ColumnRoshan Lal

چناب میں پانی کم ہونے کے خدشات؟

تحریر : روشن لعل
کچھ ہفتے قبل دریائے چناب پر لکھے گئے کالم میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ یہ دریا کہاں سے شروع ہوکر کن کن علاقوں سے گزرتا ہوا کس مقام پر ختم ہو جاتا ہے ۔ اس کے ساتھ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ یہ دریا خاص طور پر پاکستانی پنجاب کی زرعی معیشت کے لیے کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔ جس کالم میں دریائے چناب کی اہمیت واضح کی گئی تھی اس کا اختتام اس خواہش کا اظہار کیاگیا تھا کہ یہ دریا کبھی بھی دریائے راوی اور ستلج کی طرح اپنے پانیوں سے محروم نہ ہو۔
قبل ازیں دریائے چناب پر جو کالم لکھا گیا ، اصل میں وہ اس اظہار کی تمہید کے لیے تھا کہ فی الوقت دریائے چناب کے اپنے پانی سے محروم ہونے کا تو کوئی خطرہ نہیں لیکن اس میں پانی کا روایتی بہائو کم ہونے کا خدشہ ضرور موجود ہے۔ جن لوگوں نے دریائے چناب پر لکھا گیا گزشتہ کالم پڑھ رکھا ہے انہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس دریا میں اس کی گنجائش کے مطابق پانی کی روانی ملک پاکستان اور خصوصاً پنجاب میں زندگی کی بقاء کے لیے کس قدر ضروری ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ سندھ طاس معاہدہ کے تحت جب پاکستان اور بھارت کے درمیان دریائوں کی تقسیم ہوئی تو تین مشرقی دریائوں راوی، بیاس اور ستلج کا تو سو فیصد پانی بھارت کو دے دیا گیا مگر تین مغربی دریائوں سندھ، جہلم اور چناب کے ستانوے فیصد پانی پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا۔ سندھ طاس معاہدے میں تین مغربی دریائو کے ستانوے فیصد پانی پر پاکستان کا حق تسلیم کرنے ساتھ بھارت کو یہ اختیار بھی دیا گیا کہ وہ پاکستان کے حصے میں آنے والے دریائوں پر اس طرح پن بجلی پیدا کرنے کے منصوبے تعمیر کر سکتا ہے کہ جو پانی بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے وہ اسی مقدار میں پاکستان کی طرف بہتا رہے۔ پن بجلی پیدا کرنے کے لیے اس طرح سے جو ڈیم بنائے جاتے ہیں انہیں رن آف ریور ڈیم (run off river dam)کہا جاتا ہے۔ رن آف ریور ڈیم کی تعمیر کے لیے سائنسی تصور یہ ہے کہ اس کے ذریعے بجلی پیدا کرنے میں استعمال ہونے والا پانی کیونکہ کسی نہر یا ندی میں ڈالے بغیر دوبارہ اسی دریا میں چلا جاتا ہے جہاں سے لیا گیا ہوتا ہے اس لیے دریا میں پانی کے بہائو کی مقدار میں کوئی فرق نہیں آتا۔ رن آف ڈیم کی تعمیر کے لیے جو سائنسی تصور پیش کیا جاتا ہے پاکستان کو اس تصور سے مختلف تصور سے گزرنا پڑا۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ جب بھارت نے پاکستان کے تمام تر احتجاج اور اعتراضات کے باوجود ورلڈ بنک کی ثالثی کے نتیجے میں دریائے چناب پر رن آف ریور بگلیہار ڈیم تعمیر کرلیا تو اس سے بجلی پیدا کرنے سے پہلے اسے پانی سے بھرنا بھی شروع کر دیا۔ ستمبر 2008میں بگلیہار ڈیم سے 150میگا واٹ بجلی کی پیدا وار شروع ہونے پر پاکستان میں دریائے چناب میں پانی کا بہائو معمول سی کم ریکارڈ کیا گیا۔ اس پر پاکستان نے بھارت سے احتجاج بھی کیا۔
