اچانک مجمع میں سے ایک آدمی آگے بڑھا اور مجمع کی طرف رخ کرکے کہنے لگا کہ ’’ میں حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ کا وصی ہوں۔ مجھے حضرتؒ نے ایک وصیت کی تھی لہذا میں اس مجمع تک حضرت مرحوم کی وہ وصیت پہنچانا چاہتا ہوں۔ مجمع سننے کے لئے خاموش ہوگیا۔ وصیت کیا تھی؟ سنیے! وصی نے کہا کہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ نے مجھے یہ وصیت کی تھی کہ ’’ میری نمازِ جنازہ وہ شخص پڑھائے جس کے اندر چار خوبیاں موجود ہوں۔ 1، پوری زندگی میں اس کی تکبیر اولیٰ کبھی بھی قضا نہ ہوئی ہو۔ 2، اس کی تہجد کی نماز کبھی بھی قضا نہ ہوئی ہو۔ 3، وہ اتنا عبادت گزار ہو حتیٰ کہ اس نے عصر کی سنتیں بھی کبھی نہ چھوڑی ہو۔ 4، اس نے زندگی میں غیر محرم عورت پر کبھی بھی بری نظر نہ ڈالی ہو۔۔۔ لہذا جس شخص میں یہ چاروں خوبیاں موجود ہوں وہ میری نمازِ جنازہ پڑھائے‘‘۔۔۔ جب حضرتؒ کی یہ وصیت مجمع کو سنائی گئی تو مجمع پر سناٹا چھا گیا مجمع ایسے ساکت ہوگیا- جیسے اسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ لوگوں کے سر جھک گئے۔ کون ہے جو قدم آگے بڑھائے، کافی وقت گزر گیا وصیت کا اعلان بار بار کیا جاتا رہا لیکن کوئی بھی شخص نمازِ جنازہ پڑھانے کے لئے تیار نہ ہوا۔ لوگ آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ حضرتؒ کی ان شرائط کے ساتھ کوئی بھی حضرتؒ کا جنازہ نہیں پڑھا سکے گا۔ دن اپنے اختتام کی طرف بڑھنے لگا تو ایک شخص روتا ہوا آگے بڑھا۔ حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ کے جنازے کے قریب آیا۔ جنازے سے چادر ہٹائی اور کہا حضرتؒ ! آپ خود تو فوت ہوگئے، لیکن میرا راز افشا کر گئے۔ اس کے بعد بھرے مجمع کے سامنے اللہ کو حاضر و ناظر جان کر قسم اٹھائی کہ الحمد للہ میرے اندر یہ چاروں خوبیاں موجود ہیں لوگوں نے حیرانگی سے دیکھا، یہ وقت کے بادشاہ شمس الدین التمشؒ تھے۔
غور و فکر کا مقام ہے کہ اگر بادشاہی کرنے والے دینی زندگی گزار سکتے ہیں تو پھر کیا ہم دکان کرنے والے یا فیکٹری چلانے والے یا دفتر میں جانے والے یا کھیتی باڑی کرنے والے ایسی زندگی کیوں نہیں گزار سکتے؟
شمس الدین التمشؒ ترکستان سے تعلق رکھتے تھے۔ تاریخ فرشتہ کے مطابق آپ کے بھائیوں نے مثل حضرت یوسف علیہ السلام باپ کی آپ کے ساتھ غیر معمولی محبت کے سبب حسد و رقابت میں آپ کو ایک سوداگر کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ ترکستان سے ہوتے ہوئے آپ پہلے غزنی پھر دہلی فروخت کیے گئے جہاں قطب الدین ایبک نے ایک لاکھ روپے کے عوض آپ کو ایک تاجر سے خرید لیا اور آپ اپنی فہم و فراست اور مجاہدانہ کردار کی بدولت نہ صرف فوج کے جرنیل مقرر ہوئے بلکہ آپ کی ہونہاری اور تابعداری کی بدولت قطب الدین ایبک نے آپ کو اپنا داماد بھی بنا لیا۔
قطب الدین ایبک 1210ء میں اپنے محل میں پولو کھیل رہا تھا کہ گھوڑے سے گر پڑا اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ کہا جاتا ہے کہ گھوڑے سے گرتے وقت لوہے کی زین اس کے سینے میں پیوست ہو گئی تھی جس کے باعث اس کی موت واقع ہو گئی۔ یوں ہندوستان پر چار سال تک مثالی حکومت کرنے کے بعد وہ اپنے محل میں ہی آسودہ خاک ہوا۔ قطب الدین ایبک کے بعد ان کا نااہل بیٹا آرام شاہ تخت نشیں ہوا تو سلطنت کے ٹکڑے ہونے لگے، تب شمس الدین التمش نے 1211ء میں حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ لے لی۔ اقتدار سلطنت اپنے ہاتھوں لینے کے بعد آپ کو کئی شورشوں اور بغاوتوں سے نبرد آزما ہونا پڑا جن میں فتح و نصرت آپ کا مقدر بنی۔ حاکم غزنی کو شکست دی، پنجاب اور سندھ تک اپنی سلطنت کو وسعت دی اور ناصر الدین قباچہ کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ لکھن اور بہار اور بنگال کو اپنی سلطنت میں شامل کیا۔ سندھ کے وہ علاقے اور قلعے جن کو فتح کرنا ناممکن تھا آپ نے ان کو فتح کیا۔ مختصر یہ کہ راجپوت ریاستیں، خلیجی امرا، ترک امرا، دہلی امرا، فتنہ منگول اور تاتاریوں کی یلغار ان سب کا سدباب کیا۔ آپ نے ہندوستان میں اسلامی حکومت کو استحکام و پائیداری بخشی۔ آپ نے نہ صرف اپنے پیشرو کی سلطنت کو محفوظ رکھا بلکہ اس میں نئے علاقے داخل کر کے اپنی سلطنت کو وسعت دی۔
التتمش فاتح کے ساتھ ساتھ ایک صالح انسان بھی تھے ۔ وہ راتوں کو جاگتے اور عبادت کرتے، تمام عمر انہیں کسی نے سوتے نہیں دیکھا۔ وہ اگر تھوڑی دیر کیلئے سو بھی جاتے، تو جلد ہی بستر سے اُٹھ جاتے اور عالم تخیر میں کھڑے رہتے۔۔۔۔۔ اپنے ملازموں میں سے رات کے وقت کسی کو نہ جگاتے، کہتے کہ آرام کے ساتھ سونے والوں کو اپنے آرام کیلئے کیوں زحمت دی جائے ۔ وہ خود ہی تمام کام سرانجام دے لیتے۔ رات کو گدڑی پہن لیتے تاکہ انہیں کوئی پہنچان نہ سکے۔ ہاتھ میں سونے کے سکوں کا ایک تھیلا اور توشہ دان ہوتا، وہ لوگوں کے گھروں پر جاتے، ان کے حالات معلوم کرتے اور ان کی مدد کرتے۔۔۔ واپسی میں ویرانوں اور خانقاہوں سے ہوتے ہوئے بازاروں میں گشت کرتے اور وہاں کے رہنے والوں کو آسائش پہنچاتے۔ پھر ان سے طرح طرح کی معذرت کرکے چپ چاپ چلے جاتے اور ان سے کہہ جاتے کہ اس مدد کا کسی سے ذکر نہ کرنا۔ التمش کے دربار میں عام اجازت تھی کہ جو رات کو فاقہ کرتے ہیں وہ اس کے پاس آئیں اور امداد پائیں۔ پھر جب غریب و حاجت مند لوگ ان کے پاس آتے تو ان کی ہر طرح سے سلطان دلجوئی کرتے اور ایک ایک کو قسمیں دے کر کہتے کہ دیکھنا فاقہ نہ کرنا، تمہیں جب کسی چیز کی ضرورت پڑی مجھ سے بیان کرنا۔۔۔۔ سلطان نے اپنے دور میں اپنے محل کے باہر ’’ زنجیر عدل‘‘ لگا رکھی تھی۔ کہتے ہیں سب سے پہلے ’’ زنجیر عدل‘‘ کا رواج سلطان التمش نے ہی شروع کرایا تھا۔ سلطان نے غریبوں اور حاجت مندوں میں یہ اعلان کروا رکھا تھا کہ اگر کوئی شخص تم سے نا انصافی کرے اور تم پر ظلم و ستم ڈھائے تو تم یہاں آکر اس زنجیر عدل کو ہلائو تمہاری فریاد سنی جائے گی اور تمہارے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔ پھر لوگوں سے رہ رہ کر کہتے کہ اگر تم مجھ سے اپنی تکلیف بیان نہیں کرو گے، تو کل قیامت کے دن تمہاری فریاد کا بوجھ مجھ سے نہ اُٹھایا جا سکے گا۔۔۔
طبقات ناصری کے مطابق آپ اتنے خدا ترس سخی اور صاحب تقویٰ تھے کہ آپ کی رعایا آپ کو ولی اللہ سمجھتی تھی۔ رات کا زیادہ تر حصہ عبادت میں اور دن میں خیرات و صدقات کرنا آپ کا معمول تھا۔ ابن بطوطہ نے بیان کیا ہے کہ آپ عادل اور صالح تھے ، مظلوموں کی داد رسی پر مستعد رہتے ۔ چنانچہ آپ نے حکم دے رکھا تھا کہ جس کی داد رسی نہ ہو رہی ہو۔ وہ رنگین کپڑے پہن کر رکھے۔ تاکہ اس کی پہچان ہو سکے۔
شمس الدین التمش نے 28اپریل 1236ء کو وفات پائی اور ان کا مزار قطب مینار دہلی میں ہے۔
اب خود کو ہمارے رہنما کہنے والے خود کو خود ہی دیکھیں؟

جواب دیں

Back to top button