مودی کا بھارت ’’ بے روزگاری کا مرکز ‘‘

تحریر : قادر خان یوسف زئی
بھارت میں عام انتخابات کا چوتھا مرحلہ مکمل ہوا، بھارتی نوجوان ووٹر اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیں تو دوسری جاب مودی کی ہندو توا کی سیاست نے انہیں اپنے بنیادی حقوق کے بارے میں سوچنے کا موقع بھی فراہم نہیں کیا، مذہبی منافرت اور پاکستان مخالف تقاریر میں منفی جذبات کو ابھارنے کے درپردہ مقاصد میں بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی ) کا ایک مقصد یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ووٹر ان سے اپنے بنیادی مسائل کو جانچنے کا سوال ہی نہ کریں ۔ مثال کے طور بھارت کو درپیش ان گنت مسائل میں ایک اہم مسئلہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا ہے، مودی حکومت کے وعدے کو برسوں سے جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس وعدے کی تکمیل کے بارے میں خدشات پیدا ہوئے ہیں۔ بی جے پی نے مرکز میں اقتدار حاصل کرنے سے قبل بیروزگاری کا خاتمہ کرتے ہوئے ملک کے نوجوانوں سے ملازمتوں کی فراہمی کا وعدہ کیا تھا، زعفرانی جماعت قریب 10سال سے اقتدار میں ہے لیکن یہ وعدہ پورا نہیں ہوا۔ تو جوان نسل کو جو خواب دکھائے گئے تھے وہ شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے۔ سال 2014کے انتخابات سے قبل نریندر مودی نے اعلان کیا تھا کہ ہر سال دو کروڑ سرکاری ملازمتوں پر تقرر کئے جائیں گے، اگر اس حساب سے دیکھا جائے تو ابھی تک 20کروڑ سے زائد نوجوانوں کو سرکاری ملازمتیں فراہم ہونی چاہئے تھیں۔ تاہم، حقیقی ملازمتوں کی تعداد نے ان اہداف کو پورا نہیں کیا، جس کی وجہ سے نچلی سطح کی ملازمتوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی شرکت اور بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا۔ سرکاری کمپنیوں کی نجکاری نے بہت سے سروس ملازمین کے لیے ملازمت کے تحفظ کو بھی متاثر کیا ہے۔مودی سرکار نے فوج کی تعداد میں اضافے کے نام پر بے روزگاروں کو بھرتی کرنے کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا ، بظاہر اس قابل ذکر اسکیم، اگنی پتھ ، جس کا مقصد بے روزگار نوجوانوں کو فوج میں عارضی ملازمت فراہم کرنا تھا۔ ان افراد کے لیے ملازمت کی طویل مدتی پائیداری کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ۔ واضح رہے کہ اس ملازمت کی مدت کار صرف 4سال ہے یعنی 4سال بعد فوج میں ملازمت حاصل کرنے والے نوجوان دوبارہ بیروزگار ہو جائیں گے۔ حکومت کے اس اقدام سے سابق فوجیوں سمیت نو جوان سخت ناراض ہیں۔ مودی سرکار کی اس اسکیم کو پزیرائی نہیں مل سکی اور اپوزیشن جماعتوں سمیت سول سوسائٹی نے آر ایس ایس نظریے کے تناظر میں مودی سرکار کی جانب سے نوجوانوں کو قلیل المدت فوجی تربیت دینے کا منصوبہ تنازعات کی زد میں رہا ، جس میں دوسرا اہم نکتہ ان فوجیوں کی ملازمتوں کا تحفظ اور پیشہ وارنہ قابلیت کا نہ ہونا بھی تھا ۔ یہاں یہ ذ کر بے جانہ ہوگا کہ مودی کارکردگی پربھی تشہیر کرنے والی پارٹی بی جے پی کے قائدین انتخابی مہم کے دوران نوجوانوں کو روزگار دینے کے حوالے سے تقاریر میں چپ سادھے ہوئے ہیں اور گودی میڈیا بھی ایسے اعداد و شمار دینے سے گریز کر رہا ہے کہ تا حال کتنے نو جوانوں کو ملازمتیں فراہم کی گئی ہیں، البتہ عوام اپنی آواز حکومت تک اور ملک بھر میں پہنچانی کے لئے سوشل میڈیا کا سہارا لے رہے ہیں کیونکہ مرکزی کے ساتھ بھارتی میڈیا اس سنگین مسئلہ پر خاموش ہے۔
