ColumnRoshan Lal

فلسطینیوں کے حالات اور عالمی سیاست

تحریر : روشن لعل
حماس کے اسرائیل پر راکٹ حملوں اور اسرائیل کی طرف سے ان حملوں کا وحشیانہ جواب دینے سے پہلے غزہ کے لوگ جو زندگی گزار رہے تھے ، اس کا بحال ہونا اگرچہ جنگ بندی کے کئی برس بعد بھی ممکن نہیں ہو سکے گا مگر اس کے باوجود رفح کے خیموں میں موجود فلسطینوں نے حماس ، اسرائیل بات چیت کے اعلان پر خوشی کا اظہار کیا۔ شاید انہوں نے یہ سوچ کر ایسا کیا کہ اگر اسرائیلی حملے بند ہو گئے تو کم از کم ان کا اور ان کے بچوں کا کسی بھی وقت موت کے منہہ میں جانے کا خوف تو ختم ہو جائے گا۔ رفح کے خیموں میں موجود فلسطینیوں کی یہ کیفیت چند گھنٹوں کی مہمان ثابت ہوئی کیونکہ حماس ، اسرائیل بات چیت کی خبریں آنے کے بعد ان تک یہ اطلاع بھی پہنچ گئی کہ وہ فوراً رفح کی خیمہ بستی سے کوچ کر جائیں کیونکہ اسرائیل وہاں شدید بمباری کا فیصلہ کر چکا ہے۔ قاہرہ میں حماس اور اسرائیل کے درمیان بات چیت ناکام ہونے سے پہلے ہی اسرائیل نے رفح پر بمباری شروع کردی۔ اسرائیلی بمباری سے اپنی جانیں بچانے کے لیے فلسطینی اس غزہ میں کہیں اور سر چھپانے کے لیے نکل پڑے ہیں جہاں فی الوقت کوئی بھی جگہ ان کے لیے دارلامان نہیں سمجھی جاسکتی۔ مصر اور دیگر عرب ملکوں میں سے کوئی بھی ان غزہ باسی فلسطینیوں کے لیے اپنی سرحد کھولنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ ان عرب ملکوں کا کہنا ہے کہ اگر انہوں نے ان فلسطینیوں کے لیے اپنی سرحد کھولی تو اسرائیل فوری طور پر تباہ شدہ غزہ میں اس طرح نئی یہودی بستیاں بسا لے گا کہ پھر کسی فلسطینی کاوہاں دوبارہ آباد ہونا ممکن نہیں ہو سکے گا۔
ایک طرف تو غزہ باسی فلسطینیوں کے یہ حالات ہیں کہ وہ زندہ لاشوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور دوسری طرف اقوام متحدہ بنانے اور اس کے انسانی حقوق ، چارٹر کی تشکیل کو اپنا عظیم کارنامہ قرار دینے والے ملک عالمی سطح پرجو سیاسی کھیل رہے ہیں اس سے یہ بات صاف نظر آرہی ہے کہ ان کی سیاست کا محور جنگ سے تباہ شدہ فلسطینیوں کے دکھوں کا مداوا نہیں بلکہ اپنے اپنے علاقائی اور معاشی مفادات کا تحفظ ہے۔ اس طرح کی مکروہ سیاست کی وجہ سے جہاں عالمی فضا ہر سو مکدر ہو چکی ہے وہاں اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی جاری نسل کشی روکنے کے لیے آواز بلند کرنے والے امریکی طالب علم تازہ ہوا کے جھونکے محسوس ہو رہے ہیں۔ امریکی یونیورسٹیوں کے ان طالب علموں کی آوازیں نہ جانے کیوں مسلم دنیا کی یونیورسٹیوں اور وہاں کی نوجوانوں تک تو نہیں پہنچ سکیں مگر یورپ کے تعلیمی اداروں میں نہ صرف انہیں سنا جارہا ہے بلکہ وہاں کے طالب علموں نے ان میں اپنی آوازیں بھی شامل کر رہے ہیں۔
غزہ میں جنگ بندی کے لیے امریکہ اور یورپ کے طالب علموں کی آوازیں بلند ہونے کے باوجود اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو، فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم کے ارتکاب سے گریز کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آرہا۔ ایسے حالات میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے متحدہ عرب امارات کی پیش کی گئی وہ قرار داد منظور کی ہے جس میں فلسطین کو یو این او کا مکمل اور مستقل رکن ملک بنانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ جنرل اسمبلی میں فلسطین کے اقوام متحدہ کا ممبر ملک بننے کی قرارداد دو تہائی اکثریت سے منظور ہونے کے باوجود اس کی حیثیت اب بھی مبصر ملک کی ہی رہے گی۔ اقوام متحدہ کے قواعد و ضوابط کے مطابق کوئی بھی ملک صرف اس صورت میں اس کا مکمل رکن بن سکتا ہے جب ، یا تو سیکیورٹی کونسل سے اس کے رکن بننے کی قرارداد منظور ہونے کے بعد جنرل اسمبلی بھی اسے دو تہائی اکثریت سے پاس کرے یا پھر جنرل اسمبلی سے منظور ہونے والی ایسی قرارداد بعد ازاں سیکیورٹی کونسل سے بھی پاس ہو ۔ امریکہ نے ، 14اپریل 2024کو سیکیورٹی کونسل میں فلسطین کے اقوام متحدہ کا مکمل رکن بننے کی قرارداد ویٹو کر کے اس کے جنرل اسمبلی میں جانے کا راستہ روک دیا تھا۔ فلسطین کے یو این کا مکمل رکن بننے کی قرارداد ،جنرل اسمبلی میں نئے سرے سے پیش اور منظور ہونے کے بعد اب دوبارہ سیکیورٹی کونسل میں پیش کی جاسکے گی۔ یہ بات طے ہے کہ امریکہ، سیکیورٹی کونسل میں اس قرارداد کو دوبارہ ویٹو کرکے فلسطین کو یو این کا مکمل رکن بننے کے حق سے پھر محروم کر دے گا مگر اس کے باوجود یہ فرق ضرور پڑا ہے کہ اب جنرل اسمبلی میں اپنے متعلق کوئی بات کرنے کے لیے فلسطینی نمائندوں کو کسی دوسرے ملک کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
فلسطین کو اقوام متحدہ کا مکمل رکن بنانے کے حق میں جنرل اسمبلی میں منظور کی گئی قرارداد کے لیے ڈالے گئے ووٹوں کا جو پیٹرن سامنے آیا ہے اس سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ دو تہائی اکثریت سے پاس ہونے والی اس قرارداد کے حق میں 143اور مخالفت میں 9ووٹ آئے ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے 25ملکوں نے اس قرارداد کے لیے ہونے والی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ ارجنٹائین کی طرف سے اس قرارداد کی مخالفت اور سویڈن کے ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کو سب سے حیران کن تصور کیا جارہا ہے۔ یہ حیرانگی اس لئے کہ یورپی یونین میں شامل ملکوں میں سویڈن نے 2014میں سب سے پہلے فلسطین کو ریاست تسلیم کر کے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے تھے مگر اب اس نے مذکورہ قرارداد کے حق میں ووٹ ڈالنے کی بجائے غیر حاضر رہنے کو ترجیح دی۔ اسی طرح ارجنٹائین جو ماضی میں ہمیشہ فلسطینی مفاد کا ساتھ دیتا رہا مگر آج کل شدید مالی بحران سے چھٹکارا پانے کے لیے امریکہ تعاون کی خواہش رکھنے کے باعث فلسطین کے حق میں پیش کی گئی قرارداد کے مخالفوں کی صف میں کھڑا نظر آیا۔ دوسری طرف سویڈن کے انتہائی قریب سمجھے جانے والے سکنڈے نیوین ملکوں ڈنمارک اور ناروے نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔ چیک ریپبلک اور سلواکیہ، ماضی میں چیکوسلوالیہ نامی ملک کے دو حصے تھے اور اب بھی ان کے تعلقات مثالی سمجھے جاتے ہیں مگر ان میں سے سلواکیہ نے قرارداد کے حق اور چیک ریپبلک نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ یورپی یونین کے اہم ترین ملک فرانس نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جبکہ جرمنی ، برطانیہ، آسٹریا، فن لینڈ، اٹلی، ہالینڈ، سوئٹزر لینڈ اور کینیڈا جیسے ملک جو امریکہ کے اتحادی اور اسرائیل کے حمایتی تصور کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے قرارداد کے حق یا مخالفت میں ووٹ ڈالنے کی بجائے غیر حاضر رہنے کو ترجیح دی۔ متحدہ عرب امارات کی فلسطین کے لیے پیش کی گئی قرارداد کے ووٹنگ پیٹرن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مختلف ملکوں نے غزہ کی صورتحال کو مد نظر رکھنے سے زیادہ ، عالمی سیاست میں اپنے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھ کر ووٹ دیا۔ امریکہ کے اتحادی اور اسرائیل کے حمایتی سمجھے جانے والے جن ملکوں نے قرارداد کے حق میں ووٹ ڈالا، یا وہ ووٹنگ کے عمل سے غیر حاضر رہے ، ان کے اس عمل کا کریڈٹ اس دبائو کو بھی قرار دیا جارہا ہے جو ان ملکوں کے طالب علم اپنی حکومتوں پر ڈال رہے ہیں ۔ عالمی سطح پر جاری مکروہ سیاست میں غزہ میں جنگ بندی کے لیے اگر کسی پر امید رکھی جاسکتی ہے تو وہ امریکی یونیورسٹیوں کے طالب علم ہیں۔

جواب دیں

Back to top button