واضح رہے کہ بگلیہار ڈیم انڈین کشمیر میں دریائے چناب پر بننے والا پہلا واٹر سٹوریج ڈیم نہیں ہے۔اس دریا پر بگلیہار ڈیم کی طرح کا سلال ڈیم کئی سال پہلے بن چکا ہے۔ دریائے چناب پر بگلیہار ڈیم کی ساءٹ سے 50کلو میٹر ڈائون سٹریم پر واقع سلال ڈیم کی تعمیر کے لیے1970ء میں انڈیا کے کہنے پر اس کے پاکستان سے مذاکرات شروع ہوئے لیکن 1971 ء کی جنگ کی وجہ سے یہ مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے جو شملہ معاہدہ کے بعد پھر سے بحال ہوئے۔ گو کہ انڈیا نے مذاکرات کے نتیجہ سے پہلے ہی ڈیم کی ڈیزائننگ اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کا کام شروع کر دیا تھا لیکن ڈیم کی باقائدہ تعمیر کا آغاز مذاکرات کے نتیجہ خیز ہونے تک شروع نہ ہو سکا۔ یہاں دلچسب بات یہ ہے کہ بھٹو دور میں سلال ڈیم کی تعمیر کے لیے تو انڈیا اور پاکستان کسی سمجھوتے پر نہیں پہنچ سکی تھے لیکن ضیا دور کے دوران 1978ء میں اس مسئلے پر دونوں ملکوں کا سمجھوتہ ہو گیا ۔ یہ بات ابھی تک سامنے نہیں آسکی کہ سلال ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے بھٹو دور میں انڈیا اور پاکستان کا نہ ہونے والا سمجھوتا ضیاء دور میں کیسے ممکن ہو گیا۔ ضیا دور میں سمجھوتے کے بعد سلال ڈیم کی تعمیر کا پہلا مرحلہ 1987ء اور دوسرا مرحلہ جولائی 1996ء میں مکمل ہوا ۔ اس ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 285ملین کیوبک میٹر ہے۔ دریائے چناب پر بننے والایہ ڈیم جب پہلی مرتبہ پانی سے بھرا گیا تو دریائے چناب کے پاکستانی علاقوں کی طرف بہنے والے پانی کی بہائو کی مقدار میں کمی یقینی تھی لیکن جب یہ ڈیم بھر گیا تو پاکستان میں پانی کی کمی کا اس طرح شور نہ ہوا جو بگلیہار ڈیم کے لیے دیکھنے میں آیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سلال ڈیم بھرنے سے چناب میں پانی کے بہائو میں جو کمی ہوئی انڈیا نے اسے دریائے ستلج میں پانی چھوڑ کر پورا کر دیا تھا، یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے۔
بھارت، سلال اور بگلیہار ڈیم تعمیر کر چکا اور ان ڈیموں کے بننے اور بھرنے سے دریائے چناب میں پانی کے بہائو کی مقدار میں جو کمی دیکھنے میں آئی یہاں اس کے اثرات بھی محسوس کیے جاچکے ۔ جو کچھ ہو چکا اسے تو واپس نہیں لایا جاسکتا مگر یہاں فکر انگیز بات یہ ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت پر پاکستان کے حصہ میں آنے والے دریائوں پر رن آف ریور ڈیم بنانے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ بھارت نے پاکستان کے حصے میں آنے والے دریائوں پر جو بیسیوں رن آف ڈیم بنانے کے منصوبے بنا رکھے ہیں ان میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں۔
برسار ڈیم ہماچل پردیش صوبے کے ضلع چمبہ سے متصل جموں کشمیر کے ضلع ڈوڈا کی تحصیل کشتواڑ میں دریائے چناب کے ایک بہت بڑا معاون دریا ماروسودر (Marusudar)پر بنایا جائے گا۔ سوالکوٹ ڈیم انڈین کشمیر میں بگلیہار ڈیم کی سائٹ سے 30کلو میٹر آگے بنایا جائے گا۔ دریائے چناب کے معاون دریا ماریوسودر پر بنائے گئے ڈل حستی ڈیم کا افتتاح سابق بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے مورخہ 26۔4۔2008کو کیا تھا۔ ڈل حستی ڈیم اور بگلیہار ڈیم میں ایک ساتھ پانی بھرا گیا تھا۔ برسار ڈیم اور ڈل حستی ڈیم کی طرح پاکال ڈیم بھی ماروسودر دریا پر بنایا جائے گا۔ اسی طرح راتلے ڈیم کے لیے دریائے چناب پر کشتواڑ تحصیل کے دھرب شالا گائوں کے قریب جگہ کی نشاندہی کی جاچکی ہے۔
جو ڈیم بھارت بنا چکا ہے یا بنانے کا ارادہ رکھتا ہے، سندھ طاس معاہدے کی رو سے پاکستان کو ان کی تعمیر روکنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے جن رن آف ڈیموں کی تعمیر سے بھارت کو روکا نہیں جاسکتا ، ان کی تعمیر سے دریائے چناب میں پانی کے بہائو میں آنے والی کمی سے خاص طور پر پنجاب میں جو مسائل پیدا ہونگے، کیا ان سے نمٹنے کا ہمارے پاس کیا منصوبہ ہے۔

جواب دیں

Back to top button