مودی سرکار نے مقامی مصنوعات کو فروغ دینے اور خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنانے کے اقدامات سمیت مختلف اسکیموں اور وعدوں کے باوجود، ان ارادوں کو ٹھوس نتائج میں تبدیل کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ بلقیس بانو کیس جیسی مثالیں ہراسانی کا سامنا کرنے والی خواتین کی حمایت میں کمی کو اجاگر کرتی ہیں۔ مجموعی طور پر، یہ احساس ہے کہ مرکزی حکومت کو ملازمتوں کی تخلیق، مہنگائی پر قابو پانے، غربت کے خاتمے، اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی جیسے شعبوں میں کوتاہیاں کی ہے۔ وعدوں اور نتائج کے درمیان فرق نے سوشل میڈیا پر بحث چھیڑ دی ہے، جس میں حکومت سے جوابدہی اور کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ بھارتی افرادی قوت کو درپیش ابھرتے ہوئے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے موثر روزگار پیدا کرنی کی حکمت عملیوں، روزگار کے پائیدار مواقع، اور مختلف شعبوں کے لیے جامع تعاون کی ضرورت اب بھی اہم ہے۔
مودی سرکار نے عوام کے بنیادی مسائل کے حل کے بجائے اپنی کارکردگی کے بجائے اشتعال انگیز اور جذباتی تقاریر کا سہارا لیا۔ صورتحال یہ ہے کہ اعلی تعلیم کے یافتہ نو جوانوں کی بیروزگاری کی شرح میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ حصول اعلیٰ تعلیم کے باوجود بھی نو جوان معمولی سرکاری ملازمتیں کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ درجہ چہارم کی ملازمتوں کے لئے بھی اعلی تعلیم یافتہ نو جوان درخواستیں داخل کر رہے ہیں یا پھر تلاش معاش کے سلسلہ میں بیرون ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔ جو زمینی حالات اور حکومت کے قول و فعل میں تضاد کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو گزشتہ 10سال کے دوران مرکزی حکومت مہنگائی پر قابو پانے سے لے کر روزگار کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ہر محاذ پر نا کام ہو چکی ہے، اگر عالمی سطح پر انسانی ترقی کی فہرست پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ بھوک، غربت، آزادی صحافت، انفراسٹرکچر، تعلیم اور روزگار کے معاملہ میں بھارت مقام بہت ہی نیچے ہے۔
بھارت میں بے روزگاری سے نمٹنے کے حوالے سے مودی حکومت کے ریکارڈ کو حزب اختلاف کی جانب سے خاصی تنقید کا سامنا ہے۔ اپوزیشن انڈین نیشنل کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی نے وزیر اعظم مودی پر بھارت کو ’’ بے روزگاری کے مرکز‘‘ میں تبدیل کرنے کا الزام لگایا ہے۔ گاندھی نے دعویٰ کیا کہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی حکومت جیسی مودی سرکار کی پالیسیوں نے ملک میں بے روزگاری کو بڑھا دیا ہے۔ کانگریس کے ایک اور رہنما پرینکا گاندھی واڈرا نے کہا کہ بے روزگاری کی شرح ’’ مودی حکومت کے تحت ملک میں سب سے زیادہ‘‘ ہے۔ اپوزیشن نے انڈیا ایمپلائمنٹ رپورٹ 2024کے اعداد و شمار پر اظہار کیا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت کے 83%بے روزگاروں کی عمریں 15۔29سال کے درمیان ہیں۔ انہوں نے ان اعداد و شمار کو بی جے پی حکومت کے روزگار پیدا کرنے کے کھوکھلے دعوں کو چیلنج کرنے کے لیے پیش کئے۔ بے روزگاری کی شرح پر حکومتی دعوئوں پر، اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ یہ محض ایک ’’ سیاسی بیانیہ‘‘ ہے اور حکومت بے روزگاری کے گہرے ہوتے بحران کو’’ بڑے پیمانے پر چھپانے‘‘ میں مصروف ہے۔ لہذا مودی سرکار نفرت انگیز انتخابی ماحول بنانے کے بجائے پہلے اپنی عوام کو کارکردگی کا جواب دیں ۔





