ColumnTajamul Hussain Hashmi

خدشات کبھی نہیں مرتے

تحریر : تجمل حسین ہاشمی
چند سال قبل تک بیگ میں کیش لا کر بنا کسی سوال جواب کے دبئی میں پراپرٹی خریدنا ممکن تھا۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ زیادہ تر لوگوں نے اسی دوران دبئی میں سرمایہ کاری کی ہو گی۔ چند سال پہلے دبئی کی ترقی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ یہاں کسی سے یہ سوال نہیں کیا جاتا تھا کہ وہ پیسہ جو یہاں سرمایہ کاری کے لیے لا رہے ہیں وہ کن ذرائع سے آیا۔ یہاں سرمایہ کاری کرنا اور پیسہ لانا سوئٹزر لینڈ سے بھی آسان تھا۔
دبئی میں پراپرٹی خریدنے والوں کو ٹیکس فری ماحول فراہم کیا گیا ہے جو ایک پرکشش موقع تھا کیوں کہ دبئی میں پراپرٹی کے کرائے بھی کافی زیادہ ہیں اور سرمایہ کار کو ایک اچھا منافع ملتا رہتا ہے۔ دبئی میں پراپرٹی خریدنے والوں کو سرمایہ کاری کے ذریعے مخصوص ریزیڈنسی ویزا حاصل کرنے کی پیشکش بھی کی جاتی ہے۔ جو جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے افراد کو دبئی منتقل ہونے اور یہاں سرمایہ کاری کرنے میں مفید ثابت ہوتی ہے۔ دبئی میں ان مبہم قوانین کی وجہ سے ہی ایف اے ٹی ایف نے 2022میں دبئی کو گرے لسٹ میں شامل کر لیا تھا اور رواں سال مارچ میں دبئی اس لسٹ سے نکلنے میں کامیاب ہوا۔ اب دبئی کے قوانین میں بہت تبدیلی ہو چکی ہے۔ بینکنگ ذرائع کے ذریعے ہی پیسہ لایا جا سکتا ہے جس کی وجہ سے ماضی کے سین اب اتنے آسان نہیں رہے۔ مجموعی طور پر دبئی میں بینک اب بھی کسی سے یہ نہیں پوچھتے کہ وہ پیسہ کہاں سے اور کیسے کما کر لا رہے ہیں جب تک وہ بینکنگ چینل سے آ رہا ہو ۔
او سی سی آر پی کی ویب سائٹ کی معلومات کے مطابق یہ تمام معلومات اس لیک ہونے والے ڈیٹا کی مدد سے تیار کی گئی ہیں جو دبئی لینڈ ڈیپارٹمنٹ اور متعدد دیگر سرکاری کمپنیوں سے ملا اور یہ 2020ء سے 2022ء کی مدت کا ریکارڈ تھا۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ ڈیٹا سب سے پہلے واشنگٹن ڈی سی میں موجود سینٹر فار ایڈوانسڈ ڈیفینس سٹڈیز نامی غیر سرکاری تنظیم نے حاصل کیا جو بعد میں او سی سی آر پی کو فراہم کیا گیا۔
دبئی ان لاکڈ نامی بین الاقوامی تحقیقات میں دبئی میں رئیل اسٹیٹ شعبے کے غیر ملکی مالکان کے بارے میں جاننے کی کوشش کی گئی ان چھ ماہ تک جاری رہنے والی تحقیقات کی قیادت آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پراجیکٹ ( او سی سی آر پی) نے کی جس میں دنیا بھر سے میڈیا کے 70سے زیادہ اداروں کے صحافیوں نے حصہ لیا۔ پاکستان کا ایک نیوز پیپرز بھی حصہ تھا۔ خبر بریک ہونے کے بعد ہمارے سیاسی رہنمائوں کی طرف سے موقف آنا شروع ہو گئے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس ( سابقہ ٹوئٹر ) پر تحریک انصاف کے سابق رہنما شفقت محمود نے سوال اٹھایا کہ دبئی میں پراپرٹی رکھنے والے جن افراد کا نام سامنے آیا وہ کہتے ہیں کہ ان کے اثاثے ڈکلیئرڈ شدہ ہیں لیکن اصل معاملہ ایف بی آر میں یہ پراپرٹی ڈیکلیئر کرنے یا ٹیکس کی ادائیگی کا نہیں بلکہ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پراپرٹی خریدنے کے لیے یہ پیسہ کہاں سے آیا اور دبئی ٹرانسفر کیسے ہوا ؟۔
بظاہر اس دبئی لیک کے دبائو کو پریس کانفرنسز کے ذریعے کم کیا جائے گا کیوں سابق وزیر خزانہ شبر زیدی کا کہنا تھا کہ ہمارے اداروں کے پاس وسائل نہیں ہیں جو ان کی تحقیقات کر سکیں اور سابق رہنما شفقت محمود کی طرف سے پوچھے گئے سوال کا جواب بھی نہیں مل سکے گا کیوں پانامہ سکینڈل کا حال سب کے سامنے ہے۔ حکومت چلی گئی لیکن احتساب نہ ہو سکا۔ صحافی شیراز پراچہ نے اپنے وی لاگ میں پانامہ اور دبئی لیکس کو سی پیک کے خلاف سازش قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس تنظیم OCCRPکو امریکہ جیسی طاقتوں کی سپورٹ حاصل ہے۔ جو نہیں چاہتی کہ پاکستان سی پیک کو مکمل کرے لیکن سابق رہنما شفقت محمود کا سوال بہت حد تک حقیقت پر مبنی ہے۔ پاکستان اس وقت شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ انٹر نیشنل مالیاتی اداروں سے قرضہ کے حصول کے لیے ان شرائط کو تسلیم کرنا مجبوری ہے جس کی وجہ سے قوم کو مہنگائی کا سامنا ہے۔ چند روز پہلے آزاد کشمیر میں عوام مہنگائی کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔ محب وطنی کا چرچا کرنے والوں نے غیر ملکی کاروبار سے کما کر اپنے پاکستان میں کون سا نیا کاروبار شروع کیا جس سے غریب عوام کو روزگار میسر ہوا ہو۔ پھر یہ نعرے، بیانیے کس کام کے ہیں۔ یہ کیسی محب وطنی ہے کہ آپ اپنے بچے، مال سب کچھ باہر رکھیں اور بادشاہ آپ ہی ہوں۔ دبئی لیک میں جتنی شخصیات کا نام ہے، ان سب کے گوشوارے غریب قوم کے سامنے رکھے جائیں۔ تاکہ قوم کو یقین ہو کہ دبئی لیکس میں استعمال پیسہ قانونی طریقہ سے باہر منتقل کیا گیا ہے، جس کا حکومت پاکستان کے پاس مکمل ریکارڈ موجود ہے۔ اگر حکومت ان سوالات کو واضح نہیں کرے گی تو شکوک و شبہات برقرار رہیں گے۔ غیر یقینی برقرار رہے گی۔ ان خدشات کو ختم کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کو ایک قدم آگے بڑھنا ہو گا۔ ثابت کرنا ہو گا کہ قوم کا مفاد ان کو مقدم ہے۔ اداروں کو اپنی روش تبدیل کرنی ہو گی۔ ابھی ان تمام سٹک ہولڈر کے پاس وقت ہے۔ ہماری کم تعلیم یافتہ قوم اس تیز ترین ٹیکنالوجی کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ حکومتوں، اداروں کی لاپرواہی غیر یقینی صورتحال کا سبب بنتی ہے۔ آرڈر انصاف اور برابری متقاضی ہے۔

جواب دیں

Back to top button